فی زمانہ یہ ایک پریشان کن مسئلہ بن گیا ہے کہ آج کے بچے سدھار کم بگاڑ کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ یہ بچپن یا لڑکپن کے زمانے کابگاڑ سن بلوغ تک پہنچنے کے بعد چنگاری سے شعلہ بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بچوں کے بگاڑ کے کیا اسباب ہیں اور قرآن وسنت کی روشنی میں ان کی اصلاح کی کیا تدابیر ہوسکتی ہیں ، ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
سب سے پہلے تو والدین کو چاہیے کہ اپنے بیٹوں کی شادیوں کے لیے نیک سیرت، سلیقہ شعار، دینی اور ضروری عصری تعلیم سے بہرہ مند، خوف خدا سے لبریز اور اپنی دینی واخروی ذمے داریوں کو اچھی طرح سمجھنے والی لڑکیوں ہی کو ترجیح دیں۔ تاکہ ان کی گودوں سے ایسی نسل اٹھے جو دین و ملت کا اثاثہ ثابت ہو، نہ کہ جہیز ودولت کے لالچ میں ایسی لڑکیوں سے اپنے بچوں کی شادیاں کریں جن کی پرورش مادہ پرستانہ اور غیر دینی ماحول میں ہوئی ہو، جو دینی تعلیم اور احکام خدا ورسول سے بالکل بے بہرہ ہوں، جوایک طرف تو والدین اورخاندان اورخود اپنے شوہروں کا سکھ چین چھین لیں اور دوسری طرف اپنی اولاد کی تربیت محض مادہ پرستانہ و خودغرضانہ ذہن کیساتھ کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بچے عموماً ماں ہی سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ بیج تو بوئیں ببول کے اور اگنے لگیں آم کے درخت۔ ظاہر ہے خون بھی اسی کا دودھ بھی اسی کا اورتربیت بھی اسی کی پھر ایسی عورتوں سے آپ نیک سیرت اور لائق و ہونہار بچوں کی تمناکس طرح کرسکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسی گودوں سے بھی لائق و ہونہار سپوت نکل آتے ہیں۔ ایسا مشیت الٰہی کے تحت شاذو نادر ہی ہوتاہے۔
اسی طرح بیٹیوں کی شادیوں کے لیے بھی محنتی، با اخلاق اور دیندار لڑکوں ہی کو ترجیح دیں۔ ایسے ہی لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں نہ صرف پرسکون زندگی گزارسکتی ہیں ، بل کہ اپنی اولاد کی پرورش بھی اطمینان کے ساتھ دینی ماحول میں کرسکتی ہیں۔ نہ کہ دولت مند، مادہ پرست اور دین واخلاق سے بیگانہ لڑکوں کے ساتھ۔
دوسرے یہ کہ ہر عورت خصوصاً اپنے زمانہ حمل اور زمانہ رضاعت میں حلال کمائی استعمال کرے اور اپنے عادات وخیالات کو بلند وپاکیزہ بنائے۔ اگر ان ادوار میں بھی ماں مادہ پرستانہ وخودغرضانہ خیالات رکھتی ہو، سست وکاہل ہو اپنی دینی واخروی ذمے داریوں سے غافل ہو، شوہر، ساس ،نندوں سے جھگڑنا، تکلیفیں دینا اور دوسروں کی حق تلفیاں اس کا شعار ہو، ریا، جھوٹ، غیبت، حسد ، بدگمانی، طعنہ زنی جیسی برائیوں میں ملوث ہو تو بچے بھی یقینا وہی نقش لے کر اس دنیامیں آئیں گے اور پھر ان کی اصلاح ایک دشوار ترین امر بن جائے گا۔
یہ بات نہایت قابل غور اور یاد رکھنے کے لائق ہے جو حدیث سے بھی اور سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت ہے کہ بچہّ تقریباً پانچ سال کی عمر تک اپنے اطراف و جوانب جو کچھ دیکھتا اور سنتاہے وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن وقلب پرنقش ہوجاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ چند ماہ کا بھی ہونے نہیں پاتا کہ ٹی وی پر ناچ گانے اور فحش حرکات بڑے مزے سے دیکھتا ہے اور پانچ سال تک تو نہ جانے اپنے گھر اور ماحول کی کتنی برائیاں اپنے اندر جذب کرچکاہوتا ہے۔ ظاہر ہے وہ بچہ کیا بن کر نکلے گا؟
بچوں کو اگر بچپن ہی سے غلط ماحول ملے جہاں حرام حلال کی کوئی تمیز نہ ہو، وہ کسی کے حقوق جانتے ہوں نہ اپنے فرائض سے آگاہ ہوں، گھر کے مکینوں میں آپس میں رنجشیں اور تناؤ ہو، شوہر، ساس، بہو اورنندوں کے درمیان میدان کار زار گرم رہے، ہرایک کو بس اپنے مفاد کی فکر ہو دوسروں کو ذلیل کرنا، جھوٹ بولنا، عریاں وفحش فلمیں خود بھی دیکھنا اور بچوں کو بھی دکھانا جن کے مشاغل ہوں، فیشن وبے پردگی جن کو محبوب و مرغوب ہو، باترجمہ وتشریح قرآن وحدیث کا مطالعہ اور دینی احکام جاننے ان پر عمل کی کوششوں اور دینی وتعمیری کاموں میں حصہ لینے کی بجائے رومانی و فحش وناولوں و لٹریچر کا جن کے گھروں میں چرچا ہو، دنیاوی رنگینیوں میں اتنے مست ہوں کہ ذرہ برابر خوف خدا ان کے دلوں میں نہ ہو اور نہ عذاب آخرت سے بچنے کے لیے کوئی فکر وجستجو ہو اور جن کی زندگیوں کا کوئی مقصد ہی نہ ہو،ایسے ماحول سے کیوں کر آس لگائی جائے کہ وہاں بچے نیک وصالح اوربا اخلاق و باکردار بن کر پروان چڑھیں گے۔ بچوں کی تربیت کے لیے تو نہ صرف والدین کا باعمل بننا، تمام برائیوں سے پرہیز کرنا، نمازوں اور دیگرعبادات کی پابندی کے ساتھ ساتھ شریعت کی پوری پوری پابندی کرنالازمی ہے، بل کہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کے پورے ماحول کو بھی دینی وپاکیزہ بنانے کی کوشش کریں۔ ورنہ بچوں کو تونصیحتیں کی جارہی ہوں اور گھر کے لوگوں کے عمل ان کے خلاف ہوں اور پھر آس لگائی جارہی ہے کہ بچے نہ بگڑیں۔
محبت وشفقت سے محرومی بھی بچوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بچو ں کے ساتھ نہایت پیار و محبت و نرمی سے پیش آئیں۔ ان کے آرام وآسائش کا خیال رکھیں۔ کیوں کہ بچے نہایت نازک جذبات و احساسات رکھتے ہیں اور پیار محبت کے بھوکے ہوتے ہیں۔ ابتدائی عمر میں تو وہ نہایت کمزور و ناتواں، نادان اور بے بس ہوتے ہیں۔ صرف والدین و دیگرقریبی اعزہ کی محبت، نگہداشت اور حسن سلوک کے سہارے ہی پروان چڑھتے اور پلتے ہیں۔ اب اگر والدین بچوں کو بھرپور پیار نہ دیں تو سچا پیار وہ کہاں سے حاصل کریں گے۔ بچوں سے نفرت وبیزاری ، درشت رویہ، ہمیشہ ڈانٹ پھٹکار، مار پیٹ، لعن طعن، ان کے جائز مطالبوں کو بھی پورا نہ کرنا، ان کے جذبات و عزت نفس کو ٹھیس پہنچانا ان کا دل توڑدیتا ہے۔ ان پر مایوسی و قنوطیت طاری کردیتا ہے اور پھر وہ والدین اور گھر سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر بچے خودسر و باغی ہوجاتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ بچوں کو بجا و بے جا لاڈ ہی کرتے رہیں۔ ان کی ہر ضد پوری کریں اورکبھی کسی غلطی پر بھی ٹوکنے کا نام نہ لیں۔ بے جا لاڈ پیار بھی بچوں کو بگاڑ دیتا ہے اور پھربڑا ہونے پرجانوروں کی طرح مار پیٹ بھی انہیں درست نہیں کرپاتی بل کہ مزید باغی بنا دیتی ہے۔
والدین خصوصاً باپ کو اس بات کا بھی بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ بچوں کی پرورش حرام کمائی سے نہ ہونے پائے۔ حتیٰ کہ زمانہ حمل ہو یازمانہ رضاعت ان ادوار میں خود ماں کو چاہیے کہ حرام کمائی سے سختی سے اجتناب کرے اور بعد میں بھی یہی کوشش کی جائے کہ بچوں کے منہ میں ایک لقمہ بھی حرام کا نہ جانے پائے۔ ورنہ بچوں میں بداخلاقی اوربری عادتیں پیداہوجائیں گی۔ فرمایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے: ‘‘جو گوشت جسم حرام سے پرورش یافتہ ہے اس کاٹھکانا جہنم ہے’’۔
ظاہر ہے جہنم میں جانے والا جسم کیسے نیک اور صالح بن سکتاہے ؟ لیکن باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کی کفالت خوش دلی سے کرے اور اکل حلال کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ اپنے اہل وعیال اور اہل خاندان جن کی کفالت کا وہ ذمے دار ہے، سے غفلت اور کوتاہی برتنا اپنی ذمے داریوں سے فرار اورسنگین جرم ہے۔
لڑکیوں کی پیدائش پر بھی ناگواری اور ناپسندیدگی کا اظہار نہ کریں۔ ارشاد رسول ہے: ‘‘جب کسی کے یہاں لڑکی پیداہوتی ہے تو اللہ جل شانہ’ اس کے یہاں فرشتو ں کو بھیجتا ہے جوآکر کہتے ہیں: اے گھروالو! السلام علیکم! فرشتے پیدا ہونے والی لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ ایک ناتواں کمزور جان ہے جو ایک ناتواں اور کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے ، جو شخص اس ناتواں جان کی پرورش کی ذمے داری اٹھائے گا قیامت تک خداکی مدد اس کے شامل حال رہے گی’’۔ (المعجم الصغیر للطبرانی)
پھر یہ کہ روزی دینے والا تو اللہ ہے خواہ لڑکا ہو یا لڑکی۔ جو بھی دنیامیں آتا ہے اپنی روزی خود لیکر آتا ہے۔ لڑکیوں کی پرورش کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ‘‘جس شخص نے دوبیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ دونوں بالغ اورجوان ہوگئیں۔ اور اپنے گھروں کی ہوگئیں تو روز قیامت وہ اس حال میں آئے گا کہ وہ اور میں ان دو انگلیوں کی طرح ساتھ ساتھ ہوں گے اور آپ نے اپنی انگلیوں کو ملاکر دکھایا’’۔ (ریاض الصالحین/صحیح مسلم)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوہ یا طلاق یافتہ یعنی بے سہارا لڑکی کی کفالت کو بہترین صدقہ قرار دیا۔ فرمایا: ‘‘میں تمھیں بہترین صدقہ کیوں نہ بتا دوں؟ تمھاری وہ بیٹی ہے جوتمھارے پاس لوٹا دی گئی اور تمھارے سوا کوئی اس کو کماکر کھلانے والا نہ ہو’’۔ (ابن ماجہ، جمع الفوائد)
