عدم یکسوئی

مصنف : احمد جاوید

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اگست 2013

حکم ربانی

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ. الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰـشِعُوْنَ. (المومنون ۲۳: ۱، ۲)

‘‘وہ ایمان والے یقینا فلاح پائیں گے جو اپنی نمازیں خشوع کے ساتھ پڑھتے ہیں۔’’

وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَ یَزِیْدُہُمْ خُشُوْعًا. (الاسراء ۱۷: ۱۰۹)

‘‘اور وہ منہ کے بل اللہ کے حضور گڑگڑاتے ہیں، ان کی آنکھیں اشک بار ہوتی ہیں اور قرآن ان کے خشوع کو بڑھا دیتا ہے۔’’

فرمان نبوی

سئل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الوسوسۃ، قال: تلک محض الایمان. (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان)

‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وسوسہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ تو ایمان کی نشانی ہے۔’’

عن ابی ہریرۃ ان رسول اللّٰہ دخل المسجد فدخل رجل فصلی فسلم علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرد، فقال: ارجع فصل فانک لم تصل، فرجع فصلی کما صلی، ثم جاء فسلم علی النبیؐ. فقال: ارجع فصل فانک لم تصل ‘ثلاثا’، فقال، والذی بعثک بالحق ما احسن غیرہ فعلمنی. فقال اذا قمت الی الصلوٰۃ فکبر، ثم اقرأ ما تیسر معک من القرآن، ثم ارکع حتی تطمئن راکعاً، ثم ارفع حتی تعتدل قائما، ثم اسجد حتی تطمئن ساجداً، ثم ارفع حتی تطمئن جالسا، وافعل ذلک فی صلاۃ کلہا. (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب وجوب القرأۃ للأمام)

‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔ اتنے میں ایک آدمی مسجد میں آیا، نماز ادا کی اور آ کر آپ کو سلام کیا۔ آپؐ نے اسے فرمایا: جاؤ جا کرنماز ادا کرو، تم نے نماز ادا نہیں کی۔ وہ واپس گیا اور اسی طرح نماز ادا کی جیسے پہلے ادا کی تھی۔ پھر وہ آپؐ کے پاس آیا اور سلام کیا۔ آپؐ نے فرمایا واپس جاؤ اور نماز ادا کرو، تم نے نماز ادا نہیں کی۔ اس طرح تین دفعہ ہوا تو اس آدمی نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، مجھے اس سے بہتر نماز پڑھنی نہیں آتی، آپ مجھے سکھا دیجیے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: جب تم نماز کا ارادہ کرو تو اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کرو، پھر (الحمد کے بعد) قرآن کریم کا کچھ حصہ تلاوت کرو، پھر رکوع کرو اور پورے اطمینان سے رکوع کرو، پھر کھڑے ہو جاؤ اور پوری طرح سیدھے ہو کر اطمینان سے کھڑے رہو، پھر سجدہ کرو اور مکمل اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سجدے سے اٹھو تو (دوسرا سجدہ کرنے سے پہلے) اطمینان سے بیٹھو۔ اور اسی طرح ساری نماز ادا کرو۔ ’’

یکسوئی خصوصاً عبادات میں یکسوئی کی تین قسمیں ہیں: ۱۔ ذہنی، ۲۔ طبعی اور ۳۔ ارادی۔ اگر ان میں سے کوئی قسم بھی بندے کو نماز وغیرہ میں میسر ہو تو اس کی عبادت مائل بہ کمال کہلائے گی۔

موجودہ زمانے میں آدمیوں کی ساخت کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ یکسوئی کے تینوں مدارج بیک وقت حاصل ہو جانا تقریباً ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ اس صورتحال میں اگر کوئی شخص محض ارادی یکسوئی پر بھی قادر ہو تو وہ عبادت کے بنیادی حق کو ایک لحاظ سے پورا کر لیتا ہے۔ ایسے آدمی کو یکسوئی نہ ہونے کا مریض نہیں کہا جائے گا۔ مشکل اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم یکسوئی کا آئیڈیل مفہوم اپنے عمل پر منطبق کر کے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس سے تشویش اور خلفشار پیدا ہوتا ہے اور اچھی بھلی عبادت کی ناقدری کا خطرہ رونما ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ بات پہلے ہی ذہن میں محفوظ ہونی چاہیے کہ یکسوئی کا وہ فقدان جو شرعاً مذموم ہے دراصل یکسوئی کی مذکورہ بالا تینوں قسموں کے فقدان کا نام ہے۔

