میرا تعلق نیپال کے ترائی علاقے کے ضلع بارا سے ہے ، پیدائشی نام کدار ناتھ کھریل ہے، برہمن طبقہ کے کھریل خاندان میں پیدا ہوا ، خاندانی روایات کے مطابق مذہبی طورطریقے پر میری پرورش ہوئی،سترہ سا ل کی عمرمیں آٹھویں جماعت کاطالب علم تھاکہ نیپالی فوج میں ملازمت مل گئی،چنانچہ میں نے نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی ،اسی بیچ میٹرک کیا، آئی اے کیا اور سترہ سال تک محکمہ افواج میں ملازمت کرتا رہا۔ وہاں سے ریٹائرڈ ہونے کے بعدایک سال تک ذاتی کاروبار کیا، پھر مجھے 2004 کے اوائل میں ملازمت کے لیے کویت آنے کا موقع ملا جہاں مجھے قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی۔
میرے قبول اسلام کا قصہ بڑاعجیب ہے، میرا ایک بنگلہ دیشی ساتھی تھا جو تلاوتِ قرآن کی بے حدپابندی کرتا تھا اور گاہے بگاہے مجھے بھی بٹھا کرقرآن سنایا کرتا تھا ، میں نے ایک دن اس سے پوچھا : ‘‘ تم لوگ کس کی پوجا کرتے ہو ؟ ’’اس نے مجھے مختصرلفظوں میں بتایا کہ ‘‘ ہم مسلمان ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں کسی مورتی کی پوجا نہیں کرتے’’۔یہ محض اس کا جواب نہیں تھا بلکہ میری زندگی کے لیے پہلا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔
ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی نیک صفت بزرگ مجھے کہہ رہے ہیں:‘‘ تم اسلام میں آجاؤ’’ ، میں نے جواب دیا : ‘‘میں ہندو ہوں اور میرے گھر والے اس سے راضی نہیں ہوسکتے’’ ، اس نے کہا : ‘‘تم پہلے اپنی فکرکرو اور سچائی قبول کرلو’’۔ اسی کے بعد میرے اندر ایک طرح کا تجسس پیدا ہوگیا ،مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا گویامیری کوئی شے کھوچکی ہے ،میں بار بار مسلم دوستو ں سے اسلام کے بارے میں پوچھتا رہتا ،جب مجھے اسلام کے تئیں بالکل اطمینان ہونے لگا تو ایک دن میں نے ایک کویتی سے کہا کہ ‘‘میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں’’ ، اس نے بلاتاخیر مجھےipc پہنچا دیا ، یہاں میری ملاقات مولانا صفات عالم محمد زبیرتیمی صاحب سے ہوئی ،ان سے میں نے اپنا پورا قصہ سنادیا ، اولاً تو انہوں نے مجھ سے عرض کیا کہ محض خواب کی بنیاد پر اسلام قبول کرناکوئی معنی نہیں رکھتا ،بلکہ پہلی فرصت میں آپ کو اسلام کی کھوج کرنی چاہیے کیونکہ اسلام ہی آپ کا دھرم ہے جسے آپ کے خالق ومالک نے آپ کے لیے اورساری انسانیت کی رہبری کے لیے آخری شکل میں اتارا ہے، اسلام قبول کرنا دھرم بدلنا نہیں بلکہ اپنے پیدائشی دھرم کو پانا ہے۔پھر انہوں نے سنہرے انداز میں میرے سامنے اسلام کا تعارف کرایا ، ان کی ایک ایک بات میرے دل میں اترتی گئی بالآخرمیں نے ایک گھنٹہ کی گفتگو کے بعد اسی وقت اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔اس کے بعد میں ہمیشہ مولانا صفات عالم صاحب سے استفادہ کرتا رہا ،ہفتہ واری دروس میں حاضر ہوتا اور دیگراوقات میں بھی’جب کبھی کسی طرح کااشکال پیدا ہوتا فوراً مولانا سے رابطہ کرکے تشفی بخش جواب حاصل کرلیتا۔