والدین کا اپنے بچوں میں ایک کو ترجیح دینا اور دوسرے کے ساتھ بے توجہی برتنا بھی بچوں کے بگڑنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس سے ایک بچے کے اندر گھٹن، جلن و حسد، نفرت و مایوسی اور رقابت وبغاوت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور دوسرے میں غرور وبرتری کے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب والدین ہی اپنے بچوں کو ایک نظر سے نہ دیکھیں اوران کے ساتھ لین دین اوربرتاؤ میں امتیازی سلوک کرنے لگیں تو پھر کس سے وہ پرخلوص محبت اور انصاف کی امید کریں؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والوں کو سخت تنبیہ کی ہے۔ نیز لڑکیوں کو کمتردیکھنا، ان کے ساتھ غلط سلوک کرنا اورلڑکوں کو اہمیت دینا اور بے پناہ چاہنا اس سے بھی خدا اور رسول نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ بچوں کے سامنے اس طرح کی طنز آمیز باتیں کہ وہ کسی کام کے نہیں ناکارہ و نالائق ہیں، ان کے ذہن و قلب پرمنفی اثر ڈالتی ہیں اور وہ اپنے آپ کو ناکارہ وذلیل سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ وہ اس لائق ہی نہیں کہ کوئی کام کرسکیں یا کچھ سیکھیں یا اپنے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرسکیں۔ پھر وہ تا عمر کچھ کر بھی نہیں پاتے نہ ہی اس کا عزم و حوصلہ ان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ اگران طنزآمیز باتوں کا فوری ازالہ نہ کیا جائے۔ گو کہ والدین اس طرح کی ڈانٹ پھٹکار یا طنز آمیز باتیں بچوں کی اصلاح کی غرض سے ہی کرتے ہیں، لیکن اس طرح کی باتیں انہیں سدھارنے کی بجائے مزیدناکارہ بنادیتی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان کے اندر کی خوبیوں کو سراہا جائے۔ ان میں خودداری ، جرات وہمت اور کچھ کرنے کا حوصلہ و لگن پیدا کرتے رہیں۔ غلط حرکات پر تنبیہ ایک الگ چیز ہوتی ہے۔ لیکن اس طرح کی طنز آمیز اور حوصلہ شکن باتیں بچوں پر غلط اثر ڈالتی ہیں۔ لہٰذا اس سے سختی سے پرہیز کریں۔
احساس کمتری بھی خواہ جسمانی ہو یاذہنی یاکسی اور کمزوری یا برائی کی وجہ سے ہو نقصان دہ ہوتی ہے۔ اور یہ اس وقت زیادہ مضر ثابت ہوتی ہے جب اپنوں کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ان کامذاق اڑاتے ہیں یا انہیں حقیر وکمتر سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے والدین اوربڑے بھائیوں اوربہنوں کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو ان کی دوسری خوبیوں کی طرف بھی توجہ دلائیں اور بتائیں کہ اللہ نے تمہیں اس ایک کمی کے ساتھ کئی دوسری خوبیاں بھی دے رکھی ہیں تاکہ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہی نہ ہونے پائیں۔ اگر یہ احساس کمتری بری عادتوں کی وجہ سے ہوتو بھی والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھیوں اور دوسرے لوگوں کے سامنے اپنے بچوں کی برائیاں نہ گنائیں۔ نہ ان کی کمزوریوں اور خامیوں کاتذکرہ کریں۔ نہ کسی کے سامنے انہیں ڈانٹیں، جھڑکیں یا شرمندہ کریں۔ بلکہ دوسروں کو اپنے بچوں کی خوبیاں بتائیں۔ ہاں تنہائی میں انھیں ضرور سمجھائیں۔ ضرورت پڑنے پر تنبیہ بھی کریں اوراگرناگزیر ہوتو کبھی کبھی ہلکی مار سے بھی کام لیاجاسکتا ہے۔
بچوں کو سات سال کی عمر سے نماز سکھا دیں اور پڑھنے کی تلقین کرتے رہیں۔ اورجب وہ دس سال کے ہوجائیں اورنماز نہ پڑھیں تو سزا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ‘‘اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو جب وہ سات سال کے ہوجائیں۔ اورنماز کے لئے ان کو سزا دو جب وہ دس سال کے ہوجائیں اوراس عمر کو پہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ کردو’’۔
