اسلام نے مردوں اور عورتوں کے حقوق واختیارات کے متعلق ایک مخصوص فلسفہ رکھا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے معاملات میں اسلام کبھی دونوں کیلئے ایک موقف اختیار کرتا ہے اور کبھی دونوں گروہوں کیلئے الگ الگ موقف اختیار کرتا ہی۔اسلام پر تنقید کرنے والے اور خود کو عورتوں کے حقوق کے علمبردار سمجھنے والے افراد(مرد وخواتین)یا گروپ اسلامی احکامات کو نہ صرف عورت کی مخالفت سمجھتے ہیں بلکہ ان کے خیال میں ان احکامات اور آداب سے عورت کی تذلیل ہوتی ہے ۔ان کا خیال ہے کہ اسلامی نظریات میں عورت کو وہ خود مختاری حاصل نہیں جو عورت کا حق ہے۔اگر اسلام نے عورت کو مکمل انسان تسلیم کیا ہے تو پھر اسلام نے تعددازواج کی اجازت کیوں دی ہے،اور طلاق کی اجازت صرف مرد کو کیوں دی ہے۔اس نے دو عورتوں کی شہادت کو ایک مرد کی شہادت کے برابر کیوں قراردیا ہے،اسلام نے مرد کو گھر کا سربراہ کیوں قرار دیا ہے۔معاشی طور پر عورت کو مرد کامحتاج کیوں بنایا ہے وغیرہ وغیرہ۔اسلام ان اصولوں کو واضح کرتا ہے جو اسلام نے عورت کو خود مختار کرنے کیلئے بتائے ہیں ساتھ ہی تمام انسانوں خصوصاً ًمسلمان مرد و عورت کی بہتری کیلئے بنائے گئے ضابطے بھی پیش کرتا ہے۔
اسلام میں عورت کی خود مختاری
اسلام ایک معتدل دین ہے،اسلام روح اور جسم کے تقاضوں کوبحْسن و خوبی پورا کر تا ہے،کام اور عبادت میں توازن ،بے غرضی اور بقائے ذات میں توازن کو اسلام عدل کہتا ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ آیت 228 میں فرماتے ہیں: وَلَھْنَّ مِثلْ الَّذِی عَلَیھِنَّ بِالمَعرْوفِ
ترجمہ: ‘‘عورتوں کیلئے بھی معروف طر یقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں’’۔
عورت اسلام کی نظر میں مرد کی مدمقابل اور فریق ثانی نہیں ہے بلکہ مرد سے عورت کی تکمیل ہوتی ہے۔عورت مرد کا ایک جزو ہے اور مرد عورت کا ایک جزو۔اس مفہوم کو قرآن نے یوں بیان کیا ہی: ٍبعضْکْم مِن بَعضٍ (آل عمران:159) ترجمہ: ‘‘تم آپس میں ایک دوسر ے کے جزو ہو’’۔
قرآن وحدیث کی ہدایات بنیادی طور پر مرد اور عورت دونوں کو مخاطب کرتی ہیں ،انسانی کرامات و شرف سے لے کر تغیراتی قوانین تک تمام امور میں دونوں یکساں ہیں۔ کچھ امورمیں باہم فرق ہے انہیں پوری وضاحت کے ساتھ بتا دیا گیا ہی۔ان چند استثنائی امور سے ہٹ کر بقیہ ہر جگہ مساوات و برابری جلوہ گر ہے۔
امام ابن رشد اسی مساوات سے متعلق فرماتے ہیں‘‘اصل یہ ہے کہ جب تک شریعت کسی فرق کی وضاحت نہیں کر دیتی مرد اور عورت دونوں کیلئے حکم یکساں ہے’’۔
شخصی خود مختاری
اسلام میں عورت کا ہرطرح سے خیال رکھا گیاہے اور اس کی ناموس کا احترام اور تحفظ بھی دیا گیا ہے۔اسلام نے اس مرکزی حق کیلئے کئی احکام و قوانین بنائے ہیں عورت کی خود مختاری میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ عورت کی الگ شناخت اور شخصیت ہے اسلام عورت کی شخصیت کو پر اعتماد دیکھنا چا ہتا ہے عورت کو ہر معاملے میں شخصی آزادی دیتا ہے اور اس کو کسی بھی طرح احساس کمتری نہیں ہونے دیتا۔
