مسلم بائی چانس یامسلم بائی چوائس
اتفاقیہ مسلمان یا انتخابی مسلمان
پیدایش کے اعتبار سے سارے انسان برابر ہیں۔اللہ نے کسی انسان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اپنی مرضی کے علاقے ، قبیلے ، خاندان، یا مذہبی برادری میں پیدا ہوسکے جہاں اللہ بھیجتا ہے وہیں جانا پڑتا ہے اورعام طور پر انسان والدین کا مذہب ہی اختیار کرتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھاجائے تودنیا کے انسانوں کی غا لب اکثریت پیدایشی مذہب پر ہی زندگی گزاررہی ہے اگر مذہب پیدایش پر منحصر ہے تو پھر تو سارے انسان برابر ہیں کسی سے اس کے بارے میں سوال نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہر انسان اس حوالے سے مجبور محض ہے جبکہ الہامی کتابوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ انسانوں سے یہ سوال ہونا لازم ہے کہ شعوری طور پر فلاں عقیدہ یامذہب کیوں اختیار کیا؟ اللہ پوچھے گا کہ ہم نے تو تمہیں دینِ فطر ت پر پیدا کیا تھا تو پھر تم یہ یہود و ہنود وغیرہ کیوں بن گئے ؟گویا مذہب کے اعتبار سے سوال مذہب کو اختیار کرنے کا ہے نہ کہ مل جانے کا۔پیدایشی مذہب تو انسان کو مل جاتا ہے ،اسے وہ اختیار نہیں کرتا ۔تمام انسانو ں کی طرح مسلمانوں کو بھی پیدایشی طو ر پر اسلام مل جاتا ہے نہ کہ وہ اختیار کرتے ہیں۔یعنی ہم مسلمان بائی چانس ہیں نہ کہ بائی چوائس۔بائی چانس ا سلام یا پیدایشی اسلام کی بنا پر اگر نجات ہو نا ہو توپھرہر غیر مسلم کی اللہ کے ہاں یہ شکایت بالکل جائز شکایت بنتی ہے کہ پیدا تو توُ نے ہمیں کیا تھا اس میں ہمارا کیاقصور؟ اگر توُ ہمیں مسلمانوں کے ہاں پیدا کر دیتا تو ہم بھی مسلمان بن جاتے ۔لیکن اسلامی تعلیمات کی رو سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ انسانوں سے پیدایشی مذہب کا سوال نہیں کرے گا بلکہ شعوری مذہب کا پوچھا جائے گا۔ ہم پیدایشی مسلمانوں کو ساری عمر شعوری طور پر اسلام قبول کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اللہ اپنے فضل سے معاف کر دے تو اور بات ہے ورنہ ضابطے کی روسے تو پرسش بھی ہو سکتی ہے۔ اور یہ بات اور بھی بدیہی امر بن جاتی ہے جب ہم موجودہ زمانے میں نو مسلموں کو دیکھتے ہیں کہ وہ کس قدر کٹھن حالات سے گزر کر اسلام تک پہنچتے ہیں اور پھر کس قدر استقامت کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین تو بہت بڑی بات ہیں اگر کل قیامت کو اللہ نے ہمارے اسلام کا تقابل ان نو مسلموں سے ہی کر دیا توپھر بھی کسی کھاتے میں ہمارا شمار ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہم غیر مسلموں کی کہانیاں اسی نیت سے شائع کر رہے ہیں کہ شاید ہمیں اسی سے شرم آ جائے اور ہم بڑے دن کی پرسش سے قبل ہی اسلام ‘‘قبول’’ کرلیں۔
نومسلموں کی آپ بیتیاں پڑھ کر ایک بار پھر یہ ضابطہ روز روشن کی طرح سچا دکھائی دیتا ہے کہ جس چیز پر انسان کی تین چیزیں صرف ہوتی ہیں وہی اس کے ہاں قیمتی قرار پاتی ہے یعنی اس کی جان ، مال اور وقت۔پیدایشی مسلمانوں کے ہاں نہ جان صرف ہوتی ہے نہ ان کا مال خرچ ہوتا ہے اور نہ ہی وقت۔ اس لیے ان کے ہا ں عام طور پر اس کی قدر بھی نہیں پائی جاتی۔جبکہ اس کے برعکس نو مسلمو ں کے ہاں یہ سب چیزیں صرف ہور ہی ہوتی ہیں اس لیے انہیں اپنا اسلام جان سے بھی پیار اہوتا ہے اور ان کی ترجیحات میں بھی اسلام کا نمبر پہلاہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں سب سے آخری اور وہ بھی سوشل مجبوری سے۔
سوئے حرم کا یہ خاص شمارہ پڑھ کر اگر ایک پیدایشی مسلمان بھی شعوری مسلمان بننے کی ٹھان لے اور اسلام اُس کی چوائس اور پہلی ترجیح بن جائے تو ہم سمجھیں گے کہ ہماری یہ کاوش کامیاب رہی۔ اگر چہ اس کامیابی کو جاننے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں لیکن اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ ایسا ہی ہو گا اور آخرت میں یہ خاص شمارہ بھی ہمارے اور سوئے حرم کے تمام رفقا اور معاونین کے میزان عمل کو جھکانے کا باعث بنے گا۔