بچوں میں اپنے بھائیوں اوربہنوں کے ساتھ آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے بلکہ ایثار و قربانی کابھرپور جذبہ پیداکریں۔ رشتے داروں وپڑوسیوں کے ساتھ اچھے سلوک اوربزرگوں کا احترام کرنے کی تلقین کرتے رہیں۔ ان میں غریبوں اورلاچاروں کے لیے ہمدردی و مدد کے جذبات کو بھی ابھاریے اور کبھی کبھی ان ہی کے ہاتھوں غریبوں ومجبوروں کی مدد کروائیں۔
بچوں کو بچپن میں ڈرانے سے سختی کے ساتھ پرہیز کریں۔ ورنہ یہ بچپن کا ڈر تا عمر ان کے ذہن و دماغ میں بس جاتا ہے اور ان میں بزدلی و پست ہمتی پیداہوجاتی ہے۔
بچوں کو شروع ہی سے باربار نصیحتیں کرتے رہیں کہ وہ کبھی کوئی پڑی ہوئی چیز نہ اٹھائیں۔ کسی کی معمولی سی چیز بھی نہ چرائیں۔ ساتھ ہی انہیں حرام و حلال کی تمیز بھی سکھائیں۔ ورنہ انھیں چوری اورمفت خوری جیسی بری لت لگ جائے گی۔
کاہلی، سستی اورنکما پن بھی بچوں کو بگاڑ دیتا ہے۔ اس لیے شروع ہی سے انہیں حسب عمر و طاقت محنت و مشقت کرنے اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرنے بل کہ بڑوں کی خدمت کرنے کی عادت ڈالتے رہیں۔ ورنہ بعد میں نکماپن اور کاہلی ان کی عادت میں شامل ہوجائے گی اورپھر انھیں موڑنا ناممکن ہوگا۔
بچوں کے بگاڑ کا ایک اہم سبب والدین خصوصاً باپوں کا اپنے بچوں کے سامنے باربار اس طرح کاتذکرہ بل کہ تکرار اور وہ بھی غصہ وجھنجھلاہٹ کے ساتھ کرنا بھی ہے کہ ہم تمھیں کھلا رہے پلارہے ہیں۔ تمھارے سارے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ اس طرح کا انداز بچوں کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ بل کہ ان میں بیگانگیت پیدا کردیتا ہے۔ ظاہر ہے والدین ہی بچوں کے ساتھ غیروں وبیگانوں کا سلوک کریں ان پراحسان جتائیں تو پھر بچے کسے اپنا کہیں یا سمجھیں گے۔ غلط حرکات پر غصہ وتادیب ایک الگ چیز ہوتی ہے اوراس طرح باربار احسان جتانا ان کی عزت نفس کو مجروح کرنا اور ہی بات ہے۔ پھر بڑاہونے پر وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ اسی طرح بیگانگی کامظاہرہ کرتے ہیں۔ ہاں حکمت کے ساتھ اورغیرمحسوس طریقے سے ان میں یہ احساس ضرور پیداکریں کہ والدین کی ساری محنت دوڑ دھوپ، اپنا سکھ چین وآرام قربان کرکے مصیبتیں اٹھانا تکلیفیں جھیلنا صرف انہیں کی خاطر ہے۔
یہ نکتہ بھی نہایت قابل غور ہے کہ جوبچے پچپن میں اپنی ماں کے ساتھ ان کے باپ، دادا، دادی ، پھوپھی وغیرہ کے مظالم اورنارواسلوک دیکھتے ہیں ان کے ذہنوں میں بھی غم وغصہ اور نفرت اورانتقام کے جذبات پنپنے لگتے ہیں جو ان کی تربیت کے ضمن میں سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بچوں کے بگاڑ کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اکثر بچوں سے صرف ان کے والدین اور نہایت قریبی عزیز ہی محبت کرتے ہیں۔ باقی دیگر رشتے دار و پڑوسی ان سے محبت تو درکنار انہیں پیار کی ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ان لوگوں کے ایسے رویے بھی بچوں میں نفرت و کشیدگی پیداکردیتے ہیں۔ کیوں کہ بچے نہایت حساس پھول ہوتے ہیں جو پیار کی ایک نظر کے بھوکے ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک سے محبت مانگتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج لوگوں کے دلوں میں دوسروں کے لیے محبت تو درکنار رائی برابر ہمدردی کے جذبات بھی پیدانہیں ہوتے۔ کیوں کہ آج کے بڑے ہی کل کے بچے تھے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کو بھی محبت کی نظر سے دیکھیں انہیں بھی جنت کے پھول سمجھیں۔
بچے دوست یا سہیلیوں کی محبت نہ ملنے سے بھی محرومی محسوس کرنے لگتے ہیں اور برے دوستوں یا سہیلیوں کی محبت بھی انہیں بگاڑ دیتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو اچھے بااخلاق اور دیندار بچوں کو دوست بنانے کی ترغیب دیں۔ ہوسکے تو نشان دہی بھی کریں۔ ساتھ ہی ان کے دوستوں کو بھی اچھی نظر سے دیکھیں۔ ان سے بھی محبت کریں۔ اور وقتاً فوقتاً ان کی چائے،ناشتے ، کھانے سے تواضع کریں۔ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا بھی خیال رکھیں اور اپنے بچوں کوبگڑے ہوئے بچوں کی محبت سے بچائیں۔