نبی پاک نے صرف مردوں کیلئے نہیں بلکہ عورتوں کیلئے بھی تعلیم کو ضروری قرار دیا بلکہ عورتوں کیلئے الگ دن مخصوص کیا گیااور ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے اس موقع سے بہت خوبی کے ساتھ فائدہ اٹھایااور اتنا علم حاصل کیا کہ آپ نے صحابہ ؓسے فرمایا کہ وہ اسلام کی آدھی تعلیم حضرت عائشہ سے لے سکتے ہیں۔ یہ جملہ کہہ کرآپ نے حضرت عائشہ کوعلم کے میدان میں امتیازی حیثیت دی۔ اس لئے آپ کے بعد بھی حضرت عائشہ نے بڑی تعداد میں احادیث ہم تک پہنچائیں۔عورت اپنے بنیادی دائرہ کار گھرکی دنیامیں خودمختارہے،وہ کیا پکائے،کھلائے اور کس طرح گھر کو چلائے،اس کا اس کو اختیار ہے۔
معاشی خود مختاری
مسلمان عورت کو کسی بھی دور میں معاشی خودمختاری سے بے بہرہ نہیں کیاگیا۔اس کی وراثت اسی کی ہوتی رہی ہے اور عورت کو کاروبار کرنے کی بھی اجازت دی گئی اور یہ بات بھی اس کیلئے ضروری نہ تھی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ پیسہ ملا کر رکھے نہ ہی اس کے پیسے پر شوہر کی مرضی چلتی تھی۔ چودہ سو سال پہلے ہی اسلام نے یہ تمام خودمختاری عورت کو دی ہوئی تھی۔عورت جائیداد بھی رکھ سکتی ہے،ملازمت ،تجارت، زراعت و گلہ بانی کی بھی اجازت ہے۔
دور نبوی اور صحابہ کی مثالوں سے ثابت ہے کہ حجاب کا حکم آجانے کے بعد بھی مسلم خواتین کو ان مشغلوں اور کاروباروں سے نہ روکا گیا جو حجاب کا حکم آنے سے پہلے وہ کرتی تھیں۔انہوں نے وہ کام بازاروں،گھروں اور کھیتوں میں جاری رکھے لیکن انہوں نے ایسا لباس استعمال کیا جو ان کی زیب و زینت کا پردہ دار ہوتا۔
٭حضرت سودہ کو دباغت کا علم تھا اور جانوروں کی کھالوں کو دباغت دیا کرتی تھیں ،فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ ہماری ایک بھیڑ مر گئی اور ہم نے تازہ اترتی ہوئی کھال کو دباغت دیا پھر اس میں کھجوریں بھر دیں (بخاری)۔
٭حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ حاکم نے‘‘ مستدرک’’ میں یہ بیان کیا ہے کہ حضرت زینب بنت حجش دستکار خاتون تھیں ،چمڑے کو دباغت دیتی تھیں ،اس کی سلائی مرمت کرتیں اور ان سے اللہ کے راستے میں صدقہ کرتیں۔
٭حضرت عبد اللہ ابن مسعود کی بیوی ایک ماہر کاریگر تھیں وہ گھر کے خرچ کیلئے اشیا بنا کر فروخت کرتی تھیں کیونکہ حضرت عبداللہ ابن مسعو د تبلیغ دین میں مصروف رہتے تھے اور اپنی روزی نہ کما سکتے تھے ان سے آپ نے پوچھا کیا تم اپنی آمدنی اپنے شوہر پر خرچ کرتی ہو انہوں نے کہا ‘ہاں’،آپ نے فرمایا تمھیں اس کی جزا ملے گی۔ (طبقات ابن سعد جلد ہشتم صفحہ 212)۔
٭خولہ بنت ثعلبہ نے آپ کو بتایا کہ میرے شوہر کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور میں شوہر کی معاشی ضروریات خود پورا کرتی ہوں۔
٭ایک تاجر خاتون نے آپ کو بتایا کہ میں ایک تاجر ہوں اور چیزوں کی خرید و فروخت کرتی ہوں ،پھر اس نے آپ سے تجارت کے متعلق کچھ سوالات پوچھے۔ (طبقات ابن سعد جلد ہشتم صفحہ 238).
٭اسماء بنت عکرمہ کے متعلق روایت کیا جاتا ہے کہ ان کا بیٹا عبداللہ بن ابی ربیعہ یمن سے عطر روانہ کرتا اور یہ اسے فروخت کرتیں۔ (طبقات ابن سعد جلد ہشتم صفحہ220).
