عظیم باپ کا انتقا ل ہوا تو اس کے نوجوان بیٹے کو جماعت کا امیر بنا دیا گیا۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس عمر میں اتنی بڑی ذمہ داری سونپ دینا تقاضائے دور اندیشی کے خلاف ہے ۔جبکہ ذمہ داری سونپنے والوں کی رائے یہ تھی کہ بات عمر کی نہیں صلاحیتوں کی ہوتی ہے اور ہمیں اس جوان میں صلاحیتیں باپ سے بھی دوچند نظر آتی ہیں۔آنیوالے وقت نے ان لوگوں کی بات درست ثابت کر دی۔بیٹا یوں تو ہر کام میں باپ کا نقش پا ثابت ہورہا تھامگر جہاں تک انفاق کا تعلق تھاوہ باپ سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔اس کی اس دریا دلی اور فیاضی پر بعض محتاط بزرگوں کو تشویش ہوئی کہ مبادا مستقبل میں زحمت اٹھانا پڑے۔لوگوں نے سوچا تو سہی کہ سمجھایا جائے مگر ایک تو وہ جماعت کے امیر، دوسرے شخصی وجاہت ، چنانچہ لوگ بات کرنے جاتے مگر حوصلہ نہ کرپاتے ۔ بالآخر جماعت کے ایک نہایت اہم بزرگ ، جن کا ان سے جماعتی وابستگی کے ساتھ ساتھ قرابت کا بھی گہراتعلق تھا ، تشریف لے گئے ۔ یہ بزرگ فرمانے لگے کہ بیٹا اب ذرا دھیان سے خرچ کیا کرو ، اب چچا جان کا زمانہ نہیں رہا۔اس جوان نے بڑ ے ادب سے ان کی بات سنی اور اک لمحے کے توقف کے بعد کہا ، حضرت بات تو آپ کی درست ہے کہ اب ابا جان کا زمانہ نہیں رہا مگر بات تو صرف اتنی ہے کہ لینے والا بدلا ہے، دینے والا تو نہیں بدلا۔یہ جملہ کہنے والے جوان حیات الصحابہ کے مصنف اور تبلیغی جماعت کے دوسرے امیرمولانا محمد یوسف تھے اوران کو نصیحت کرنے والے بزرگ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا تھے۔
ان شخصیات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس وقت ہمار ا مقصودان شخصیات کو اجاگر کرنا نہیں بلکہ اس رویے اور انداز کی طرف توجہ دلانا ہے جو مولانا محمد یوسف نے اختیارکیا۔صحابہ کے بعد ، مسلمانوں کی تاریخ میں اگرچہ یہ رویہ بہت نادر و نایاب نظرآتا ہے لیکن ہم دیانتداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ آج بھی مسلمانوں کے بہت سے روگ اسی بھولے ہوئے رویے کو دوبارہ سے اپنی زندگیوں میں جاری کرنے سے دور ہو سکتے ہیں۔یہ رویہ اصل میں اللہ رب العزت کے ساتھ اس انمول تعلق کو ظاہر کرتاہے کہ جو واقعی ایک بندے کاہونا چاہیے اگرچہ بعض کم فہم اس
سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یہ شاید اسباب سے بے نیازی اور وسائل کی اہمیت کا عدم ادراک ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں یہ اسبا ب و وسائل کو استعمال کرتے ہوئے مسبب الاسبا ب پر کمال اعتماد کا اظہار ہے اور جب مسبب الاسباب کے ساتھ اس قسم کا تعلق استوار ہوجاتا ہے تو پھر وہ بعض اوقات بغیر اسباب کے بھی عطا کر دیتا ہے۔ کیوں ؟کیوں کہ وہ قادر مطلق اور مالک ہے سب کچھ کے بغیر سب کچھ کر سکتا ہے اور بندے سب کچھ کے ساتھ بھی کچھ نہیں کرسکتے اگر وہ نہ چاہے تو۔سوئے حرم کی رائے یہ ہے کہ فی زمانہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے جس قدر علم و فن اور سائنس و ٹیکنالوجی میں محنت اورترقی ضروری ہے اسی قدر بلکہ اس سے بھی زیادہ یہ رویہ سیکھنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ دینے والا تو آج بھی وہی ہے ، بدلے ہیں تولینے والے بدلے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم نے سائنس و ٹیکنالوجی میں مطلوبہ ترقی حاصل کر بھی لی لیکن مالک سے لینا نہ آیا تو پھر شاید یہ ترقی بھی نقش برآب ثابت ہو۔