غزل

مصنف : سلمان احمد خان

سلسلہ : غزل

شمارہ : جولائی 2014

تعلق یاد رکھتا ہوں نشانی یاد رکھتا ہوں
کہاں ٹھہری کہاں گزری جوانی یاد رکھتا ہوں

 

کسی کے ساتھ بیتا تلخ لمحہ بھول جاتا ہوں
کسی کے یاد گزری رت سہانی یاد رکھتا ہوں

 

مجھے محسوس ہوتا ہے سبھی کردار ہیں میرے
اسی خاطر میں ساری ہی کہانی یاد رکھتا ہوں

 

بٹھا کر سامنے اس کو کئی غزلیں لکھی میں نے 
وہ آمد وہ طبیعت کی روانی یاد رکھتا ہوں

 

بھلائی کر کے میں اکثر بہا دیتا ہوں دریا میں
یہی کرنا ہے ساری زندگانی یاد رکھتا ہوں

 

تبھی تو میں در توبہ پہ اکثر سر جھکاتا ہوں 
کہ آ سکتی ہے کوئی ناگہانی یاد رکھتا ہوں

 

کسی سے بات کرتے پل میں جو الفاظ کہتا ہوں
میں ان الفاظ کی حرمت معانی یاد رکھتا ہوں

 

برائے سود ہر اک سود کو بے سود لکھتا ہوں
برائے رائیگانی ، رائیگانی یاد رکھتا ہوں

 

ترے کیف مسلسل میں ، میں چاہے جتنا کھو جاؤں
پر اے دنیا تو ہے اک دارِ فانی یاد رکھتا ہوں

 

فراوانی میسر ہے سہولت بھی مجھے لیکن
کبھی سلمان تھی اس کی گرانی یاد رکھتا ہوں