تاریخ میں بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ عورتوں نے اپنے لئے کاروبار ،تجارت یا دوسراپیشہ اختیار کیا اور وہ اس میں کامیاب رہیں۔
٭آنحضرت کی اپنی زندگی میں بہت سی عورتیں مختلف ہنروں کی ماہر تھیں یا مختلف کاروبار کرتی تھیں لیکن آپ نے کبھی انہیں منع نہیں کیا۔ (طبقات ابن سعد جلد ہشتم صفحہ244-241).
گھریلو حالات اور معاشی دباؤ یا آمدنی میں اضافے کیلئے اگر عورتوں کو کارزار زندگی میں قدم رکھنا پڑے تو عورت کو ہنر مند بننے اور کاروبار کرنے سے اسلام روکتا نہیں ہی،مگر اس کے بتائے گئے اصول و ضوابط کو توڑنے کی اجازت مرد ہو یا عورت کسی کوبھی نہیں دیتا۔
مالی معاملات میں بھی عورتوں کو مرد کے برابر رکھا گیا ہے۔کاروبار میں اس کی حصہ داری کو بھی تسلیم کیا گیا ہی،نیز اس کا بھائی ،شوہر، والد یا بیٹااس کی اجازت کے بغیر اس کی دولت و جائیداد میں سے کوئی حصہ نہیں لے سکتا۔
مالی خود مختاری
عورت اپنے مال میں اپنی مرضی سے خرچ کر سکتی ہے صدقہ خیرات کر سکتی ہے۔ہاں اگر مشورہ کر لے تویہ اسلام میں پسندیدہ ہے وراثت میں عورت کوحق دیا گیا اور جو تناسب شریعت اسلامی میں رکھا گیا ہے وہ کسی تعصب یا کمتری کی وجہ سے نہیں بلکہ عین فطری تقاضوں کی بنا پر رکھا گیا۔جہاں عورت کی آدھی وراثت رکھی وہاں عورت کو نان نفقہ کی ذمہ داری سے بری رکھا گیا۔مہر کی رقم دینے پر مرد کو مجبور کیا گیا اورعورت کو مہر کی رقم پر تصرف حاصل ہے۔ایک عورت شادی کے بعد شوہر سے نان نفقہ وصول کرنے کے بعد بھی اپنے والد کی وراثت کی حقدار ٹھہرتی ہے اور اس کے بھائیوں کو حصّہ ملتا ہے تو اس کو بھی حصّہ ملتاہے۔جبکہ اس کے بھائی اس کے والد کی خدمت اور خرچ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔اور وہ وراثت کی بھی حق دار ہوتی ہے اسی طرح شوہر کے مال سے بیوی کو وراثت ملے گی جبکہ بچوں کی کفالت کی ذمہ داری شوہر کے باپ بھائی کے اوپر ہے۔وراثت میں حاصل شدہ مال پر وہ خود مختار ہے خواہ اس سے کچھ بھی کرے۔
سماجی خود مختاری
اسلام نے عورت کو شادی کے معاملات سے لے کر آخر تک خود مختاری دی ہے۔ نکاح میں عورت کی رضامندی ضروری ہے،مہر کا معاملہ طے کرتے وقت عورت کی رائے کی اہمیت ہے ۔طلاق کے معاملات میں پابند کیا گیاہے کہ عورت کوحیض کی حالت میں طلاق نہ دی جائی، ایک نشست میں نہ دی جائے عدت کا انتظارکیا جائے۔اسی طرح کے دیگر سماجی معاملات میں جو خاص طور پر عورتوں کے متعلق ہیں،انہیں مکمل اختیار دیا گیا ہے۔
اسلام ضرورت پڑنے پر عورت کو خلع کا حق بھی دیتا ہے (جو کہ وہ قاضی عدالت کی مدد سے لے سکتی ہے) دیت اور نان نفقہ کی ذمہ داری مردپر رکھی اور عورت پرصرف بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کی ذمہ داری ہے۔گھر کی ملکہ اسلام نے عورت کوبنایا ہے۔گواہی کے معاملات کو عورت ہی کیلئے آسان کرنے کے لئے دو عورتوں کی گواہی رکھی مگر سماجی زندگی میں عورتوں کی شرکت اور مردوں کیساتھ معاملات و تعلقات کے سلسلے میں شارع حکیم نے کچھ آداب مقرر کئے ہیں۔پردہ مقرر ہونے سے پہلے ازواج مطہرات اورتمام مسلم خواتین زندگی کے عمومی اور خصوصی میدانوں میں مردوں کے ساتھ میل و ملاقات اور سماجی زندگی میں شرکت کرتی تھیں۔پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعدبھی وہ گردوپیش کی زندگی سے کنارہ کش نہیں ہوئیں بلکہ تمام امور پردہ کیساتھ انجام پاتے تھے۔پردے کی فرضیت نے زندگی میں شرکت کی راہ بند نہیں کی بلکہ اس کی حدیں مقرر کر دیں۔