اگر کوئی شخص نیت اور قصد کی قوت سے اپنے معبود کی طرف یکسو ہے لیکن یہ یکسوئی خیالات کی آمد اور طبیعت کی بیزاری وغیرہ کو ختم نہیں کر پاتی تو بھی شرعی معیار سے اس آدمی کو اپنی عبادات میں یکسو رہنے والا کہا جائے گا۔ ہاں! اگر اس کا ارادہ بھی یکسو نہیں ہے تو پھر گویا وہ عبادت نہیں کر رہا۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص نماز پڑھے مگر اپنے معبود کو فراموش کرے۔ ظاہر ہے کہ اس فعل کو عبادت کا نام ہر گز نہیں دیا جا سکتا۔ عبادت کا لازمی مطلب اپنے معبود کی طرف رخ کرنا ہے خواہ ارادے سے ہو، خواہ ذہن اور طبیعت سے۔ اس اصول کی روشنی میں عبادات اپنی تمام تر عظمت اور گہرائی کے ساتھ بالکل فطری اور سہل ہو جاتی ہیں۔ یہ اصول یاد رہے کہ سچا بندہ اپنی عبادات کی طرف سے بلاوجہ کے وسوسوں کا شکار نہیں ہوتا۔ یہاں ہمارا موضوع یہ ہے کہ آج کل بہت سے نمازی ایسے ہیں جنھوں نے خود کو اس فطری یکسوئی کی استعداد سے بھی محروم کر لیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے پورے شعور اور ارادے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے منہ موڑ رکھا ہے۔ ان کی تمام عبادات کسی اور محرک اور سبب کی بنا پر ہیں، بندگی کا تقاضا ان سے غائب ہے۔

مختصر یہ کہ عبادات میں یکسوئی نہ ہونے کا قطعی اور حتمی مطلب یہ ہے کہ دوران عبادت بندہ اپنے معبود سے غافل رہے اور اس غفلت کا اسے علم اور احساس بھی نہ ہو۔ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو اپنے رب کو بھلانے پر راضی ہے اور یہ غفلت بھی ارادی ہے۔ یہ صورت بہت خطرناک ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ ایک وبا کی طرف پھیلتی بھی جا رہی ہے۔ جن خرابیوں کو آدمی خود اختیار کرتا ہے، ان کا علاج اس پر نہیں چھوڑا جا سکتا، البتہ ہم حفظ ماتقدم کے طور پر کچھ ایسی تدابیر کو اپنا معمول بنا سکتے ہیں جن کی برکت سے اس بیماری کے حملے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ وہ تدابیر یہ ہیں:

۱۔ نماز کو اس کے پورے آداب کے ساتھ ادا کرنا یعنی اطمینان، سکون اور اہتمام سے۔

۲۔ قرآن سے زندہ تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔ اس کی سادہ سی ترکیب یہ ہے کہ تلاوت کے دوران میں اپنی زبان میں سہی مگر خوب تکلف سے سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگنا کہ یا اللہ! اس کتاب کو میری زندگی کا مرکز، میری امیدوں کا محور، میرے اعمال کا مدار اور میری آخرت کا نور بنا دے۔ یا اس طرح کی حسب حال دیگر دعائیں۔ یہ یقین رکھیں کہ ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ آدمی پوری طرح ڈوب کر قرآن پڑھنے کی کوشش کرے اور بیچ بیچ میں اللہ تعالیٰ کو پکارے اور اس کے بعد بھی قرآن اس کا حال نہ بنے۔

۳۔ ہر عبادت کے آغاز اور دوران میں حدیث احسان کو ذہن میں تازہ کرنا۔ عبادات میں یکسوئی کا یہ موثر ترین ذریعہ ہے۔

۴۔ وقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ کو پکارنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بے تکلفی اور دوام پیدا ہوتا ہے۔

۵۔ گھر والوں اور بے تکلف دوستوں میں بیٹھ کر دینی باتیں کرنی چاہییں۔ اس طرح دین ایک زندہ اور سب پر ترجیح رکھنے والی حقیقت کی حیثیت سے شعور، ارادے اور طبیعت میں قائم ہو جاتا ہے اور اس میں محبوبیت کا رنگ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات محتاج تشریح نہیں کہ دین کی محبت حاصل ہو جائے تو عبادات میں یکسوئی نہ ہونے کا امکان بھی باقی نہیں رہتا۔

