احمد اواہ : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ’
ندیم احمد : وعلیکم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ’
سوال : ندیم صاحب، ابی سے آپ کا ذکر سنتے تھے ملاقات کا اشتیاق تھا آج ابی نے بتایا کہ آپ ایک سال کی جماعت میں جا رہے ہیں اور مرکز نظام الدین سے کسی نئی جماعت میں جانے والے ہیں جانے سے پہلے آپ ملاقات کے لئے مسجد خلیل اللہ آ رہے ہیں خوشی ہوئی کہ ملاقات ہو
جا ئے گی۔
جواب : احمد بھائی میرے تین چلے باقی ہیں، الحمد للہ ایک چلہ پہلے اور پھر چھ چلے لگاتار لگ گئے ہیں ابھی ہم لوگ گودھرا میں وقت لگا کرآئے ہیں، مرکز آیا تھا تو مولانا صاحب (مولانا کلیم صدیقی ) کو فون کیا معلوم ہوا دہلی میں ہیں بحرین وغیرہ کا سفر ہے۔ بہت خوشی ہوئی جیسے لاٹری نکل گئی ہو الحمدللہ اس دوران میری بار بار اللہ تعالیٰ ملاقات کراتے رہے، کبھی کبھی جب میری ملاقات نہیں ہوتی ہے تو خواب میں ملاقات ہو جاتی ہے، مولانا احمد صاحب اس سے بھی بہت تسلی ہو جاتی ہے۔
سوال : ندیم بھائی آپ سے ارمغان کے لئے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ؟
جواب : جی احمد بھائی میں بھی اسی لئے رکا ہوا ہوں، ابھی حضرت فرما کر گئے ہیں کہ احمد آرہے ہیں آپ سے انٹرویولیں گے۔
سوال : آپ اپنے خاندان کا تعارف کرایئے؟
جواب :احمد بھائی میں جنوبی ہند کی مشہور ریاست کے مرکز میں ایک مراٹھا خاندان میں پیدا ہوا، والد صاحب ایک بینک میں منیجر تھے۔ ابتدائی تعلیم ایک اچھے اسکول میں ہوئی، بی کام کیا اور پھر ایم بی اے اس کے بعد میں انگلینڈ چلاگیا۔ ۴؍جنوری ۲۰۰۰ء کو میرے والد صاحب کا اچانک ہارٹ اٹیک ہو کر انتقال ہو گیا اور مجھے بیرون چھوڑ کر وطن لوٹنا پڑا۔ ہندوستان کے ایک بڑے مسلمان تاجر کے ساتھ وابستہ ہو گیا۔پہلے منیجر کی حیثیت سے ایک کمپنی میں رہا بعد میں کمپنی کا ڈائر کٹربن گیا الحمد للہ یہاں میں نے خوب کمایا۔ والد صاحب کا بھی اکیلا بیٹا ہوں انھوں نے بھی بہت سرمایا چھوڑا، میرے اللہ کا کرم ہے، فری میں مجھ گدھے کو ملیدہ کھلا رہے ہیں۔
سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتایئے ؟
جواب : احمد بھائی، میرا اسلام میرے اللہ کی شان ہدایت کی کرشمہ سازی ہے۔
سوال : ابی بھی آپ کے بارے میں اسی طرح کہا کرتے ہیں اس لئے تو اور بھی آپ سے ملنے کا اشتیاق تھا ۔
جواب : میری کمپنی میں ایک خوبصورت لڑکی مسلم گھرانہ کی اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے کام کرتی تھی میں نے انگلینڈ سے آکر کمپنی میں کام شروع کیا تو پہلے ہی روز وہ مجھے بھاگئی۔ وہ شریف خاندان کی لڑکی تھی، روز بروز مجھے اس سے تعلق بڑھتا گیا۔ مذہب اور برادری کی دیوار توڑکر میں ہر قیمت پر اس سے شادی کرنا چاہتا تھا، مگر وہ کسی طرح مجھ سے کام کے علاوہ بات کرنا بھی پسند نہ کرتی تھی۔ میں نے بہت کوشش کی تہواروں پر بہانے سے اس کو تحفے دیئے اس کے لئے مجھے اور بھی لوگوں کو تحفے دینے پڑے اصل میں وہ اپنے خاندان کے ہی کسی لڑکے کے ساتھ شادی کی خواہش مند تھی۔ ہماری کمپنی کے مالک جو ایک بڑے سخی آدمی تھے، ان کا انتقال ہوا وہ کافی عمر رسید ہ تھے ان کے انتقال کے بعد جو خیر کے کام ان کے تعاون سے چل رہے تھے ایک وقت کے لئے بند ہو گئے اس کے لئے کچھ لوگوں کی رائے ہوئی کہ ان کے بڑے بیٹے (جو ایک طرح سے ذمہ دار تھے ) سے حضرت مولانا کلیم صاحب کی ملاقات ہو جائے اور وہ انھیں ان کے والد کے واسطہ سے کئے جانے والے خیر کے کاموں سے واقف بھی کرائیں اور اس کام کے لئے وقت دینے کے لئے ان کی ذہن سازی بھی کریں لوگوں کے اصرار پر مولانا نے سفر کا پروگرام بنایا۔ ملاقات کا وقت طے ہو گیا۔ والد صاحب کا دفتر الگ تھا اور صاحب زادے کا دفتر دوسری جگہ تھا۔ مولانا صاحب والد صاحب کے دفتر میں وقت مقررہ پر پہنچ گئے، آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد انھوں نے دفتر سکریٹری کو فون کرنے کو کہا، معلوم ہوا کہ وہ اپنے دفتر میں انتظار کر رہے ہیں۔ دفتر سکریٹری نے اپنی گاڑی سے دوسرے دفتر پہنچایا وہ معذرت کے لئے اپنے دفتر کے باہر استقبال کے لئے نیچے آئے ملاقات آدھا گھنٹے کی طے تھی مگر باتیں ہوتی رہیں تو ڈیڑھ گھنٹے تک باتیں ہو ئیں واپسی میں وہ گاڑی تک چھوڑنے کے لئے آنے لگے مولانا صاحب نے بہت اصرار سے لفٹ تک چھوڑ دینے کو کہا اور فرمایا کہ مہمان کو گھر کے دروازے تک چھوڑنا سنت ہے،بس لفٹ کے دروازے تک چھوڑنے سے سنت بھی ادا ہو جائے گی۔ سیٹھ صاحب نے مجھے بلایا اور نیچے گاڑی تک مولانا کو چھوڑکر آنے کے لئے کہا۔ میں مولانا صاحب کے ساتھ لفٹ میں دفتر کی ساتویں منزیل سے سوار ہوا، پانچویں منزل پر جہاں ہمارا دفتر تھا وہاں جا کر لفٹ کھلی وہی لڑکی اس میں سوار ہوئی۔ مولانا صاحب نے بہت اچھی خوشبو لگا رکھی تھی ۔اس لڑکی نے سمجھا کہ میں نے یہ خوشبو لگا رکھی ہے ۔اس نے بے اختیار زندگی میں پہلی بار مجھ سے اس اندازمیں گفتگو کی ‘‘کیا خوشبو لگائی ہے، نظر نہ لگ جائے ’’
میں نے مولانا صاحب کو رخصت کیا دوسرے دفتر سکریٹری کو فون کیا جن سے مولانا صاحب کے بہت تعلقات تھے، میں نے کہا مولانا صاحب نے بہت اچھی خوشبو لگا رکھی تھی وہ خوشبو مجھے چاہئے انھوں نے مولانا صاحب سے معلوم کیا کہ آپ نے کون سی خوشبو لگا رکھی تھی مولانا نے بتایا کہ مجھے نام تومعلوم نہیں دوبئی سے ایک دوست نے ہدیہ میں دی تھی۔ انہوں نے مولانا صاحب سے کہا کہ وہ خوشبوہمیں چاہئے، مولانا صاحب نے کہا میری جیب میں شیشی ہے وہ منگالیں انہوں نے ڈرائیور بھیج کر وہ عطر منگوایا۔ میں نے وہ لگایا، اس لڑکی نے ہر دفعہ اس خوشبوکی تعریف کی میں نے وہ عطر کی شیشی اس کو دیدی۔ اس سے کچھ بات بنتی دکھائی دی ۔