مجلس نبوی میں اوربسا اوقات گفتگومیں شرکت:
٭حضرت موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐمکہ اور مدینہ کے درمیان مقام جعرانہ پر قیام پذیر تھے۔میں آپ کے پاس تھا اور حضرت بلالؓ بھی ساتھ تھے ۔ایک اعرابی آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ نے جو وعدہ مجھ سے کیا ہے وہ پورا نہیں کریں گے ۔آپ نے اس سے فرمایا خوش خبری قبول کرو۔اس نے کہا آپ نے بہت خوش خبریاں دیں۔آپ غصے کی حالت میں حضرت موسیؓ اور حضرت بلالؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ‘‘اس نے خوش خبری لوٹا دی تم دونوں قبول کر لو’’۔ان دونوں نے کہا ہم نے قبول کر لیا۔ پھر آپ نے پانی کا ایک پیالہ طلب فرمایا اس میں اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرہ مبارک کو دھویا اور اس میں اپنے منہ کا پانی ڈال دیا پھر فرمایا تم دونوں اسے پی لو اور اپنے چہرے اور گلے پر انڈیل لو اور خوش خبری لے لو،ان دونوں نے پیالہ لے کر ویسا ہی کیا ام سلمہ (ام المومنین ) نے پردہ کے پیچھے سے آواز دی اپنی ماں کیلئے بھی کچھ بچا لوان دونوں نے ان کیلئے بھی کچھ بچا لیا۔ (بخاری و مسلم)
٭حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ چند صحابہ کرام جن میں حضرت سعد بھی تھے گوشت کھانے لگے تو ازواج مطہرات میں سے کسی نے ٹوکاکہ یہ توگوہ کا گوشت ہے۔انہوں نے کھانے سے ہاتھ روک لیا تو حضور نے فرمایا ‘‘کھاؤ کھاؤ وہ حلال ہے’’۔یا آپ نے فرمایا‘‘کوئی حرج نہیں ہے البتہ وہ میری غذا نہیں ہے’’۔ (بخاری و مسلم )
یعنی مسلم خواتین نہ صرف صحبت نبوی سے فیض اٹھاتی تھیں بلکہ اگر ضرورت محسوس کرتیں تو مردوں کے باہم کاموں میں مشورہ بھی دیتی تھیں اور باہم گفتگو میں بھی شریک ہوتی تھیں۔
عورتوں کا سفر کرنا:
٭حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ جب کسی سفر کا ارادہ فرماتے تو ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے،جن کے نا م قرعہ نکلتا ان کو سفر میں ساتھ لے جاتے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ایک غزوہ کے مو قع پر آپ نے قرعہ اندازی کی ،میر ے نام سے قرعہ نکلا میں آپ کے ساتھ سفر کیلئے روانہ ہوئی۔ (بخاری و مسلم)
٭حضرت مسور بن مخرمہ اور حضرت مروان روایت کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں کہ حدیبیہ کے موقع پرجب رسول اللہﷺ کے کہنے پر کوئی بھی نہیں اٹھا تو آپؐ حضرت ام سلمیٰ کے پاس تشریف لے گئے اور لوگوں کے اس رویہ کا ذکر کیا۔ (بخاری) اور پھر ام سلمی نے جو مشورہ دیا اس پر عمل بھی کیا۔
مسلم معاشرہ عورت کے سفر کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگاتا چاہے سفر میں خطرات و مشکلات ہی کیوں نہ درپیش ہوں۔
عورتوں کا کھیل دیکھنا:
حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں عید کا دن تھا اہل حبش تلواروں اور ڈھالوں سے کھیل رہے تھے۔آپ نے اپنے پیچھے مجھے بھی کھڑا کر لیا، میر ے رخسار آپ کے کندھے پر تھے اور آپ فرمارہے تھے‘‘اے بنو ارفدہ کھیل جاری رکھو’’جب میں اکتا گئی تو پوچھا :کیا بس؟میں نے کہا ‘ہاں’ فرمایا تو جاؤ۔ (بخاری و مسلم)
