حیرت انگیز طور پر بھارتی صوبے کیرالہ کا نقشہ مشہور و معروف سبزی کریلے جیسا ہے۔ اگرچہ کریلے کا ذائقہ کچھ کڑوا ہوتا ہے لیکن یہ صحت کے لیے انتہائی مفید چیز ہے۔ یہ انسانی جسم کی بہت ساری بیماریوں کے لیے ایک دوا کا کام بھی کرتی ہے۔ کریلہ کھانے والے کو پھنسیاں یا دانے بہت کم نکلتے ہیں۔ لیکن کیرالہ کے بارے جان کر آپ کو یقینا خوشی ہوگی۔ بھارت کے صوبے کیرالہ کی زبان مالیالم ہے، رقبہ 38,863 مربع کلومیٹر اور آبادی 31,838,619 ہے۔
کیرالہ میں مسجدوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ہر سڑک پر تھوڑی تھوڑی دور چھوٹی بڑی مساجد ملیں گی۔ یہاں جب آپ مسجد تلاش کریں گے تو اس کے لئے آپ کو زیادہ تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں کرنی پڑے گی۔ راستوں پر مسجدیں جس اہتمام کے ساتھ آباد ہیں، ایسا لگتا ہے کہ کسی خالص اسلامی حکومت نے منظم منصوبہ بندی کے تحت انہیں تعمیر کیا ہو، یہاں کی مساجد کا یہ امتیاز ہے کہ یہ صرف مسجد نہیں ہوتی بلکہ دینی تعلیم و تربیت کا گہوارہ بھی ہوتی ہے۔ ہزاروں مسجدوں میں مکاتب اور مدارس چل رہے ہیں۔ کالی کٹ سے کوچین کا فاصلہ کوئی تین سو کلو میٹر کے قریب ہے۔ اس راستے میں اہم ترین زیارت گاہیں ہیں جن میں حضرت حبیب بن مالک دینار کی مسجد و مزار اور حضرت شیخ زین العابدین مخدومی فنانی کی مسجد و مقبرہ قابل ذکر ہیں۔ حضرت مالک بن حبیب کی مسجد جس علاقہ میں واقع ہے، اس کا نام کدنگلور ہے۔ مذکورہ مقام کوچین سے کوئی پچاس کلو میٹر دور ہے جو تھریسور ضلع میں واقع ہے اور یہ مسجد ‘چیرامن جامع مسجد’ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مسجد ہندوستان کی پہلی مسجد ہے اور یہ اس مقام پر 6ھ یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تعمیر ہوئی۔ بہت ممکن ہے کہ یہ ہندوستان کی پہلی مسجد ہولیکن اس کی تاریخ 6ھ ہے اس کا اب تک کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ ‘کدنگلو’ عہد رسالت میں ملیباری دارالسلطنت تھا، یہاں ایک غیر مسلم بادشاہ جس کا نام ‘چیرامن پیرامل’ تھا، جسے ‘فرماض’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس بادشاہ نے عہد رسالت میں اپنے دارالسلطنت سے ہی ‘‘معجزہ شق القمر’’ کا ٹھیک اسی وقت مشاہدہ کیا تھا جب وہ رات کے کھانے کے بعد اپنی شریک حیات کے ساتھ اپنے محل کی چھت پر تفریح کررہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ سے متاثر ہوکر وہ مشرف بہ اسلام ہوا، وہ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر عرب آئے چند تجار/ سیاح کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضری کی نیت سے چل پڑا اور حضور پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوکر دیدار سے مشرف ہوا، وہی چیرا من بعد کو تاج الدین کے نام سے معروف ہوا۔ جب واپس آنے لگا تو اس کی گزارش پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کرام کو ان کی رفاقت میں بھیج دیا تاکہ وہ مالا بار میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام کرسکیں۔ یہ قافلہ واپس چلا تو کسی قریبی ‘‘ظفار’’ نامی بندرگاہ تک پہنچ کر وہ بادشاہ بیمار ہوگیا، وہیں سے انہوں نے اپنے اہلکاروں کو نصیحت آمیز خطوط بھیجے جس میں یہ حکم کر رکھا تھا کہ انہوں نے مالا بار میں تبلیغ اسلام کے جس کام کا قصد کر رکھا ہے اس کو ترک نہ کریں۔ اگر میں انتقال کر جاؤں تو میرے انتقال کی خبر لوگوں کو دینے سے پہلے آنے والی نورانی جماعت کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں، انہیں یہ بھی نصیحت کی کہ ان حضرات کا شاہانہ عزت و شوکت کے ساتھ استقبال کیا جائے پھر وہیں وہ آسودہ خاک ہوگئے، شاید اسی نصیحت کا یہ اثر ہے کہ آج بھی مالا بار کا خطہ ان برکات سے عطر بیز ہے۔
کسی شہر کی تہذیب و ثقافت کا اندازہ کرنا ہو تو وہاں کے لوگوں کے رہن سہن کے ساتھ ساتھ بازاروں کا جائزہ لیجئے اور دیکھئے کہ وہاں کی مستورات کس طرح شاپنگ کررہی ہوتی ہیں۔ مگر کیرالہ میں مغربی تہذیب کے بالمقابل ایک شرافت نظر آئے گی، یہ عفت مآب خواتین عموماً گھروں میں ہوتی ہیں اور باعزت اور حیادار ہیں۔ اسلام نے جس طرح مستورات کو شرم و حیا اور گھریلو ماحول میں زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے، الحمدللہ ان کا عقل و شعور اور فکر و نظر بھی ان برائیوں سے عموماً گریز کا ہے اور مغربی تہذیب کے برخلاف اپنے والدین اور خاوندوں کے حسب حکم وہ گھروں میں ہوتی ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش تجارت ہے، ملازمت اگر اپنی ریاست میں مل گئی تو یہاں رکے، ورنہ کوئی خاندان ایسا نہیں جن کا کوئی فرد خلیجی ملکوں میں نہ ہو، نتیجہ یہ ہے کہ بڑے بڑے مکانات یوں ہی خالی پڑے رہ جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی معاشی حالت اطمینان بخش ہے، عرب ملکوں میں جانے کا رجحان عام ہے، لوگ ترک وطن تو نہیں کرتے مگر بیرون ممالک میں رہتے اور مکان سازی یہاں کرتے ہیں۔ یہاں مختلف مذاہب کے حاملین بشمول ہندو مذہب کے ماننے والے بھی مسلمانوں کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اعتدال فطرت اور سلامت ذوق کے عادی ہیں۔ دعوت و تحریک زندگی کے اجتماعی اور انفرادی عمل میں نمایاں ہے۔ توازن فکر کے نتیجے میں جماعت دعوت و تبلیغ ہو کہ جماعت اسلامی یا جمعیت اہلحدیث، پوری زندگی ‘‘خیرالامور اوسطہا’’ کی عملی تعبیر اور تفسیر ہے۔ ریاست کے ادبی و ثقافتی شہر ملاپورم کے Perntalmanna میں جو کہ اوٹی روڈ پر واقع ہے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اسپیشل سنٹر ہے، جسے اے ایم یو ملاپورم سنٹر کہتے ہیں۔