لڑکی کے والد ارمغان پڑھتے تھے اس کی وجہ سے دعوت کا ذہن تھا مجھے کچھ معلومات ہوئیں تو میں نے ان کے والد صاحب سے پیغام کہلوایا کہ آپ اپنی لڑکی سے میری شادی کریں تو میں مسلمان ہو کر نکاح کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے سنا تو بہت استقبال کیا اپنی لڑکی کو راضی کرنے کی کوشش کی اور کسی طرح دباؤ دے کر اس کو راضی کر لیا اور مجھ سے کہا اسلام قبول کر کے جماعت میں چالیس روز لگا دیں تو ہم رشتہ کے لئے تیار ہیں ان کے ساتھ جاکر شہر کی جامع مسجد کے امام صاحب کے پاس جاکر میں نے کلمہ پڑھا اور جماعت میں چلا گیا، بنگلور میں میرا وقت لگا آکر شادی ہو گئی۔
سوال : آپ کے خاندان والوں نے مخالفت نہیں کی ؟
جواب : کچھ لوگوں نے اعتراض کیا، مگر خاندان میں ذراآزادی رائے کا مزاج ہے، سب پڑھے لکھے لوگ ہیں بہت زیادہ مخالفت نہیں ہوئی۔
سوال : شادی کے بعد ازدواجی زندگی کیسی گزر رہی ہے ؟
جواب : مولانا احمد صاحب، کیسی ازدواجی زندگی ؟اس لڑکی کو مجھ سے مناسبت نہ ہو پائی وہ اپنے خاندان کے ایک لڑکے سے شادی چاہتی تھی۔ اس نے دل سے شاید یہ شادی رضامندی کے ساتھ نہیں کی تھی، بلکہ بعد میں معلوم ہوا کہ والدنے ان سے کہا تھا کہ اگر تم اس سے شادی کے لئے تیار نہیں ہوتی تو گھر سے چلاجاؤں گا۔ اس دباؤ میں اس نے منظور کر لیا تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ اختلافات بہت جلدی ہوئے اور آٹھ ماہ میں، میں بھی عاجز آگیا اور طلاق ہو گئی۔
سوال : اس شادی کی ناکامی کے بعد آپ کے دل میں پھر اسلام سے واپس جانے کا خیال نہیں آیا ؟
جواب :اصل میں میرے کریم رب نے میرے لئے ہدایت لکھ دی تھی اس لئے مجھے اس کا بالکل خیال نہیں آیا اور جماعت میں وقت لگنے کے بعد مجھے اسلامی کتابوں کے مطالعہ کا شوق بھی ہو گیا تھا میرے اللہ نے یہ کرم فرمایا کہ طلاق ہونے اور اس مسئلہ کے ختم ہو جانے کے تیسرے روز مولانا کلیم صاحب ہمارے شہر میں تشریف لائے انہیں دفتر کے ایک جاننے والے نے میرے بارے میں بتایا مجھ سے ملنے آئے دو گھنٹہ میں ان کے ساتھ رہا وہ مجھے ایک پروگرام میں لے گئے۔ ایک جگہ دعوت میں اپنے ساتھ شریک کیا، اس ملاقات میں انہوں نے مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی، بلکہ یہ سمجھا دیا کہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر خاص کرم ہے کہ اس لڑکی کو سیٹر ھی بنا کر آپ کو اپنا بنانے کا نظم کیا۔ چند سال کی اس لڑکی کی محبت میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ محبت میں کتنا مزا ہے، اس دنیا کی ہر چیز فانی ہے، بے وفا اور دھوکہ دینے والی ہے، اکثر تو جیتے جی دھوکہ دے کر بے وفائی کر دیتی ہے۔ زندگی میں وفا کریں تو آپ کی موت یا اس کی موت بے وفائی کا ذریعہ بن جاتی ہے، جب بنی ہوئی ان فانی اور بے وفا چیزوں اور حسینوں کی محبت میں اتنا مزا ہے تو پھر اس حسن حقیقی اور اس فانی حسن کو پیدا کرنے والے کے عشق اور محبت میں کتنا مزا ہوگا۔ مولانا صاحب نے کچھ اللہ والوں اور مشہور بزرگوں کے قصے سنائے ان کو دنیا کے کسی انسان سے عشق ہوا اور جب جنون حد کو پہنچ گیا تو اللہ نے اپنے سے لگا لیا۔ مولانا صاحب نے مجھے یقین دلایا کہ مجھے امید ہے کہ آپ بھی ان اولیاء اللہ کے سلسلہ کی ایک کڑی بننے والے ہیں بس اب اس حسن حقیقی سے دل لگا یئے اور پھر دیکھئے زندگی کا مزہ۔ دنیا کے حسینوں کی محبت میں بے چینی ہے اور اس کی محبت میں چین ہی چین ہے سکون ہی سکون ہے مزا ہی مزاہی ہے۔ میرے ایک دوست نے جو مولانا صاحب سے بیعت تھے مجھے مشورہ دیاکہ میں مولاناصاحب سے بیعت ہو جاؤں میں نے بھی مناسب سمجھا۔ مولانا نے پہلے مجھے دو بڑے بزرگوں سے تعلق قائم کرنے کا مشورہ دیا مگر میں نے جب اصر ار کیا کہ آپ کی خوشبو میرے لئے ہدایت کی خوشبو بنی ہے تو پھر میں آپ کے علاوہ کسی کا دامن نہیں پکڑ سکتا۔ مولانا صاحب نے مجھے توبہ کرائی اور اپنے حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی نور اللہ مرقدہ ’کے سلسلہ میں بیعت کیا۔
سوال : اس کے بعد جماعت میں سال لگا نے کا آپ نے کس طرح پروگرام بنایا ؟
جواب : میرادل دنیا کے جھمیلوں سے بہت گھبرا رہا تھا میں نے حضرت سے کہا کہ میں نے اتنا کما لیا ہے اور میرے والد صاحب نے اتنا چھوڑا ہے کہ میرے ساتھ ایک دو خاندان بھی پچاس سال مزے سے کھا سکتے ہیں۔ اب میرا دل چاہتا ہے کہ بس میں کہیں اللہ کا ہو کر رہ جاؤں بس آپ مجھے اپنے ساتھ رکھ لیجئے۔ حضرت نے فرمایا، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا میں رہ کر اللہ کے رہودل میں دنیا نہ بسے رہبانیت یعنی دنیا چھوڑکر لگ جانے کی اسلام تعلیم نہیں دیتا۔ البتہ آپ اسلام کو پڑھئے اور سلوک طے کیجئے۔ قرآن مجید کو اس طرح پڑھئے کہ نہ صرف آپ کی سمجھ میں آجائے بلکہ آپ خود چلتا پھرتا قرآن بنئے۔ جس طرح صحابہ کرام قرآن مجید پڑھتے تھے اور اپنی زندگی کو دعوت کے لئے وقف کر دیجئے دعوت اللہ کے نزدیک کائنات کی سب سے محبوب چیز ہے اور جو مجسم دعوت بن جاتا ہے وہ بھی اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ میں نے کہا جب میں نے آپ کا دامن پکڑا ہے تو پھر آپ ہی میری زندگی کا نظام بھی بنوا دیجئے مولانا صاحب نے فرمایا ابھی دو روز یہاں ہوں، انشاء اللہ سوچ کر مشورہ سے طئے کریں گے۔ اگلے روز حضرت کا فون میرے پاس آیا مجھے بلایا اور مجھ سے بتایا کہ ایک بہت ہی سلجھے ہوئے عالم اور مفتی ایک سال کے لئے جماعت میں جا رہے ہیں، میری خواہش ہے کہ آپ ان کے ساتھ سال لگا دیں۔ میں ان کو آپ کی تعلیم کا نصاب بنا کر دے دوں گا وہ راضی ہیں کہ دوران جماعت میں پڑھادوں گا۔ میں نے ارادہ کر لیا حضرت نے مجھے معمولات بھی بتائے اور بتایا کہ جماعت سے رابطہ بھی رکھیں ابتدا میں تسبیحات، پھر جہری ذکر اور اس کے بعد ذکر قلبی بتایا۔ الحمد للہ اب میرا سلطان الاذکار چل رہا ہے، قرآن شریف مع ترجمہ کے میں نے اس طرح پڑھ لیا ہے کہ الحمد للہ میں بلا تکلف پڑھا سکتا ہوں میں نے الحزب الاعظم حفظ کر لی ہے اللہ نے میرے وقت میں بہت برکت دی ہے۔