عورتوں کی معاشرے کے مسائل میں دلچسپی:امام کے خطبے سے دلچسپی:
حضرت ام سلمی فرماتی ہیں کہ میں لوگوں کو حوض کوثر کا تذکرہ کرتے ہوئے سنتی تھی،حضور سے میں نے نہیں سنا تھا۔ایک دن باندی میرے سر میں کنگھا کر رہی تھی کہ میں نے حضور کی آواز سنی : ‘‘اے لوگو! ’’میں نے باندی سے کہا‘‘چھوڑ دو’’،وہ بولی‘‘حضورنے مردوں کو آواز دی ہے عورتوں کو نہیں’’۔میں نے کہا ‘‘لوگوں میں میں بھی ہوں ’’۔رسول نے فرمایا:‘‘حوض کوثر پرتم لوگوں سے پہلے میں موجود رہوں گا تو تم میں سے کوئی اس طرح میرے پاس نہ آئے کہ اس کو مجھ سے دور کر دیا جائے جس طرح بھٹکے ہوئے اونٹ کو دور کر دیا جاتا ہے۔میں پوچھوں گا کیوں دور کیا جارہا ہے؟کہا جائیگا آپ کو نہیں معلوم ہے کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا نئی چیزیں دین میں پیدا کردی تھیں۔تو میں کہوں گا ‘‘دور ہو’’۔ (مسلم)
عورتوں کا نیکی کے کاموں میں حصہ لینا:
حضرت عائشہ فرماتی ہیں:‘‘ میں نے زینب بنت جحش سے زیادہ کسی خاتون کو خیر کے کاموں میں پیش پیش ،اللہ سے خائف ،راست گو، صلہ رحم ،خوب صدقہ کرنیوالی اور ا للہ کے تقرب والے کاموں میں خود کو مٹا دینے والی نہیں دیکھی’’۔ (مسلم)
عورتوں کا ضروریات کیلئے گھر سے باہر نکلنا:
حضرت عائشہ ؓروایت کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ پردہ کاحکم نازل ہونے کے بعد حضرت سودہؓ کسی ضرورت سے نکلیں وہ بھاری بھرکم خاتون تھیں متعارف لوگوں سے چھپ نہیں سکتی تھیں۔حضرت عمر بن خطاب نے انہیں دیکھ لیا اور آواز دی ‘‘اے سودہ !خدا کی قسم آپ ہم سے چھپی ہوئی نہیں ہیں،آپ کس طرح نکل رہی ہیں ’’وہ فرماتی ہیں کہ:‘‘میں الٹے پاؤ ں لوٹ گئی ’’رسول اللہ میرے گھر میں رات کا کھانا تناول فرمارہے تھے آپ کے ہاتھوں میں ہڈی والا گوشت تھا میں داخل ہوئی اور کہا ۔یا رسول ؐاللہ میں کسی ضرورت سے نکلی تھی عمرؓ نے مجھے یوں کہا ہے ۔وہ کہتی ہیں کہ پھر رسول اللہ پر وحی آئی جب وحی ختم ہوئی تو گوشت کا ٹکڑا آپ کے ہاتھ میں ہی تھا۔آپ نے فرمایاتم لوگوں کو اپنی ضروریات کیلئے نکلنے کی اجازت دی گئی ہے’’۔ (بخاری و مسلم)
عورتوں کا مردوں کو نصیحت کرنا:
حضرت اسود راوی ہیں کہ قریش کے کچھ نوجوان حضرت عائشہؓ کے پاس آئے،حضرت عائشہ منیٰ کے مقام پر تھیں وہ نوجوان ہنس رہے تھے،حضرت عائشہ نے پوچھا کیوں ہنس رہے ہو انہوں نے کہا فلاں شخص خیمہ کے طناب پر گر گیا اس کی گردن یا آنکھ ختم ہوتے ہوتے بچی۔حضرت عائشہؓ نے فرمایاــ‘‘میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ کسی مسلمان کو کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے اسے جیسے ہی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کیلئے نیکی کا ایک درجہ لکھا جاتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہی’’۔(مسلم)
مذہبی خود مختاری
