دروازہ کھلا رکھنا
وہ جب انڈیا سے آیا تو اس کی عجب حالت تھی ۔ گلے میں تعویذنما کئی چیزیں حمائل تھیں اور ہاتھوں میں بھی کئی دھاگے بندھے تھے ۔ وہ رحمان سے زیادہ رام ، مسجد سے زیادہ مندر اور مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کے کلچر سے واقف تھا۔ لیکن خوش آئند بات یہ تھی کہ وہ خود کو باغیرت مسلمان سمجھتا تھا۔ہندی اور تامل نمااردو اس کی زبان تھی لیکن وہ صحیح اردو بولنے والوں کو غلط سمجھتا تھا۔ اس کی طبیعت میں بہت اکھڑ پن تھااور اس کی ہر بات ’’ میں‘‘ سے شروع ہوتی اور ’’میں ‘‘ ہی پر ختم ہوتی تھی۔خود کو ہر بات میں صحیح اور دوسروں کو غلط سمجھنا اس کی عادت تھی۔ قرآن مجید پڑھنے سے ناواقف او رنماز میں بھی کبھی کبھار ہی نظر آتا تھالیکن نماز میں کیا پڑھتا یہ کوئی نہ جانتا تھا۔ نماز میں اس کے کھڑے ہونے کا انداز بھی یہ بتاتا تھا کہ یہ شخص مسلمانوں کے کلچر سے ناواقف ہے ۔وہ اللہ کو ایک مانتا تھااو ربتوں سے نفرت کرتا تھالیکن ہر دوسرے مسلمان کی طرح اس کے دل ، دماغ میں بھی بہت سے بتوں نے ڈیرہ ڈال رکھاتھا۔ مجھے اس کی یہ حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوا اوردل چاہا کہ اتنی بہترین صلاحیتوں کا حامل یہ شخص، کاش کہ صحیح مسلمان بن جائے اور اسے توحید کا اصل مفہوم سمجھ میںآجائے ۔میں غور کرتا رہا کہ اس کو کس طرح توحید کا مفہوم سمجھایا جائے ۔ ایسے میں مجھے مرشد تھانوی کی بات یادآئی اور میں نے اسی پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ مرشد تھانوی تھانہ بھون کے قریب کسی گاؤں میں گئے تو دیکھا تو تمام مسلمان تعزیہ بہت اہتمام سے نکالتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اسلام کی کسی چیز سے واقف نہ تھے ۔ وہ شیعہ مسلک سے تعلق نہ رکھتے تھے لیکن سمجھتے تھے کہ تعزیہ اسلام کی بہت اہم چیز ہے ۔ وہ نہ نماز سے واقف تھے نہ روزے سے حتی کہ ان کے نام بھی ہندوؤں جیسے تھے۔ لیکن وہ خودکو مسلمان کہتے تھے اور اسلام سے ان کی وابستگی کا واحد ذریعہ یہ ’’تعزیہ ‘‘ ہی تھا۔ مرشد نے ان سے کہا کہ تعزیہ نکالنا کبھی نہ چھوڑنا۔ لوگوں نے پوچھا کہ مرشد یہ آپ نے کیا کہہ دیاتو انہوں نے فرمایا کہ یہ چیز ان کی اسلام سے وابستگی کا واحد ذریعہ ہے اگر یہ قائم رہی تو ایک نہ ایک دن ان کو صحیح اسلام بھی سمجھ آجائے گااگر یہ بھی چھوٹ گئی تو یہ مکمل طور پر ہندو بن جائیں گے اور ان کی واپسی کا امکان ختم ہو کر رہ جائے گا۔ ایسے ہی میں نے اس شخص سے کہا کہ یہ دھاگے اور تعویذ بہت سنبھال کے رکھناکہ یہ اس کی اسلام سے وابستگی کا ذریعہ تھے ۔ جب اور لوگ ان دھاگوں اور تعویذوں پہ تنقید کرتے تو وہ آگ بگولہ ہو جاتا اس لیے میں نے کوشش کی کہ لوگ اس پہ تنقید نہ کیا کریں ۔میں اس کی اسلامی غیر ت کی تعریف کرتا اور اس کے لیے دعا کرتا کہ یا اللہ اس کو توحیداور صحیح اسلام سمجھ آجائے ۔وقت گزرتا رہا اور میرے نرم رویے کی وجہ سے وہ میرے قریب ہوتا گیا حتی کہ اب وہ مجھ سے اپنے ذاتی دکھ درد بھی شیئر کر لیا کرتا۔ میں اس کو براہ راست تو کچھ نہ کہتا البتہ کبھی کبھی اس کو کوئی کہانی سنادیتا یا سب کو مخاطب کر کے کوئی نہ کوئی اسلامی عقید ہ واضح کردیتا۔ دو سال کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اسلامِ خالص کی جن باتو ں پہ وہ بھڑک اٹھتا تھا ، اب وہ ان کو خاموشی سے سن لیتا ہے اس کی طبیعت کے اکھڑ پن میں بھی کچھ کمی آر ہی تھی اور اب اس کی ’’ میں ‘‘ بھی کبھی کبھار ہم میں بدل جاتی تھی۔ یہ ایک مثبت تبدیلی تھی۔ لیکن ابھی اس کے رنگ ڈھنگ ، چال ڈھال اور دھاگے تعویذ وہیں کے وہیں تھے ۔