ناصر کاظمی


مضامین

ترے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائی  شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی  اْنھیں بھی دیکھ جِنھیں راستے میں نیند آئی ٹھہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اْڑانے کو  مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی رہِ حیات میں ک...


  رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ   اب کی فصلِ بہار سے پہلے رنگ تھے گلستاں میں کیا کیا کچھ   کیا کہوں اب تمھیں خزاں والو جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ   دل ترے بعد سو گیا ورنہ شور تھا...


دل میں ایک لہر سی اٹھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی شور برپا ہے خانہ دل میں کوئی دیوار سی گری ہے ابھی بھری دنیا میں جی نہیں لگتا جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی یاد کے بے...


  میں نے جب لکھنا سیکھا تھا  پہلے تیرا نام لکھا تھا    میں وہ صبر صمیم ہوں جس نے  بار امانت سر پہ لیا تھا    میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو  جن و ملک نے سجدہ کیا تھا    تو نے کیوں مرا ہاتھ نہ پکڑا  میں جب رستے سے بھٹکا ...


  ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے  کبھی تم بھی سنو، یہ دھرتی کچھ کہتی ہے   سب اپنے گھروں میں لمبی تان کے سوجاتے ہیں اور دورکہیں کوئل کی صدا کچھ کہتی ہے    جب رات کو تارے باری باری جاگتے ہیں کئی ڈوبے ہوئے تاروں کی ندا ...


ياد رفتگاں ياد رفتگا ں پہ شاعري وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے --وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں --جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے میں ان کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر --وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے یہ کون لوگ ...