پچھلی ایک ڈیڑھ صدی میں مسلمانوں کے درمیان احیائے امت کی جتنی بھی تحریکیں اٹھی ہیں ان میں کم و بیش سب کا رخ ٗتھوڑے بہت فرق کے ساتھٗ اسی طرف ہے کہ مسلمانوں کی عظمت ِرفتہ کو بزور حاصل کیا جائے ۔ اس کوشش میں نہ صرف یہ کہ زور ِبازو مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے بلکہ منزل بھی دور ہوتی جا رہی ہے۔
اقوامِ عالم کے عروج و زوال کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی میں بنیاد ی کردار علم و فن ہی کا رہا ہے ۔ جس قوم نے بھی اس سے صرفِ نظر کیا وہ ماضی کے کنوئیں میں اترتی گئی اور علوم و فنون کی قد ر دان قوم حال کے فلک پہ چڑھتی گئی۔ مسلمانوں کی اپنی تاریخ بھی اسی بات پر گواہ ہے لیکن تاریخ کی یہ گواہی حبِ عاجلہ کی وجہ سے مسلمانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر رہ گئی ہے ۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلمانوں کو خود ان کی تاریخ سے یہ باور کرایا جاتا کہ قانونِ قد رت آج بھی وہی ہے اور عظمت کے حصول کا ذریعہ بھی وہی ’جسے ان کے آباؤ اجداد نے اختیار کیا تھا ۔جب وہ دوسری اقوام سے صلح کے معاہد ے کرتے ہوئے یہ شرط بھی عائد کیا کرتے تھے کہ وہ اپنے کتب خانے بھی مسلمانوں کے حوالے کردیں گی ۔پھر انہی کتب کے تراجم اور تحقیقِ مزید سے وہ کہیں آگے بڑھ جایا کرتے تھے۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قوموں کے قوی مضمحل اور ہمت جواب دے جاتی ہے ۔ یہی حال ہمارا ہوا۔ اب اس کے دوبارہ حصول کیلئے ضروری تھا کہ ہم انتہائی غو رو خوض سے اپنی ‘بیماری’ کی تشخیص کرتے اور پھر اس کا صبر و استقامت سے علاج بھی کرتے ۔ لیکن علاج تو درکنا ر ہم تو بیماری کی صحیح تشخیص بھی نہ کر سکے ۔ اور اگر کسی نے اس طرف توجہ بھی دلائی تو ہم نے ہر طریقے سے اس کار استہ روکنے اور اس کی آواز دبانے کی سعی کی ۔ بیما رجب خود کو بیمار ہی نہ سمجھے یا جس معالج کے ہاتھوں اس کی صحت لٹ رہی ہو اسی کو بدلنے پر آماد ہ نہ ہو تو اس کا علاج کیسے ہو گا؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنا معالج بد ل لیں!
یقینا وقت ہے بشرطیکہ ہم لوٹ آئیں ۔ اپنی بیماری کونہ صرف یہ کہ جان لیں بلکہ مان بھی لیں اور اس کا درست علاج کرنے پہ بھی راضی ہو جائیں اور وہ علاج یہ ہے کہ ہم صحیح رخ کا بھی تعین کر لیں اور پھر اس کے لئے درست حکمتِ عملی بھی وضع کر لیں اور ہمارے خیال میں آج کی دنیا میں صحیح رخ یہ ہے کہ مسلمان انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک علوم و فنون کے حصول اور ترقی میں جُت جائیں اور درست حکمت عملی یہ ہے کہ رد عمل کی نفسیات اور عظمت پارینہ کے احساس سے نکل کرحقائق کی دنیا کا سامنا کریں اور باقی دنیا کے ساتھ صحیح بنیادوں پر تعلق استوار کریں اور یہ صحیح تعلق داعی اور مدعو کا ہے ۔ اس سے مزید تنزل بھی رک جائے گااور ترقی کا سفر بھی غیر محسوس طریقے سے شروع ہو جائے گا۔
فطر ت کے مناد ی کی آواز یہی ہے کہ ہم ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کی کوشش ترک کر کے سرسوں اگانے کے فطر ی طریقے پر عمل کریں۔کہ فطر ی طریقہ ہی پھل اور پھول کا ضامن ہو ا کرتا ہے۔