ایک کولیگ نے مجھے کہا کہ اسے کسی محفل میں ایک مضمون پڑھنا ہے ،میں کسی مناسب موضوع پر کسی تحریرکی نشاندہی کر دوں۔ میں نے اختلاف رائے کے موضوع پر لکھا ہوا اپنا مضمون اس کے حوالے کر دیااور اس کو یہ نہیں بتایا کہ یہ کس کا ہے۔ دوسرے دن اُس نے اُس مضمون کی خوب تعریف کی اور کہا کہ اس نے اسے زبانی یاد کر لیا ہے ۔ میں نے کہا اس کی کیا ضرورت تھی ، اس سے آئیڈیا لے کر خود بات کر لیتے ۔ اس نے کہا کہ نہیں اس مضمون میں الفاظ ، جملے اور تراکیب اتنی خوبصورت تھیں کہ دل چاہا کہ انہیں کو ازبر کر لیا جائے ۔ میں نے اسے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ مضمون کس کا ہے ۔ اس نے کہا نہیں تو۔میں نے بتایا کہ یہ میری ہی تحریر ہے ۔ اس پر اس کا رنگ متغیر ہو گیا ، ایسا محسوس ہو ا کہ جیسے اس نے تعریف کر کے کوئی بہت بڑی غلطی کر دی ہو۔اس کے بعدوہ فوراً کسی بہانے وہاں سے اٹھ گیا اور پھر کبھی اس نے اس موضوع پر بات نہیں کی۔
ایک صاحب، کسی صاحب علم سے کہنے لگے کہ انہوں نے فلاں ٹی وی پر بطور اینکر کچھ پروگرام کرنے ہیں۔ براہ کرم انہیں کچھ موضوعات اور کچھ صاحبانِ علم کے نام بتا دیے جائیں تا کہ ان کے انٹرویو کیے جا سکیں۔ اس اللہ والے نے اسے موضوعات بھی بتا دیے اور اہل علم کے نا م بھی۔ بعد میں وہ اللہ والے مجھ سے کہنے لگے کہ دیکھیے کہ اس اینکر صاحب کو اتنی خبر ہے کہ میں ان کی رہنمائی کر سکتا ہوں اور ان موضوعات پر رائے بھی دے سکتا ہوں لیکن انہوں نے میرا انٹرویوکرنے کی زحمت نہیں کی کیونکہ یہ میرے ہمسائے میں رہتے ہیں اور گھر کی مرغی دال برابرکا محاورہ سچ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
ایک اور صاحب جو درس قرآن کے حوالے سے جانے جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا حلیہ اور رنگ ڈھنگ ایسا بنا رکھاہے اور اس حوالے سے اپنی تعریف بھی کرتے رہتے ہیں جبکہ ان کی حالت یہ ہے کہ ان کی قرأتِ قرآن بھی مجہول ہے ۔ان کے سامنے جب کوئی نیا موضوع آتا ہے تو وہ بھاگے بھاگے اس احقر کے پاس آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس موضوع پر مواد،قرآن کی کن سورتوں یاآیات سے مل سکتا ہے۔لیکن سالہا سال بیت جانے کے باوجود انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ چلیے آپ ان کی جگہ درس دے دیجیے حالانکہ ان کے علم میں ہے کہ میں سات تراجم اور نو تفاسیرپر کام کر رہا ہوں اور اس کی چار جلدیں شائع بھی ہو چکی ہیں۔ اسی طرح ایک مرکز سے وابستہ افراد یہ جاننے کے باوجودکہ فلا ں صاحب میں اِن اِن موضوعات پہ بولنے کی صلاحیت ہے ،اُن کو اس لیے دعوت نہیں دیتے کہ ان پر کسی جماعت یا گروہ کا کوئی لیبل موجود نہیں اور نہ ہی وہ کوئی خاص رنگ ڈھنگ اختیا رکرنا پسند کرتے ہیں۔جس طرح قربت ، ہمسائیگی ، تعلق ، دوستی حصولِ علم و ہدایت میں حجاب بنتے ہیں اسی طرح بعض اوقات شکل وصورت ، لباس ، اور رنگ ڈھنگ بھی حجاب بن جاتے ہیں۔ ایک دوست نے بتایا کہ وہ جس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں وہاں سب کو معلوم ہے کہ وہ حافظ بھی ہیں اور قاری بھی لیکن امام کی عدم موجودگی میں کسی مجہول پڑھنے والے کوتو امامت کی دعوت دی جاتی ہے، انہیں نہیں ،محض اس وجہ سے کہ وہ ٹراؤزر بھی پہن لیتے ہیں اور ٹوپی کا اہتمام بھی نہیں کرتے ۔
علم وہدایت کے حصول کا ذریعہ اللہ تعالی نے انسانوں کو ہی بنایا ہے اور انسانوں کے لیے ہی ’’انعمت علیھم‘‘ فرمایاگیا ہے ۔اگر ہم علم و ہدایت کی تلاش میں مخلص ہیں توپھر انعمت علیہم والے انسانوں کی تلاش بھی ہمارے ذمے ہے۔لیکن اس تلاش میں عموماً یہی غلطی دہرا ئی جاتی ہے کہ ہم اپنے گھر اور قرب و جوار کو چھوڑ کر دوسرے گھر یا دور دراز میں تلاش کرتے رہتے ہیں،نتیجتاً پاس والے علم اور ہدایت سے محروم رہ جاتے ہیں۔یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ہمیں اپنے قریب رہنے والوں کے بارے میں یہ گما ن بھی نہیں ہوتا کہ وہ بھی عالم ،صوفی ، ولی، دانشور ، فلاسفر ، ادیب یا شاعر ہو سکتے ہیں۔اس گمان کے نہ ہونے کی وجہ اصل میں یہی قربت کا حجاب ہے ۔جس طرح مختلف رنگوں کی عینکیں اور مختلف تعصبات حصول ہدایت میں حجاب بن جایا کرتے ہیں اسی طرح قربت بھی حجاب بن جایا کرتی ہے لیکن اس کا خطرنا ک پہلو یہ ہے کہ اس کا احساس بھی نہیں ہونے پاتا۔اور جب تک احساس ہونے پاتا ہے ، وقت بہت آگے نکل چکا ہوتاہے ۔اس کا حل یہی ہے کہ انسانو ں کو دیکھتے ہوئے ایک خاص فاصلہ قائم رکھا جائے ، اس سے ان کی خوبیا ں صحیح رنگ میں نظر آئیں گی ورنہ یہ عین ممکن ہے کہ ان کی بہت سی خوبیا ں ہمارے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے ویسے ہی دھندلا جائیں جس طرح ایک تصویر کے خد و خال آنکھوں کے زیادہ قریب آنے کی وجہ سے دھندلا جایا کرتے ہیں۔