غزل


مضامین

تعلق یاد رکھتا ہوں نشانی یاد رکھتا ہوں کہاں ٹھہری کہاں گزری جوانی یاد رکھتا ہوں   کسی کے ساتھ بیتا تلخ لمحہ بھول جاتا ہوں کسی کے یاد گزری رت سہانی یاد رکھتا ہوں   مجھے محسوس ہوتا ہے سبھی کردار ہیں میرے اسی خاطر میں ساری ہی کہانی یاد رکھ...


یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو   کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے  یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو   ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائ...


اْس سمت چلے ہو تو بس اتنا اْسے کہنا اب کوئی نہیں حرفِ تمنا اْسے کہنا   اْس نے ہی کہا تھا تو یقیں میں نے کیا تھا اْمید پہ قائم ہے یہ دْنیا اْسے کہنا   دْنیا تو کسی حال میں جینے نہیں دیتی چاہت نہیں ہوتی کبھی رسوا اْسے کہنا   کچھ لوگ س...


کمالِ ضبط کو میں خود بھی تو آزماؤں گی میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی   سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی   بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا میں دل میں روؤں گی، آنکھوں میں مسکراؤں گی   ...


  باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ھے ہر دھوپ میں جو مجھے سایہ دے وہ سچا سایہ گھر میں ھے   پاتال کے دکھ وہ کیا جانیں جو سطح پہ ھیں ملنے والے ھیں ایک حوالہ دوست مرے اور ایک حوالہ گھر میں ھے   مری عمر کے اک اک لمحے کو میں ...


  وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے   سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری  میرے دشمن مرے لفظوں کے بھکاری نکلے   ایک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے...


  جو تیرے فقیر ہوتے ہیں  آدمی بے نظیر ہوتے ہیں    تیری محفل میں بیٹھنے والے  کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں    پھول دامن میں چند رکھ لیجیے  راستے میں فقیر ہوتے ہیں    زندگی کے حسین ترکش میں  کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں   ...


  حقیقتوں کا شناسا دکھائی دیتا ہے جو بھیڑ میں بھی اکیلا دکھائی ہے   جو اپنے درد کا درماں نہ کر سکا اب تک تمہیں وہ شخص مسیحا دکھائی دیتا ہے   ادا ہے کون سی اُس بے وفا ستم گر کی جو غیر ہو کر بھی اپنا دکھائی دیتا ہے   جو...


  جائیے بیٹھیے حکمرانوں کے بیچ آپ کیوں آ گئے ہم دیوانوں کے بیچ   اور کیا ہے سیاست کے بازار میں کچھ کھلونے سجے ہیں دکانوں کے بیچ   تھا جنہیں عشق کا حوصلہ اٹھ گئے تذکرے رہ گئے داستانوں کے بیچ   عشق کے نام پر اور کیا ہو ...


دل میں ایک لہر سی اٹھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی شور برپا ہے خانہ دل میں کوئی دیوار سی گری ہے ابھی بھری دنیا میں جی نہیں لگتا جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی یاد کے بے...


  مرا نصیب ہوئیں تلخیاں زمانے کی  کسی نے خوب سزا دی ہے مسکرانے کی   مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی   میں دیکھتا ہوں ہراک سمت پنچھیوں کے ہجوم الہٰی خیر ہو صیّاد کے گھرانے کی   قدم قدم پہ...


  ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں تہمتیں، بدنامیاں ، رسوائیاں  زندگی شاید اسی کا نام ہے دوریاں ، مجبوریاں ، تنہائیاں    کیازمانے میں یوں ہی کٹتی ہے رات کروٹیں، بے تابیاں، انگڑائیاں  کیا یہی ہوتی ہے شام انتظار آہٹیں، گھبراہٹیں، پرچھائیاں ...