سوال : آپ کا وقت کہا ں کہاں لگا ؟
جواب : شروع میں تین چلے کرناٹک میں میسور اور بنگلور میں لگے اس کے بعد ایک چلہ اعظم گڑھ اجتماع کی محنت میں لگا دو چلے آندھرا میں اور باقی مہاراشٹرمیں لگے اب ہمارا رخ بہار کی طرف بنائے دو چلے باقی ہیں،
سوال : اب آپ کا کیا پروگرام ہے ؟ یعنی جماعت سے آنے کے بعد۔
جواب : اصل میں یوں تو آخر فیصلہ ہمارے حضرت کا ہی ہوگا، میری نیت دعوت کے لئے وقف ہونے کی ہے آج حضرت نے فرمایا کہ جلدی سے دو چلے پورے ہو جائیں تو آپ کو ملک سے باہر دعوت کے لئے بھیجنا طے کر دیا ہے اللہ تعالیٰ بس اس گندے کی زندگی کو کسی کام میں لگا دیں میں نے جماعت میں بہت دعائیں بھی کی ہیں میرے حضرت بھی ہر ملاقات میں یہی فرماتے رہے کہ کسی ملازم کی سرکار کے ذریعہ پوسٹنگ ہو جائے تو آلات و وسائل سرکار خود دیتی ہے۔ گاڑی دفتر، وردی قلم سب سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے آپ ہیڈ آفس سے اپروول (منظوری )کرالو اللہ کے راستہ میں دعائیں قبول ہوتی ہیں اب لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ہر دعا قبول کرتے ہیں۔ہمارے اکثر جماعت کے ساتھیوں کو بھی ایسا گمان ہوتا ہے کہ ندیم کی دعائیں قبول ہوتی ہیں کرناٹک اور مہاراشٹر میں علاقہ کے لوگ میرے پاس دعا کو آتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ مستجاب الدعوات ہیں ہمارے لئے دعا کیجئے میں دعا کرتا میرے اللہ اپنے ایمان والے بندوں کے گمان کی لاج رکھ لیجئے الحمد للہ دعا قبول ہوتی تھی۔ میرے حضرت نے جماعت میں پوری دنیا کی ہدایت کے لئے دعا کو بھی کہا تھا اس کے لئے بھی میں اللہ سے دعا کرتا ہوں۔
سوال : ابی بتا رہے تھے کہ راہ سلوک میں آپ نے بہت کم وقت میں بڑی ترقی کی ہے ؟
جواب : اگرحضرت فرمارہے تھے تو میرے لئے بڑی خوشی کی بات ہے یہ حقیر تو اپنے حال پر جب غور کرتا ہے تو کائنات کی بدتر مخلوق اپنے کو مانتا ہے اس احساس شرمندگی اور کمتری میں ایک چلہ تک میرا یہ حال ہو تا کہ میرا خودکشی کرنے کو دل چاہتا تھا کہ ایسے ناپاک سے اللہ کی زمین کو پاک ہو جانا چاہئے۔ حضرت سے بار بار فون پر عرض کرتا تھا، حضرت نے فرمایا یہ مقام فنا ہے مبارک ہو۔ حضرت کے فرمانے سے تھوڑی سی تسلی ہو جاتی تھی۔ الحمد للہ ذکر میری زندگی بن گیا ہے اور اب الحمدللہ، اللہ کے فضل سے میرا قلب عجیب و غریب طرح جاری ہو گیا ہے۔ لطائف ستہ بھی میرے حضرت کی برکت سے جاری ہو گئے ہیں، خواب بھی بڑے اچھے دکھائی دیتے ہیں مگر یہ سب تو بقول حضرت بس کھلونے ہیں جن سے اس راہ کے بچوں کو بہلایا جا تا ہے اصل تو یہ ہے کہ اللہ ایمان پر خاتمہ فرمادیں اور مغفرت فرمادیں اور زندگی کی دین کی کچھ خدمت سے قیمت بن جائے