بچوں کے بگاڑکا ایک اہم سبب بچوں کی ماؤں یا ان کے سرپرستوں کی اپنے بچوں اور ان کے ساتھیوں کے آپسی جھگڑوں میں اپنے بچوں کی بیجا حمایت بھی ہے۔ اکثر دیکھاگیاہے کہ بچوں کے سرپرست اپنے بچوں کے قصوروار ہونے کے باوجود اپنے بچوں کی بجائے ان کے ساتھیوں ہی کو ڈانٹتے دھمکاتے ہیں جو نہایت گھناؤنی حرکت ہے۔ اس سے ایک نقصان تو یہ ہوتاہے کہ بچوں اور ان کے ساتھیوں میں آپس میں کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کے مخلص دوست نہیں بن پاتے۔ دوسرے بچوں کو دوسروں کو ناحق ستانے اور ان پر ظلم کرنے کی عادت ہوجاتی ہے۔ تیسرے یہ کہ بچوں کے ساتھیوں میں بھی نفرت وانتقام کا جذبہ پیدا ہونے لگتا ہے، لیکن اگر بچوں کے سرپرست اپنے بچوں کے قصور پر اپنے بچوں ہی کو تنبیہ کریں اور پھر ان میں میل ملاپ کرادیں اور اگر ان کے ساتھی کا قصور ہوتو بھی اسے پیار سے سمجھائیں تو اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ صرف اپنے بچوں ہی کی تربیت نہ ہوگی بلکہ دوسرے بچوں کی تربیت کی سعادت بھی ہمیں نصیب ہوگی۔ بچوں میں آپس میں پیارو محبت کا جذبہ پروان چڑھے گا، دوستیاں مضبوط ہوں گی اور ایک اہم یہ بھی کہ بچوں کے ساتھی نہ صرف اپنے دوستوں سے محبت کریں گے بلکہ ان کے سرپرستوں کا بھی احترام کریں گے اور آئندہ ان کی ہر نصیحت قبول کریں گے۔ لیکن اس کے لئے نہایت صبرو حکمت سے کام لینا ہوگا اور دوسرے بچوں کے لئے بھی اپنے دلوں میں محبت کے جذبات پیدا کرنا ہوں گے۔
بچوں کے سامنے اگر تعمیری مشاغل یعنی علم وہنر سیکھنے کاانتظام یا اور کوئی مصروفیات نہ ہوتو بھی وہ بگڑنے لگتے ہیں۔ کیونکہ بچوں کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور سیکھیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان کے لئے بہترین علم وہنر سیکھنے کا انتظام کیاجائے جو نہ صرف ان کے عمل و اخلاق کو سنوارنے بلکہ مستقبل میں حلال روزی کمانے کا ذریعہ بھی ثابت ہو، لیکن یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ بچوں کو علم و ہنر سکھانے کا پروسیس چار پانچ سال کی عمر ہی سے شروع کردیاجائے ورنہ بعد میں انہیں پڑھانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی گھر کے کاموں کی بھی انہیں ان کے لائق ذمہ داریاں سونپتے رہیں اور روزمرہ کے کچھ نہ کچھ ٹیکنیکل کام بھی سکھائیں۔ مثلاً کمپیوٹر چلانا، ٹی وی ، ریڈیو اور کپڑوں کی پریس وغیرہ کی معمولی نوعیت کی درستی کاکام۔ مختلف مشینوں کی مشینریاں اور اہم پرزوں کا بھی مشاہدہ کروائیں، کارخانوں میں کام ہوتا ہوا بھی دکھائیں۔ ساتھ ہی دیگر ضروری معلومات بھی دیتے رہیں، حالات حاضرہ سے بھی باخبر رکھیں نیز مختلف کھیلوں میں حصّہ لینے کی بھی انہیں ترغیب دیں جو ان کی صحت و نشوونما کے لئے ضروری ہے، لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ بچہ کھیلوں ہی کو سب کچھ سمجھ لے اور علم وہنر میں دلچسپی نہ لے۔
بچوں کے اندر فن تقریر اور خطابت بھی پروان چڑھے، اس کی بھی فکر رہے جس کے لئے ضروری ہے کہ اسکول و کالجوں میں ہونے والے تقریری مقابلوں میں وہ حصّہ لیں، اس کی انہیں ترغیب دیں، کچھ بچے ڈرائنگ وغیرہ مثلاً قدرت کے مناظر کی عکاسی کرنے کی بہترین خداداد صلاحیت رکھتے ہیں، ایسے بچوں کی صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے، صرف اس بات کا خیال رکھاجائے کہ ایسے جانداروں کی تصویریں نہ بنائیں جس کے لئے رسول اکرم نے منع فرمایا ہے۔
علم وہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ بچوں میں دیگر مطالعے کا بھی ذوق پیدا کیجیے اور اس پر بھی کڑی نگرانی رکھیں کہ فحش ورومانی لٹریچر وغیرہ پڑھنے نہ پائیں۔ بلکہ تفسیر قرآن و حدیث، فقہ ، سیرت انبیاء و صحابہ کرام اور دیگر اسلامی تاریخ نیز دیگر مفید کتب جن سے وہ کچھ سیکھ سکیں، انہیں ان کے مطالعے کی عادت ڈالیں۔ عربی و دیگر زبانیں سیکھنے کی بھی انہیں ترغیب دیں اور بچپن ہی سے جب کہ وہ خود مطالعے کے قابل نہ ہوں انہیں انبیا کرام ، صحابہ کرام اور بزرگانِ دین کی زندگی کے پاکیزہ قصّے سناتے رہا کریں۔ ان کے مقاصد، مشن اور دینی جدوجہد کے سلسلے میں ان کے خیالات و جذبات ان میں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ جِن، بھوت، پریوں کی کہانیاں سنانے سے گریز کریں جو بچوں کے ذہن و قلب پر بْرا اثرڈالتے ہیں اور اکثر وہ مختلف اوہام کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بنیادی ضروریات سے محرومی یعنی تنگ دستی و معاشی ابتری بھی بچوں کے بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ بچوں میں قناعت پسندی اور راضی بہ رضارہنے کا جذبہ پیدا کریں۔ انبیاء کرام و صحابہ کرام کے فاقہ کشی و تنگ دستی کے واقعات انہیں سنائیں، ان کے سامنے اگر مقصد زندگی اور آخرت کے حصول کاجذبہ نیز اس سلسلے میں اسوہ بزرگانِ دین نہ ہوتو وہ بہت زیادہ بگڑنے لگتے ہیں۔
بچوں کے بگاڑ کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ آج ہمارے یعنی ملت کے بچوں کے سامنے کوئی نصب العین یعنی مقصد زندگی نہیں ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے تکلیفیں اٹھانے، مصیبتیں جھیلنے اور قربانیاں دینے کا داعیہ مطلق ان کے اندر نہیں ہے اور یہ نصب العین یعنی کسی نیک مقصد کی خاطر جدوجہد کرنے اور اپنا تن من دھن سب قربان کرنے کاجذبہ ہی وہ طاقت ہے جو ہر کسی کو ہر طرح کے بگاڑ سے محفوظ رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ انسان کی فطرت میں ودیعت ہے کہ اس کی زندگی کاکوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہو اور اس کے سوا اور کیا مقصد ہوسکتاہے کہ ہم لوگوں کو نیکیوں کی تلقین کریں اور بْرائیوں سے روکتے رہیں۔ اسلام سے ناآشنا اللہ کے بندوں کو اللہ کے دین سے روشناس کراتے رہیں اوریہی وہ مقصد زندگی ہے جس کے لئے خداوند کریم نے امت مسلمہ کو برپا کیا جیساکہ ارشاد خداوندی ہے:‘‘تم ہی وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں کی اصلاح کے لئے میدان میں لایاگیا تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو ، بْرائیوں سے روکتے اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔’’ (اٰل عمران)
مزیدارشاد ہے:‘‘اور اس طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایاتاکہ تم لوگوں پر دین حق کے گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنیں۔’’ (البقرہ)
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ فی زمانہ کیا امت مسلمہ کو اپنے اس فریضہ زندگی کا شعور ہے یا وہ یہ خدمت انجام دے رہی ہے؟ اور کیا اپنی اولاد کو بھی اس کا شعور دلارہی ہے۔ جب کہ اللہ کے رسول کا ارشاد ہے کہ جب تک تم دین کی یہ خدمت انجام دیتے رہوگے اللہ کی رحمت تم پر سایہ فگن رہے گی اور جب یہ کام چھوڑدوگے اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آجاؤگے۔ افسوس تو اس کا ہے کہ آج ملت نے اس مقصد زندگی ہی کو بھلادیا ہے۔ اس کام کو چھوڑدیا ہے اور یہ بھی اسی کا خسارہ عظیم ہے، اللہ کا عذاب ہے جو بچوں کے بگاڑ کی صورت میں ہمارے سروں پر منڈلارہا ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ ہم خود یہ خدمت انجام دیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کاشعور دلائیں۔ خود بھی باترجمہ و تشریح قرآن وحدیث و اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کریں، بچوں کو بھی کروائیں، ساتھ ہی انہیں عبادات کا اہتمام کرنے اور زندگی میں غیر اسلامی کاموں سے بچنے کی تلقین کرتے رہیں۔ نیز اپنے محلے وکالونیوں میں ہونے والے ہفتہ واری دینی اجتماعات میں بھی انھیں پابندی سے بھیجتے رہیں۔
معصوم بچوں کے ذہنوں کو مسموم کرنے کے لئے ٹی وی بہت ہی موثر آلہ ہے۔ بچے تو کورا کاغذ ہوتے ہیں جو اچھائی یا بْرائی بھی وہ دیکھتے اور سنتے ہیں ان کے ذہن و قلب کے کاغذ پر ثبت ہوتی رہتی ہے۔ تو ظاہر ہے ٹی وی پر ہونے والے ناچ ، گانے، فحش حرکات اور اخلاق سے عاری سیریلیں، فحش، بے حیائی، غیرسنجیدگی، مادہ پرستی، خود غرضی جیسی بْرائیاں پیدا کرنے میں بڑا رول ادا کرتے ہیں۔ کارٹونس بھی جو بچوں کی دلچسپیوں کا محور ہے، انھیں زندگی کی حقیقتوں سے دور اور اوہام پرست بنادیتے ہیں۔ اگر بچے بچپن ہی سے یہ دیکھتے رہیں تو وہ نہ اچھے اخلاق و کردار کے مالک بن پاتے ہیں نہ اپنے دین و نصب العین سے انھیں دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ وہ اپنے اقرباء، اعزّہ، حتیٰ کہ ازواج کو بھی ٹی وی کی سیریلوں میں دکھائے گئے کرداروں کے روپ میں دیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں اور پھر وہ خوشگوار اور حقیقی سکون سے عاری تنازعات سے پرزندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف ٹی وی سیریلیں خصوصاً غیراخلاقی سیریلیں جنھیں گھر کے تمام افراد بڑی دلچسپی بلکہ دیوانگی کی حد تک پابندی سے دیکھتے ہیں نہ گھر کے کاموں کی پروا نہ بچوں کی تعلیم کا خیال اور پھر اس پر گھنٹوں تذکرہ بچوں کو نہ صرف بگاڑنے بلکہ ان کے مطالعہ و غیرہ کو ڈسٹرب کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔ مختلف ملکوں کے درمیان کرکٹ و دیگر میچ جو آئے دن شروع ہی رہتے ہیں جو ٹی وی پر بھی دکھائے جاتے ہیں، انھیں دیکھنا اور ان پر بحث و مباحثہ بھی گھر کے تمام مرد حضرات کا، بچوں کا قیمتی وقت برباد کرتا رہتا ہے۔ خواہ امتحان کا زمانہ ہو خواہ نہ ہو اس طرح ان کے سال بہ سال گزرتے چلے جاتے ہیں اور بعد میں عمر ڈھلنے کے بعد سوائے نکمّا پن کے کچھ ان کے ہاتھ نہیں آتا اور وہ ناکارہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔
بچوں کے بگاڑ کی سب سے ہولناک صورت یہ ہے کہ ان میں فحاشی و بے حیائی کا رجحان تیز تر ہوتا جارہاہے۔ جس سے ہمارا مسلم معاشرہ بھی دوچار ہواجارہاہے، جو نہایت تشویشناک صورت حال ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ثقافت و کلچر کے نام سے اخلاق و کردار کو برباد کرنے والے دین بیزار، خدا بیزار ٹی وی سیریلز، سنسنی خیز و فحش فلموں، عریاں تصاویر اور رومانی و فحش لٹریچر، ناولوں و افسانوں کا عام ہونا اور بچوں ، بڑوں سب کا انھیں دیکھنا اور پڑھنا نیز مقابلہ حسن ، فیشن شوز اور ماڈلنگ جیسے پْرفریب اور اخلاق سوز چیزوں کو دیکھنا اور ان میں حصہ لینا ہے۔ اس شیطانی کلچر کے خلاف اہل ایمان کو پرزور آواز اٹھانا اور اپنے بچوں کو اس سے بہت دور رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ایک اور بْرائی جسے مسلم معاشرہ بْرائی ہی نہیں سمجھ رہاہے، وہ ہے لڑکے لڑکیوں کی مخلوط تعلیم و ملازمت، جس کی وجہ سے عالم یہ ہوگیاہے کہ آج نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیوں پر بھی ان کے سرپرستوں کا کوئی کنٹرول نہیں رہا۔ بلکہ خود ان کے اپنے گھروں میں نوجوان خادماؤں اور نوجوان ڈرائیوروں کو رکھ کر بچوں، بچیوں کے بگاڑ کا سامان ہورہاہے۔ صرف نمازیں ادا کرکے اور لڑکیوں کو نقاب پہناکر، کہیں تو یہ بھی نہیں، یہ سمجھاجارہاہے کہ دین داری کا فرض ادا ہوگیا ہے۔ آج چچیرے، پھوپھیرے، خلیرے، ممیرے بھائیوں، بہنوں یا دیگر غیرمحرم رشتہ داروں میں آپسی بے تکلفیاں، ان کے ساتھ تنہائیاں، بلاروک ٹوک ان کے ساتھ آنا جانا بلکہ خود ہمارا بھیجنا کیا بچوں، بچیوں کے بگڑنے کا سامان نہیں ہے؟ جب کہ ان بْرائیوں سے بچنے کے احکام و ہدایات بالکل واضح ہے۔ کیا ہمیں ان کا کچھ پاس و لحاظ ہے؟ پھر کیوں آس لگائی جارہی ہے کہ ہمارے بچے نیک و صالح بنیں؟
ماں باپ، بھائی بھابیوں یاد وسرے رشتے دار جوڑوں کے ازدواجی تعلقات میں بے احتیاطی، بچوں کے سامنے ان کے اظہار الفت کے عملی کھیل بھی بچوں کے بگڑنے کا اہم سبب ہے۔ کیا یہ ہولناک صورت حال نہیں ہے کہ بچوں کا بچپن رخصت ہوچکا ہے؟ آج آٹھ یا دس سال کے بچوں کو عورت و مرد کے تعلقات کا وہ شعور آگیا ہے جو پہلے ۲۰، ۲۲ سال کے بچوں کو بھی اس وقت تک نہ ہوتاتھا جب تک وہ خود اس عملی میدان میں نہ آجاتے یعنی کہ ان کی شادیاں نہ ہوجاتیں۔