جب مولانا کرم اللہ تیمی صاحب ipc میں بحیثیت نیپالی داعی تشریف لائے توایک عرصہ تک ان سے بھی استفادہ کرنے کا موقع ملا، میں آئے دن اپنی معلومات میں اضافہ کرتا رہا ، میری دعوتی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ipc کے ذمہ داران نے مجھےipc میں کام کرنے کا زریں موقع فراہم کیا ،چنانچہ میں نے کمپنی چھوڑ دی اور تقریباً تین سال سے ipc میں بحیثیت داعی کام کررہاہوں۔ فللہ الحمد والمنۃ
اس اثنا میں نے اپنی اہلیہ کومتعدد بار اسلام کی دعوت دی، بالخصوص جب دوسال قبل دوماہ کے لیے گھر گیاتو پہلی فرصت میں ’میں نے ان کواسلام بتایا اور انہوں نے اسلام قبول بھی کرلیا لیکن جب دومہینہ گزرنے کے بعدکویت آیا تو میرے سسر نے اس پر دباؤ ڈالا اور قسم کھالی کہ جب تک وہ اسلام سے نہ پھرے گی تب تک میں اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھ سکتا ،حتی کہ وہ میرا مردہ منہ بھی نہیں دیکھ سکتی۔ اب کیاتھا،وہ اپنے شیطان باپ کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے مرتد ہوگئی، اس بیچ میں نے بارہا کوشش کی کہ وہ اسلام کو اپنالے لیکن اب وہ ماننے کو تیارنہ تھی حالانکہ میں اس سے بیحد محبت کرتا تھا۔میرے پاس ایک سترہ سال کی لڑکی ہے جو نرسنگ کی تعلیم حاصل کررہی ہے، ایک بیٹا آٹھویں جماعت میں زیرتعلیم ہے جبکہ دوسرا بیٹا ابتدائیہ میں پڑھتا ہے ، میری ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ میرے گھر والے اسلام کو گلے لگالیں لیکن ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے کوشش کے باوجود ناکام رہا۔ایک ماہ قبل میں سفرپرگیا اس امید کے ساتھ کہ میرے اہل خانہ اسلام قبول کرلیں گے کیونکہ ان کی باتوں سے مجھے توقع بندھنے لگی تھی ،حالانکہ انہوں نے منظم پلاننگ کے ساتھ مجھے بلایا تھا تاکہ دوبارہ کویت نہ لوٹ سکوں۔ جس روز گھر پہنچا، بیوی اور بچوں کوبٹھا کر دو گھنٹہ تک سمجھایا لیکن بیوی اپنی بات پر مصر رہی کہ وہ اسلام میں نہیں آے گی بالآخر میں نے اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ رات گذاری، صبح بھی میں نے اہلیہ کو سمجھایا اور تاکید کی کہ اسلام نے ہم دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی ہے، ازدواجی زندگی گذارنااسی وقت ممکن ہے جب تم اسلام میں آجاؤ ، میں دومہینہ کی فرصت لے کرگیاتھالیکن معاملہ اس قدر پیچیدہ ہوا کہ تقریبا ً ہفتہ عشرہ کے بعد ہی مجھے گھر سے نکلنا پڑا۔ پہلے ہی دن میری سترہ سالہ بچی نے اپنی ماں کے اشارے پر میرے موبائل سے کویت کے سارے نمبر ڈیلیٹ کردیے ، میری بیوی خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی ہے ،اس کے ایک بھائی امریکہ میں اور ایک بھائی بلجیم میں رہتے ہیں ، میرے سسرال والوں کی پلاننگ تھی کہ کسی طرح میں ان کے دھرم میں لوٹ آؤں اور دوبارہ کویت نہ آسکوں ، امریکہ میں مقیم میرے نسبتی برادر نے مجھے سبز باغ دکھانے کی کوشش کی کہ چند سالوں تک گھر پرآرام کروں اوروہ مجھے اس اثنا کویت کی میری سالانہ آمدنی سے کہیں زیادہ رقم مہیا کریں گے ،پھر اس کے بعد مجھے امریکہ بلا لیں گے ،لیکن میں نے ان کی بات کو خاطر میں لائے بغیر دوٹوک جواب دیا کہ ایسا قطعاً ممکن نہیں ہے ،میں نے اسلام کو گلے لگایا ہے تو تادم حیات اس پر قائم رہوں گا اور کوئی طاقت مجھے اسلام سے پھیر نہیں سکتی۔