سوال : ندیم بھائی آپ سے مل کر اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ آپ ایک دو سال کے مسلمان ہیں، آپ کی بول چال، چال ڈھال، آپ کا حلیہ کسی ادارہ یا علمی گھرانے کے کوئی عالم کا لگتا ہے حالانکہ آپ کسی دوسرے ماحول میں پروان چڑھے ہیں۔
جواب : احمد بھائی ! اللہ کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں، میرے حضرت کہتے ہیں کہ آپ ہندو گھرانے میں پل کر بھی اسلامی فطرت پر تھے، اس لئے آپ کو بہت جلدی اسلام ظاہر و باطن سے بھا گیا، مجھے بھی ایسا لگتا ہے کہ میں اسی دنیا کے لئے پیدا کیا گیا تھا،بلکہ ہندوانہ طور طریق مجھے بیگانہ سے محسوس ہوتے ہیں۔
سوال : آپ کا دوسری شادی کے بارے میں کیا پروگرام ہے ؟
جواب : میرا دل اس جھمیلے میں پڑنے کو تیار نہیں اور چونکہ میں نے اپنے آپ کو کسی کے حوالہ کر دیا ہے اس لئے مجھے کچھ کہنے کا حق بھی نہیں، جیسے ڈور ہلے گی، ویسے ہی گڈا ناچے گا،
سوال : ماشا ء اللہ واقعی، ابی حضرت رائپوری کا ملفوظ سناتے ہیں کہ ‘‘ارادت کا مزہ فٹ بال بن جانے میں ہے ’’کسی کا ہونے کا فائدہ تو اسی طرح ہوتا ہے آپ کو یہ جذبہ اور خود سپردگی مبارک ہو ۔
جواب :آپ دعا ء کیجئے اللہ تعالیٰ فٹ بال بنا دیں اور اس سے زیادہ موت تک بنائیں رکھیں،۔
سوال : قارئین ارمغان کے لئے آپ کوئی پیغام دیں گے ؟
جواب : ہمارے حضرت فرماتے ہیں یہ زمانہ ہے جب اللہ کی طرف سے ہدایت نازل ہورہی ہے ہم لوگ اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے حصے میں جتنا ہو سکے لوگوں کی ہدایت لکھوائیں مجھے خود بھی ایسا ہی لگتا ہے،یہ اللہ کی طرف سے ہدایت کا فیصلہ ہی تو ہے کہ اللہ نے ایک ناجائز تعلق کو میرے لئے ہدایت کا ذریعہ بنا دیا اگر ہم مسلمان ذراسی فکر کریں تو دنیا کا نقشہ اسلامی بن سکتا ہے۔
سوال : آپ نے جماعت میں وقت لگانے کے دوران کچھ غیر مسلم لوگوں پر بھی کام کیا ؟
جواب :بہت زیادہ تو میں نے کام نہیں کیا، کسی دکان پر سامان وغیرہ خریدنے یا ذاتی ضرورت سے جاتا تھا تو کسی نہ کسی سے ضرور بات کرتا تھا۔ اعظم گڑھ کے اجتماع میں حضرت مولانا سعد صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ ‘‘ہم انفرادی طور پر تو سب کو دعوت دینے کی بات کہہ رہے ہیں اور دوران سفر جماعتیں ٹرین وغیرہ میں سب کو ذہن میں رکھ کر تعلیم کریں ’’الحمد للہ اس کے بعد سے میرے لئے جماعت کے ساتھیوں کو ترغیب دینے کا موقع ملا اور اب تک ۷۷؍ غیر مسلم مشرف بااسلام ہو چکے ہیں، وقت پورا ہونے کے بعد انشاء اللہ حضرت کے مشورے سے کام کرنا ہے،
سوال : بہت بہت شکریہ ندیم بھائی !اللہ آپ کے وقت کو آپ کے ارادوں کو ساری انسانیت کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنائے،السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ’
جواب : آمین، و علیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ’(مستفاداز ماہنامہ ارمغان ، اگست ۲۰۰۸ ء )