شعر و شاعری

مصنف : مشیر کاظمی

سلسلہ : غزل

شمارہ : ستمبر 2021

 

شورشؔ گھر سے قبر تک
اک مسافر تھا کچھ دیر ٹھہرا یہاں
 
اپنی منزل کو آخر روانہ ہوا
بات کل کی ہے محسوس ہوتا ہے یوں
 
جیسے بچھڑے ہوئے اک زمانہ ہوا
آہ ! کل تک تھا جو رونق زندگی
 
آج شہر خموشاں کی زینت بنا
جرأتوں کا، خودی کا دیا بجھ گیا
 
کاروان صحافت خطابت اٹھا
زندگی سے خفا ہو کے وہ چل دیا
 
جیتے جی جو کسی سے خفا نہ ہوا
محفلوں کا جو نوشہ تھا، وا حسرتا ! 
 
قبر کا اس کو دولہا بنایا گیا
ایک ماتم بپا ہو گیا ہر طرف
 
رخ سے جب اس کے سہرا اٹھایا گیا
دشت و در رو دیے، بحر و بر رو دئیے
 
چڑھ کے کاندھوں پہ جب وہ روانہ ہوا
وہ جلوسوں کی صورت میں گذرا جہاں
 
انہی رستوں سے اس کا جنازہ چلا
آگے آگے مسافر کی بارات تھی
 
پیچھے پیچھے زمانہ تھا، روتا چلا
ایک شورشؔ تھا اور گھر سے ایسے چلا
 
شہر کا شہر جیسے روانہ ہوا
لوگ شورشؔ کے کتنے وفادار تھے
 
آہ ! کیسی وہ اس سے وفا کر گئے
عمر بھر جن کی اس سے رفاقت رہی
 
ڈھیروں مٹی کے نیچے دبا کر گئے
دوست آنسو بہاتے گئے قبر تک
 
ساتھ اس کے نہ کوئی روانہ ہوا
جب اتارا لحد میں کہا کان میں
 
اب ہماری گلی میں نہ آنا کبھی
روز محشر ہی شورشؔ ملیں گے تمھیں
 
حشر تک اپنے لب نہ ہلانا کبھی
یہ سخن سن کے وہ چپ کا چپ رہ گیا
 
ایک جملہ بھی اس سے ادا نہ ہوا
جسم مٹی سے ڈھانپا اور چل دئیے
 
دو قدم پر رکے فاتحہ کے لئے
آئی اس کی لحد سے صدا دوستو
 
آپ آئیں گے پھر کب دعا کے لئے
سب نے مل کر کہا جب بھی فرصت ملی
 
یا کوئی جب یہاں سے روانہ ہوا
تازہ وارد ہے شورشؔ ابھی قبر میں
 
گھر نیا ہے، طبیعت پریشان ہے
گو حمید اور حسرتؔ بھی پہلو میں ہیں
 
پھر بھی شورشؔ کو حسرت ہے، ارمان ہے
کیوں نہ یہ دم مدینے میں نکلا مرا
 
کیوں نہ یثر ب میں میرا ٹھکانہ ہوا
قبر میں آ کے جس دم نکیرین نے
 
دیکھی فہرست شورشؔ کے اعمال کی
فتح ختم نبوت کے عنوان سے
 
تھی سند اس کے تابندہ افعال کی
رحمتوں کے ہنڈولے اترنے لگے
 
باغ جنت کو شورشؔ روانہ ہوا
اے مشیرؔ حزیں آج شورشؔ نہیں
 
اس کا پیغام پڑھ کر سنا دیجیئے
دنیا والو جیو، مثل شورش جیو
 
جینے والو جیو، مثل شورشؔ جیو
مثل شورشؔ بیاں مثل شورشؔ
 
مثل شورشؔ ہی شورشؔ ہو شورشؔ بپا
دے کے پیغام شورشؔ روانہ ہوا