اسی بیچ دسہرہ کا تہوار آگیا اور میرے گھر والے مجھ پر زور ڈالنے لگے کہ میں بھی ان کے تہوار میں شرکت کروں، میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں کسی صورت میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا، اِدھر بیوی رو رہی تھی تو اْدھر بچے رو رہے تھے،بلکہ سب نے کھانا تک نہیں کھایا لیکن میں اپنی بات پر اٹل رہابالآخر تھک ہار کر سب نے دوسرے دن کھانا کھا یا۔
ہفتہ عشرہ تک میں نے دسیوں بار اہل خانہ کو اسلام کی دعوت دی ، اپنی محبت کا واسطہ دیا اور علیحدگی کی صورت میں معاشرتی بگاڑ اور بچوں کے مستقبل کی بربادی سے ڈرایا لیکن میری بیوی اپنے بھائیوں اور باپ کے بہکاوے میں آکر دین میں میرا ساتھ نہ دے سکی، جب مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ میرے خلاف یہ لوگ سازشیں کررہے ہیں کیونکہ دو سال قبل مجھے اس کا تجربہ ہوچکا تھاکہ چندشرارت پسندوں نے میری بیوی کی بیوقوفی سے مجھے جسمانی اذیت پہنچانی چاہی تھی’ لیکن اسی وقت میرا ایک دیرینہ دوست پہنچ گیا جس سے میں بال بال بچ گیا، اس بار بھی اس طرح کے آثار دکھائی دینے لگے تو میں ایک دن خفیہ طور پر استعمال کے کپڑے لیے ،گھر سے نکل پڑا اور چند کلو میٹر دور میرے ایک دوست کا گھر ہے جہاں ایک ہفتہ چھپا رہا ، اس بیچ ٹکٹ کا انتظام کیا اور دو بارہ کویت آگیا۔
واقعہ یہ ہے کہ میرے سسرال والوں نے ہی سارامعاملہ خراب کیا ہے جن کی میرے اہل خانہ کو پوری پشت پناہی حاصل ہے۔ مجھے اس بات کا کوئی افسوس نہیں کہ میں اپنے اہل خانہ اور اولاد سے بچھڑ گیا ہوں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ وہ اسلام سے محروم رہ گئے ہیں۔اخیرمیں قارئین سے میری درخواست ہے کہ وہ اللہ تعالی سے میرے اہل خانہ کی ہدایت کے لیے دعا کریں۔
٭٭٭
چینی اور نمک دونوں کی شکل میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا، دونوں کا ایک جیسا ہی رنگ ہوتا ہے، ہاں استعمال کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ نمک کیا ہے اور چینی کون!بس کچھ ایسا ہی معاملہ انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
٭٭٭
اگر آپ کے پاس ایک سیب ہو اور میرے پاس بھی ایک، اور ہم ان سیبوں کا آپس میں تبادلہ کر لیں، تو کچھ بھی نہیں ہوگا، آپ کے پاس بھی ایک سیب رہے گا اور میرے پاس بھی ایک سیب رہے گا۔اگر آپ کے پاس ایک اچھا خیال (آئیڈیا) ہو اور میرے پاس بھی ایک اچھا خیال ہو، اور ہم اپنے اپنے خیالات کا آپس میں تبادلہ کریں تو آپ کے پاس دو خیالات ہوجائیں گے اور میرے پاس بھی دو خیالات۔گویا علم / خیالات / تجربہ بانٹنے سے بڑھتا ہے، ہیں ناں!
٭٭٭