باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ھے

مصنف : عبیداللہ علیم

سلسلہ : غزل

شمارہ : فروری 2012

 

باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ھے
ہر دھوپ میں جو مجھے سایہ دے وہ سچا سایہ گھر میں ھے

 

پاتال کے دکھ وہ کیا جانیں جو سطح پہ ھیں ملنے والے
ھیں ایک حوالہ دوست مرے اور ایک حوالہ گھر میں ھے

 

مری عمر کے اک اک لمحے کو میں نے قید کیا ھے لفظوں میں
جو ہارا ہوں یا جیتا ہوں وہ سب سرمایہ گھر میں ھے

 

تو ننھا منا ایک دیا میں ایک سمندر اندھیارا
تو جلتے جلتے بجھنے لگا اور پھر بھی اندھیرا گھر میں ھے

 

کیا سوانگ بھرے روٹی کے لیے عزت کے لیے شہرت کے لیے
سنو شام ہوئی اب گھر کو چلو کوئی شخص اکیلا گھر میں ھے

 

اک ہجر زدہ بابل پیاری ترے جاگتے بچوں سے ہاری
اے شاعر کس دنیا میں ھے تو تری تنہا دنیا گھر میں ھے

 

دنیا میں کھپائے سال کئی آخر میں کھلا احوال یہی
وہ گھر کا ہو یا باہر کا ہر دکھ کا مداوہ گھر میں ھے