یوروپی نو آبادیاتی نظام کے خلاف کیرالہ کے مسلمانوں کی داستان شجاعت کی ابتدا 1500ء میں پرتگالیوں کے خلاف جنگ سے ہوتی ہے۔ مسلم رہنماؤں نے کیرالہ میں پرتگالیوں کے ذریعہ نو آبادی قائم کرنے کی کوششوں کی حتی المقدور مخالفت کی، حالانکہ پرتگالی کیرالہ کے چند محدود علاقوں کو اپنے قبضے میں لے چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود مالا بار میں ان کے توسیع پسندانہ منصوبے مسلمانوں کی کوششوں کے سبب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ گوا پر قبضے کے باوجود 18ویں صدی کے اختتام تک مالا بار ایک آزاد علاقہ رہا جہاں علاقائی تہذیب اور زبان و ادب کو پھلنے پھولنے کے مواقع حاصل تھے۔ نو آبادیاتی نظام کے تسلط کے باوجود مالا بار نے اپنی شناخت بڑی حد تک قائم رکھی اور یہاں ذیلی قومیت کا وہ نظریہ بھی جڑ پکڑ چکا تھا جس نے بعد میں ہندوستانی قومیت کا ایک حصہ بن کر انگریزوں کا مقابلہ کیا۔
بہرحال گھنیرے ناریل کے درختوں، پہاڑوں، گھاٹیوں اور کوہستانوں کے شہر منجیری کے لئے ہمارا یہ سفر تھا۔ 10 دسمبر کو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے الگ الگ مساجد میں لوگ جا رہے تھے، ہم بھی ایک مسجد میں گئے، اکثر مساجد کی تعمیر یہاں روایتی انداز پر ہوئی ہے۔ منجیری کا موسم نسبتاً پرسکون اور مناظر پرکشش ہیں۔ موسم سرما میں بھی درجہ حرارت 20-24 سے زائد نہیں ہوتا۔ ملاپورم اور کالی کٹ میں ایک گھنٹہ کی دوری ہے۔ یہ سارے مراکز سیاحتی انداز کے ہیں۔ یہ خطہ رہائش کے لئے بے حد موزوں ہے۔ یہاں کوئی مسلکی ٹکراؤ اور مکاتب فکر کی آویزش نہیں ہے۔ اسلام نے ہر طرح کی جاہلانہ نخوت کو مٹایا اور تمام انسانوں کے لئے حقیقی مساوات کے ایسے اصول ذکر کئے ہیں جن کی بلندی تک تہذیب و تمدن کے دعووں کے باوجود آج تک دنیا نہیں پہنچ سکی ہے۔ اسلام کی نظر میں انسانیت کی حیثیت ایک کشادہ باغیچہ کی ہے جس میں رنگ برنگ کے پھول پروان چڑھتے ہیں اور سب مل کر باغیچے کی رونق کو بڑھاتے ہیں۔ کسی کا سفید ہونا یا سیاہ ہونا، آب و ہوا اور اس ماحول کا رہین منت ہے جس میں وہ جنم لیتا ہے، کیرالہ کے لوگ سانولے ضرور ہوتے ہیں مگر بنی نوع انسان کی وحدت نسل، زبان و رنگ سے بالاتر ہے۔ خدا نے آب و ہوا کے فرق اور رنگ کے امتیاز کو اپنی نشانیوں میں شمار کیا ہے۔ اس لئے یہ چیز نہ تو کسی کی برتری کا ذریعہ بن سکتی ہے اور نہ پستی کا۔ اسلام نے ہر فرد کو اس کے اپنے عمل کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور ان باتوں کی شروع سے بنیاد ہی ختم کردی ہے جو غیراختیاری طور پر انسانوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر حسن و جمال یا چہرہ بشرہ کا رنگ اور کسی مخصوص خاندان میں پیدا ہونے کی بنیاد پر کسی انسان کو اسلامی تعلیمات کی رو سے کوئی برتری حاصل نہیں ہوتی، بلکہ خود اس کا اپنا کردار اسے خوبیوں کا مجموعہ یا خرابیوں کا پتلا بناتا ہے۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت گورے اور کالے کے امتیاز کے بغیر تمام انسانوں کے لئے عام ہے، وہ لوگ جو آباؤ اجداد پر فخر کرتے ہیں یا تو اس سے باز آجائیں ورنہ وہ خدا کی نظر میں کیڑے مکوڑوں سے بھی کم حیثیت ہوں گے۔