مذہبی خود مختاری عورت کو حاصل ہے ۔نماز کی جتنی رکعتیں مردوں کیلئے اتنی ہی عورتوں کیلئے۔اسی طرح ثواب میں بھی مرد کے مساوی ہے بلکہ مرد پر امامت کی ذمہ داری ہے عورت پر نہیں مرد پر جماعت لازم ہے عورت پر نہیں۔اور یہ سہولیات اسلام میں اس کوذمہ داریاں بحیثیت ماں ،بیوی کے نبھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔روزے کا معاملہ بھی بالکل یہی ہی۔روزے کے اوقات بھی دونوں کیلئے یکساں ہیں اور فرض روزے کیلئے اس کوخاوند کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں اور کوئی اس کوفرض روزہ ترک کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اسی طرح عورت کو حج کرنیکا حق حاصل ہے،اگر وہ صا حب استطاعت ہے تو وہ بڑے گروپ کی شکل میں حج کرنے جا سکتی ہے۔مساجد جانے کاحق بھی دیا ہے ۔ مردوں کو حکم دیکر کہا ہے کہ اگر تمہاری عورتیں مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو ان کو دیدو امربالمعروف ونہی عن المنکرکی پکار جو رب کی طرف سے ہے اس میں مرد اور عورت دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں۔اللہ رب العزت نے معاشرے کے سدھار اور اس کو در ست رکھنے کی ذمہ داری عورت اور مرد دو نوں کے کندھے پر رکھی ہے۔ لہٰذا عورت کو ریاست کے معاملات کو سدھارنے کی بھی ذمہ داری ہے بشرطیکہ وہ اپنی ماں اور بیوی کی حیثیت سے دی گئی ذمہ داری کو پیچھے نہ ڈالے۔
سیاسی خود مختاری
اسلام نے عورت کو سیاسی معاملات میں آزادی رائے دی ہے اور سیاسی شعور کی بنا ء پر ریاستی معاملات میں اپنے موقف پر قائم رہنے کی اجازت دی ہے۔ حضرت عثمانؓ اورحضرت علیؓ کے درمیان انتخاب کے مسئلہ میں مدینہ میں موجود اصحاب کے ساتھ ساتھ صحابیات سے ان کے گھروں پرجا کر رائے لی گئی اوران کی رائے کو شامل کر نے کے بعدفیصلہ کیاگیا۔حضور کی حیات مبارکہ میں بھی اور آپ کے بعد آپ کے خلفاکے دور میں بھی بہت سے معاملات میں صحابیات اور امہات المومینن کی رائے پر ریاستی پالیسی طے کی گئی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صرف خواتین کی نمائندہ بن کر ایک بات کہنے کا حق رکھتی ہیں۔مرد صرف مردوں ہی کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔اسلامی اصول جنس کی تقسیم و تفریق سے بلند ہے ۔اس کی بنیاد عدل اور توازن پرہے۔ اللہ کا تقویٰ ہمارے اعمال کی بنیاد ہے اسکا مطالبہ دونوں سے یکساں ہے۔ بھلائی کے قیام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں یہ تعاون سیاسی بھی ہے معاشی،معاشرتی،ثقافتی اور تعلیمی بھی۔ مسلم خواتین کا فر ض ہے کہ ملک و ملّت کی سر بلندی کیلئے دین کی ہدایت کی روشنی میں اپنے لئے لائحہ عمل طے کریں۔
اسلام کے تمام قوانین ،اصول و روایت مرد وعورت دونوں کیلئے یکساں مفید ہیں اور معاملات میں دونوں کے باہم تعلقات اور احترام کا یکساں خیال رکھا گیا ہے۔مثلاً قانون شہادت،وراثت کی تقسیم،عورت کی کفالت،سربراہی،اسقاط حمل،نکاح و طلاق ،تعلق مرد وزن وغیرہ۔ اسلام میں مردوں اور عورتوں دونوں کو الگ الگ ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔
اسلام نے عورت کے سر گھر کی ذمہ داریوں کا تاج رکھا ہے لیکن اس کی فکری و عملی سرگرمیوں کو صرف گھر تک محدود نہیں رکھا اور نہ ہی اس کو اس کے معاشرتی حقوق سے محروم کیا ہے بلکہ وہ تو اس معاشر ے میں بامقصد اور کامیاب زندگی کے راستے پر ڈالنا چاہتا ہے۔
اسلام عورتوں اور مردوں کو بحیثیت انسان یکساں اکرام دیتا ہے اور برابری اور مساوات کو تسلیم کرتاہے،برابری کا مطلب بالکل یکساں ہونانہیں۔حقوق و فرائض ایک قسم کے نہیں ہوتے ہیں۔بلکہ ان کی نوعیت الگ الگ ہے۔