بچوں خصوصاً لڑکیوں کو بچپن سے عریاں لباس پہنانے کی عادت ڈالنا بھی ان میں بے حیائی پیدا کردیتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انھیں بچپن ہی سے حیادار لباس پہنانے کی عادت ڈالیں، بناآستین یا جالی لگی آستین پہنانا جو چست ہو یا ٹخنوں تک نہ ہو، الغرض جسم کے قابل شرم حصّے کھلے رکھنے سے سختی سے پرہیز کرائیں۔ ساتھ ہی انھیں آڑ میں کپڑے تبدیل کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ حتیٰ کہ بچوں کوآپس میں ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہونے سے بھی سختی سے روکتے رہیں، ورنہ بچوں میں بے حیائی پیدا ہونے لگتی ہے۔ نہایت اہم یہ بھی ہے کہ بچے بچیوں کو سن بلوغیت کو پہنچنے کے پہلے ہی سے چچازاد، خالہ زاد، ماموں زاد، یعنی غیرمحرم رشتے داروں میں آپس میں بے تکلفی برتنے اور انھیں ایک دوسرے کے ساتھ یعنی تنہا لڑکا، لڑکی کو گھومنے پھرنے یا کہیں جانے کی اجازت دینے سے سختی سے پرہیز کریں اور بڑا ہونے پر پردے وستر کے مکمل احکام سے نہ صرف واقف کرائیں بلکہ ان پر بھرپور عمل کرائیں اور خود بھی کریں۔
فی زمانہ بچیوں کے بگاڑ کاایک اہم سبب عام مسلمانوں بلکہ دیندار طبقے میں بھی لڑکیوں کو صرف عصری ہائر ایجوکیشن دلانے کا تشویشناک حد تک بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ جب کہ لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ دینی تعلیم کے ساتھ ان پر خدائے تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں اور دائرہ کار کے مناسب حال عصری تعلیم حاصل کرے یعنی ایسی تعلیم جو اپنے بچوں و خاندان کی اصلاح اور تعلیم یافتہ خصوصاً غیرمسلم خواتین میں دین کااچھی طرح تعارف پیش کرنے کے لئے مفید ثابت ہو اور جو شرعی حدود میں رہتے ہوئے بآسانی حاصل کی جاسکتی ہو۔ اس مقصد کے لئے الحمدللہ پورے ملک میں دینی درس گاہیں چل رہی ہیں جہاں عالمیت، فاضلیت یعنی دین کی مکمل تعلیم کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی ذمہ داریوں کے مناسب حال عصری علوم پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ سماجیات، معاشیات،پولٹیکل سائنس و غیرہ جیسے علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے ایک لڑکی پردہ و حجاب کے ساتھ یعنی پورے اطمینان سے شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے تعلیم حاصل کرسکتی ہے۔ اس سے بہتر اور کیا تعلیم ہوسکتی ہے؟ لیکن کو ایجوکیشن یعنی لڑکے لڑکیوں کی مخلوط تعلیم اور وہ بھی مسلم وغیرمسلم تمام طلبا کے ساتھ ایسے اداروں میں جہاں دینی و اخلاقی تعلیم کی کوئی گنجائش نہ ہو بلکہ صرف مادہ پرستانہ تعلیم دی جاتی ہو، جہاں مخلوط پروگرام ، مخلوط مجالس و مخلوط فنکشن و غیرہ کے لئے روک، ٹوک تو درکنار بلکہ حوصلہ افزائی ہوتی ہو، ایسے اداروں میں پردہ و حجاب، شرم وحیا سے دست بردار ہوکر کوئی لڑکی انجینئرنگ کررہی ہے ، کوئی ایم بی اے، کررہی ہے تو کوئی ایم سی اے، بی فارما، ڈی فارما جو خالص مارکیٹنگ کورسز ہیں، کوئی الیکٹرانک میڈیا خصوصاً ٹی وی چینل کے لئے ڈگریاں لے رہی ہیں۔ یعنی ایسی تعلیم جو عورتوں کے فطری دائرہ کار سے باہر خالص لڑکوں اور مردوں ہی کا دائرہ کار ہے، حتیٰ کہ کئی لڑکیوں کو مذکورہ نوعیت کی تعلیم دلانے کے لئے اپنے گھروں سے سینکڑوں ، ہزاروں میل دور ایسے اداروں میں تنہا بھیجااور رکھاجارہاہے۔ افسوس تو اس کا ہے کہ دوسری قوموں کی مسابقت میں اور مرعوبیت اور احساس کمتری کا شکارہوکر بچیوں کو مذکورہ نوعیت کی تعلیم دلاکر فخر محسوس کیاجارہا ہے۔
ایک لڑکاجب مذکورہ نوعیت کی تعلیم حاصل کرتا ہے تو یہ جاننے کی ضرورت نہیں رہتی کہ وہ کس مقصد کی خاطر یہ حاصل کررہاہے۔ لیکن ایک لڑکی کا مذکورہ تعلیم حاصل کرنا جو اس کے فطری دائرہ کار سے باہر ہے۔ اس کے مقصد، ذہن اور رجحانات کی عکاسی کرتاہے، کیا وہ دینی و اخروی ذمہ داریوں کی ادائی کے جذبے سے یہ حاصل کررہی ہے؟ اور کیا وہ گھر میں رہ کر اور اپنی اصل ذمہ داریوں کو انجام دے کر، حجاب کی پابندی کرتے ہوئے اس تعلیم کا فالواپ کرسکتی ہے؟ جب کہ اس نے تو اسے پہلے ہی خیرباد کہہ چکا ہے اور کیا یہ ممکن بھی ہے؟
یہ بچوں کے بگاڑ کے اسباب اور قرآن وسنت کی روشنی میں ان کی اصلاح کی چند تدابیر ہیں۔ خداوند کریم سے دعا ہے کہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خدا اورسول کے بتائے ہوئے طریقے پر اپنے بچوں کی بہترین تربیت کریں۔ انھیں دین کا داعی و مجاہد بنائیں اور ان تمام کوششوں کے باوجود کوتاہیاں ہم سے ہوجائیں اور جو کمی بیشی رہ جائیں انھیں پوری فرمائیں اور ہمارے بچوں کو دین کا مخلص سپاہی بنائے۔ آمین