۶۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور صحابہ کرامؓ اور سلف کے تذکروں کا مطالعہ آدمی کی اندرونی بناوٹ کو بندگی کی روح سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ ہماری رائے میں ایسے علم کی تحصیل اکثر فنی علوم سے زیادہ افضل اور نافع ہے۔

س: عبادات میں یکسوئی کا فقدان کسی نفسیاتی عدم توازن سے بھی تو پیدا ہو سکتا ہے، اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

ج: نفسیاتی عارضے سے پیدا ہونے والی عدم یکسوئی شرعاً عذر ہے اور عبادات کی قبولیت کو متاثر نہیں کرتی۔ یہ ضرور ہے کہ ایسا شخص اپنی عبادات کی طرف سے مطمئن نہیں رہتا اور یہ بے اطمینانی اسے عبادات سے دور بھی کر سکتی ہے تاہم یہ کوئی شرعی خرابی نہیں ہے۔ ہم اس کے علاج میں کچھ باتیں عرض کر سکتے ہیں۔ لیکن عام طور پر نفسیاتی بیماریاں بہت پیچیدہ اور انفرادی ہوتی ہیں، اس لیے ایسے آدمی کو چاہیے کہ وہ کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کرے۔

س: آپ نے یکسوئی کی تین قسمیں بیان کی ہیں یعنی ذہنی، طبعی اور ارادی۔ ایک عام آدمی شاید انھیں نہ سمجھے، لہٰذا بہتر ہو گا کہ ان کی کچھ وضاحت کر دی جائے۔

ج: ذہنی یکسوئی کا مطلب ہے عبادات میں کوئی ایسا خیال نہ آنا جو اس عبادت کی مجموعی فضا سے خارج ہو مثلاً اپنے کسی مسئلے کا، کسی کام کا یا کسی چیز کا خیال۔ طبعی یکسوئی کا مطلب ہے عبادت کے دوران میں عبادت کی طرف راغب رہنا اور اس سے مختلف کیفیات قبول نہ کرنا۔ ارادی یکسوئی کا مطلب ہے عبادت کی نیت کا حاضر رہنا۔

س: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نماز وغیرہ میں جو وساوس آتے ہیں وہ یکسوئی کے فقدان پر دلالت کرتے ہیں، کیا یہ خیال صحیح ہے؟

ج: یہ خیال بالکل غلط ہے۔ وساوس غیر اختیاری ہوتے ہیں اور غیر اختیاری چیزیں شرعاً قابل مواخذہ نہیں ہوتیں۔ ان کی وجہ سے بس یہ ہو سکتا ہے کہ بندہ کمالات عبادت تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔ جب تک آدمی وسوسوں پر راضی نہیں ہے اسے عدم یکسوئی سے حفاظت ہے جو عبادت کی روح کو غارت کر دیتی ہے، لہٰذا یہ کوئی ایسا مرض نہیں ہے جس کے علاج کو لازمی گردانا جائے۔ یہ ٹھیک ہے ایسی کوشش کرتے رہنا چاہیے جن سے وساوس کا راستہ بند ہو سکے، لیکن یہ کوششیں گناہ سے بچنے سے زیادہ کمالات کے حصول کے لیے ہوتی ہیں۔ ان کوششوں کی ایک مختصر سی فہرست یہ ہے:

٭ عبادات کی ادائی سے پہلے وساوس سے محفوظ رہنے کی دعا کرنا

٭ نماز اور تلاوت میں الفاظ کی صورت کو تصور میں لانا

٭ عبادات میں رونے کی کوشش کرنا

٭ نماز میں لمبا رکوع اور لمبا سجدہ کرنا

٭ وساوس کی آمد پر دل کی زبان سے اللہ کا شکر ادا کرنا کہ ان پر پکڑ نہیں ہو گی

وسوسے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ ذہن میں رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مذمت نہیں فرمائی، بلکہ الٹا اسے ایمان کی نشانی قرار دیا ہے۔ البتہ اسے نقیض کمال قرار دیتے ہوئے اس سے تعوذ کا حکم دیا ہے۔

            (ماخوذ : ترک رذائل، احمد جاوید صاحب، مرتب ڈاکٹر محمد امین)

٭٭٭