اسلام کا دور
اسلام سے پہلے عور ت کو ذلت وحقارت کی نظرسے دیکھا جاتا تھا اس کو جانوروں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا حتیٰ کہ بعض اوقات اس کوان حقوق سے بھی محروم رکھا گیا جن سے اس ز مین پر سانس لینے والاہر متنفس بہرہ مندہے۔لڑکی کی پیدائش ہی ان کیلئے غم کا پیام تھی حضرت عمرفرماتے ہیں: ‘‘قسم بخداہم دور جاہلیت میں عورتوں کوکوئی حیثیت ہی نہیں دیتے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کے بارے میں اپنی ہدایات نازل کیں اوران کیلئے جو کچھ حصّہ مقرر کرنا تھامقررکیا’’۔
لڑکیوں کودفن کر دیتے تھے اسی طرح طلاق پر بھی کوئی پابندی نہ تھی۔مرد جب چاہتا جتنی مرتبہ چاہتاطلاق دیتا اورعدّت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرتا۔خاوند کے انتقال کے بعد اس کے ورثاء کا عورت پرپورا حق ہوتاچاہتے تو شادی کرتے ورنہ کسی دوسرے سے شادی کر دیتے یا ہونے ہی نہ دیتے۔بیوہ کے مال پر قبضہ کرنے کیلئے اس کو دوبارہ ازدواجی زندگی سے محروم کر دیتے۔وراثت میں حصّہ نہ تھا۔سو تیلی ماں سے شادی کرنا معیو ب نہ تھا۔
اسلام نے آکر دنیا کو بتایا کہ زندگی مردو عورت دونوں ہی کی محتاج ہے۔عورت اس لئے نہیں کہ اس کو دھتکارا جائے۔اسلام نے عورت کوذلت و رسوائی کے مقام سے اتنی تیزی سے اٹھایا اور حقوق و مراعات سے نوازاکہ حضرت عبداللہ بن عمرفرماتے ہیں:‘‘نبیﷺ کے زمانے میں ہم اپنی عورتوں سے گفتگو کرتے اور بے تکلفی برتتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارے متعلق کوئی حکم نہ نازل ہوجائے۔ جب نبیﷺ کا انتقال ہوگیا تو ہم ان کے ساتھ بے تکلف رہنے لگے’’۔
اس صنف کو حق زیست حاصل نہ تھا اسلام نے عورت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اس کو حقوق بھی دلوائے۔ماں کو درجہ دیا،بیٹی کی پرورش پر اجر دیا،لڑکیوں کے زندہ دفن کرنے پر وعیدیں ،بیوی سے حسن سلوک کی تاکید ،مطلقہ سے بہترین سلوک،بہترین صدقہ مطلقہ بیٹی کی کفالت کو بتایا۔عورتوں نے تجارت بھی کی ،تعلیم میں بھی عورتوں کے شوق کو مدنظر رکھا۔اس اسلامی تعلیمات نے فکر و عمل میں ایسا انقلاب پیدا کیا کہ دنیا نے دیکھا جو دیکھا اور تاریخ گواہ ہے کہ وہ دور عورتوں کے عروج کا دور تھا۔
عورتوں اور مردوں کی جسمانی بناوٹ کا اگر جائزہ لیا جائے تو مرد کو مضبوط اعضاء اور بناوٹ عطا کی گئی ہے،نیز زیادہ وزن ، قد اور دماغی مقدار عطا کی گئی ہی۔یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ مرد کو زیادہ سخت اور محنت طلب کاموں کیلئے بنایا گیا ہے۔ دماغ کا وہ حصہ جس کا تعلق جذبات سے ہے اس کی مقدار عورت میں زیادہ ہے اور دماغ کا وہ حصہ جس کا تعلق سمجھ بوجھ اور استدلال سے ہے اس کی مقدار مرد میں زیادہ ہی۔اس کے برخلاف عورت کو وہ اعضاء دئیے گئے ہیں جن کی بدولت وہ اپنے وجود میں ایک بچے کا وجود بھی سنبھال سکتی ہے اور اس کو دودھ بھی پلا سکتی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کام اس کی ذمہ داری ہے۔ایک اسلامی معاشر ے میں عورت و مرد کے کاموں کی تقسیم ان کی فطری ساخت کے مطابق ہے۔لیکن جس معاشر ے میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ مردوعورت برابر ہیں،جو عورت کے روایتی کردار ماں ،بیٹی اور بیوی کے کردار کی مخالفت کر رہے ہیں جو معاشرے کے ڈھانچے کو اس طرح تبدیل کر نے کیلئے کوشاں ہیں کہ مرد و عورت میں برابری اس کے شادی ونکاح کے خلاف ہیں۔
