محسن نقوی کی غزلیں

مصنف : محسن نقوی

سلسلہ : غزل

شمارہ : مئی 2012

 

وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے
وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے
 
سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری 
میرے دشمن مرے لفظوں کے بھکاری نکلے
 
ایک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
 
ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے
ہم وہ پتھر ہیں جوہر دور میں بھاری نکلے
 
عکس کوئی ہو خد و خال تمھارے دیکھوں
بزم کوئی ہو مگر بات تمھاری نکلے
 
اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسن
میرے قاتل تو مرے اپنے حواری نکلے
٭٭٭
میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسماں کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے
 
برا نہ مان میرے حرف زہر زہر سے ہیں
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زباں کا ہے
 
ہر ایک گھر میں مسلط ہے دل کی ویرانی
تمام شہر پہ سایہ میرے مکان کا ہے
 
بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا کہ وقت امتحان کا ہے
 
وہ برگٍ زرد کی صورت ہوا میں اڑتا ہے
وہ ایک ورق بھی میری اپنی داستاں کا ہے
 
قفس تو خیر مقدر میں تھا مگر محسن
ہوا میں شور اب تک مری اڑان کا ہے
٭٭٭