غزلیات

مصنف : ناصر کاظمی

سلسلہ : غزل

شمارہ : فروری 2010

دل میں ایک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی


شور برپا ہے خانہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی


بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی


تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی


یاد کے بے نشاں جزیروں سے 
تیری آواز آ رہی ہے ابھی


شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی


سوگئے لوگ اس حویلی کے 
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی


تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی


وقت اچھا بھی آئے گا میسر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

٭٭٭
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا


آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا


دن گزارا تھا بڑی مشکل سے 
پھر ترا وعدہ شب یاد آیا


تیرا بھولا ہوا پیمان وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا


پھر کئی لوگ نظر سے گزرے 
پھر کوئی شہر طرب یاد آیا


حال دل ہم بھی سناتے لیکن
جب و ہ رخصت ہوا تب یاد آیا


بیٹھ کر سایہء گل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا

٭٭٭