گھر اور باہر دونوں جگہ ذہنی دباؤ
آج عورت کو خودمختاری مل گئی کہ وہ محنت کرے اور اپنی تنخواہ اپنے اوپر خرچ کرے مگرگھریلو ملازمین کی نگرانی، ان کی تنخواہیں،اپنی آمدورفت کی مشقت ،جائے ملازمت کی مشقت اور دن بھر کی بھاگ دوڑ،اور واپسی پر گھر میں غیر حاضری سے پیدا شدہ مسائل۔محنت و مشقت میں کمی ہوئی یااضافہ؟حاصل ہونیوالی تنخواہ سے سہولت کا تناسب؟اور مشقت(ذہنی و جسمانی)کا تناسب؟
جس معاشرے میں عورت کو یہ خود مختاری حاصل ہو گئی کہ وہ مردوں کے ساتھ جیسے چا ہیں تعلقات استوارکر یں، چاہیں تو نکاح کریں اور چا ہیں تو نہ کریں وہاں عورتوں کو سکون مل گیا؟عزّت حاصل ہو گئی ؟اور اْس کی پر یشانیوں میں کمی ہو گئی یا لاوار ث کنواری ماؤں کی تعداد میں اضافہ ہوا؟ گھر سے بیدخلی اور گھر کے کام کاج وملازمت کے ساتھ ساتھ جسم فروشی کرنے پر مجبوری کے تناسب میں اضافہ ہوا۔آج جہاں عورت کو طلاق کا حق مل گیا وہاں عورت کو گھر میں خود مختاری حاصل ہو گئی یا گھر سے بیدخلی حصے میں آئی؟
سورۃ الحجرات آیت 13میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یٰایھّْاَالنَّاسْ اِ نَّاخَلَقْنٰکْم مِّن ذَکَرٍٍ وَّاْنْثیٰ وَجَعَلنٰکْم شْعْوباً وَّ قَبَآ ئِلَ لِتَعَارَفْوْا۔ ترجمہ: ‘‘لوگوں ہم نے تم کوایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو’’
اور واضح کر دیا کہ اگر اللہ کے نزدیک کوئی بلند مقام رکھتا ہے تو وہ جو تقوٰی میں زیادہ ہے خواہ وہ مرد ہویا عورت۔ اِنّ اَکْرَمَکْمْ عِنْدَ اللَّہِ اَ تْقٰکْم۔ْ
ترجمہ: ‘‘در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پر ہیز گار ہے’’۔اسلام نے لڑکیوں کی پرورش پر انعامات کا وعدہ کیا اور وعید سنائی ان کیلئے جو زندہ درگور کر دیتے تھے آپ نے خوشخبری دی اس کو جس کی دو لڑکیاں ہو اور وہ انکی محبت اور ہمدردی سے انکی پرورش کرے اللہ اس کے کوجنت دیگا۔ابوداؤد کی حدیث کے مفہوم میں ہے کہ جو کوئی اپنی لڑکی کو زندہ دفن نہ کریں اس کو ماریں نہ ہی اپنی لڑکیوں کو اس پر تر جیح دیں اللہ اس کو جنت میں داخل کریگا۔مرد و عورت دونوں پر تعلیم کو لازم قرار دیکر بتایا کہ جو کوئی ایک مرد کو تعلیم دیتا ہے وہ ایک مرد کو تعلیم دیتا ہے اور جو ایک عورت کو تعلیم دیتا ہے وہ پوری قوم کو تعلیم دیتا ہے۔عورت کی تعلیم کو نہ صرف اسلام نے اہمیت دی بلکہ عورت کی تعلیم کو قوم کی تعلیم سے تعبیر کیا۔تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہترین ہے۔
اسلام نے عورت کو بحیثیت بیوی وہ درجہ دیا جس کا عرب معاشر ے میں تصّوربھی نہ تھا اورپھر انہی تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ مسلمان عورت دنیاکی خوش نصیب عورت تھی پھر ماں کے بارے میں ایسی تعلیمات دیں اور ماں کا رتبہ باپ سے تین گنا بتایا۔بحیثیت لڑکی،بیوی ،ماں،اسلام نے عورت کو جو مقام اور مرتبہ دیاوہ کسی تہذیب اورثقافت نے نہ دیا۔اسلام ہی نے عورت کو بہت سارے ذریعوں سے خود مختاری دی ہے۔