ایک دو سال او رگزر گئے ، اب وہ مجھ سے کافی مانوس ہو گیا تھا۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ اچھے موڈ میں ہے ۔ میں نے موقع غنیمت جانا او رکہا کہ بھائی کاش کہ تم قرآن پڑھ لو۔ میں نے کہا ،دیکھو قدرت نے تمہیں ایک اسلامی ملک میں بھیج کر یہ موقع دیا ہے اورتم اس موقع سے فائدہ اٹھالو۔ نہ جانے پھر یہ موقع ملے کہ نہ ملے اور نہ جانے زندگی وفا کرے کہ نہ کرے۔ اللہ کو منظو ر تھا بات اس کے دل کو چھو گئی ۔ میں نے کہا کہ میں تمہارے گھر آکربغیر کسی کو بتائے خاموشی سے قاعد ہ پڑھا دیا کروں گا۔ اور پھر میں نے ایسے ہی کیا لیکن وہ ذہین آدمی تھا اس نے چند ہی دن میں قاعدہ سمجھ لیا اور اس کے بعد اس نے کہا کہ اب وہ خود ہی آگے پڑھے گا۔ چنانچہ میں نے جانا ترک کر دیا ۔ اس کے بعد اس نے انٹر نیٹ اور کیسٹ کی مدد سے دو سالوں میں پورا قرآن پڑھ لیا۔آج آٹھ برس بعد وہ ایک بدلا ہوا انسان ہے ۔ اب وہ قرآن بھی صحیح پڑھتا ہے نماز کی بھی اگلی صف میں شامل ہوتا ہے روزانہ ایک حدیث بھی سب کو سناتا ہے اور اس کے دھاگے اور تعویذ بھی قصہ پأرینہ بن چکے ہیں۔ اب اس کی ’’ میں ‘‘ بھی بہت حد تک ختم ہو گئی ہے وہ بات سنتا بھی ہے سناتا بھی ہے سمجھتا بھی ہے اور سمجھاتابھی ہے ۔ اب وہ ایک نئی شخصیت کا حامل شخص ہے ۔ یہ شخصیت کہیں باہر سے نہیں آئی اس کے اندر ہی چھپی ہوئی تھی ضرورت اس امر کی تھی کہ اس چھپی شخصیت کو سامنے آنے کا موقع دیا جائے لیکن ہائے افسوس کہ ہماری سختی ، ہماری ’’دینی غیر ت‘‘اور ہماری پیدایشی اسلامی ’’حمیت ‘‘ ایسی شخصیتوں کو باہر آنے سے پہلے ہی ختم کرکے رکھ دیتی ہے ۔
’’دعوت ‘‘کا یہ تجربہ مجھے بہت کچھ سکھا گیا میں نے جانا کہ دعوت کے لیے پیار ، دعوت کے لیے ہمدردی اور دعوت کے لیے دروازہ کھلا رکھنا بہت ضروری ہے ۔ اگر آپ کی’’ دینی غیر ت ‘‘ دروازہ ہی بند کر کے چلی آئے تو کون اند ر آئے گا۔وہ شخص جو شرک و ظلم میں مبتلا ہے اس کا اپنا عمل ہی اسے جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہے آپ کے دروازہ بند کر نے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن دروازہ کھلا رکھنے سے فرق پڑسکتا ہے..... اس لیے ہر وہ مسلمان جو نبی رحمتﷺ سے تعلق کا دعویدار ہے اسے چاہیے کہ ہر ایک کے لیے دروازہ کھلا رکھے ۔ کو ن جانتا ہے کہ کب کون چلا آئے اور اس دروازے سے جنت چلا جائے ۔ جانا تواسے اللہ کی رحمت سے ہی ہے لیکن آپ کو دروازہ کھلا رکھنے کا اجر بہر حال مل جائے گا۔
چلتے چلتے شیخ متولی شعراوی کی بات بھی سن لیجے ۔کہتے ہیں کہ ایک شدت پسند نوجوان کے ساتھ میری بحث ہو رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا: ایک مسلمان ملک میں کیا کسی نائٹ کلب کو بم سے اڑا دینا جائز ہو گا یا ناجائز؟کہنے لگا: بالکل حلال ہو گا۔ اور ان کا قتل بالکل جائز ہے۔میں نے اس سے کہا: جب وہ اِس خدا کی نافرمانی کی حالت میں ہوں عین اس وقت اگر تم ان کو قتل کردو تو ان کا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟بولا: ظاہر ہے جہنم میں۔میں نے کہا: اور شیطان ان کو کہاں لے جانا چاہتا ہے؟کہنے لگا: ظاہر ہے جہنم میں۔میں نے کہا:اس کا مطلب ہے کہ تمہارا اور شیطان کا ہدف ایک ہی ہے۔پھر میں نے اسے حدیث سنائی کہ ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو رسول اللہ ﷺ اس پر آبدیدہ ہوگئے۔ پوچھا: کیا سبب ہے؟ تو فرمایا: ایک شخص میرے ہاتھ سے چھوٹ کر جہنم میں جا گرا۔میں نے کہا: تم ذرا فرق دیکھ لو؛ آپ ﷺ تو ہر دم لوگوں کو دوزخ سے بچانے کے لیے پریشان ہیں؛ تم کہاں ہو اور رسول اللہ کہاں!۔او رپھر بھی تم رسول اللہ سے محبت کے دعویدار ہو....!