اختلافی مسائل

مصنف : حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ

سلسلہ : ادب

شمارہ : مئی 2013

Click here to read in English

اصولی حیثیت سے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شرعی مسائل میں کسی شخص یا گروہ کا کسی خاص طریقِ تحقیق و استنباط یا کسی مخصوص فقہی مذہب کی پیروی کرنا اور چیز ہے اور اس کا اپنے اس خاص طریقے یا مذہب کے لیے متعصب ہونا اور، اس کی بنا پر جتھے بندی کرنا اور اس سے مختلف مذہب رکھنے والوں سے مغائر ت و منافرت برتنا اور اس کی پابندی ترک کرنے والوں کو اس طرح ملامت کرنا کہ گویاان کے دین میں کوئی نقص آ گیا ہے بالکل ایک دوسری چیز ہے ۔ پہلی چیز کے لیے تو شریعت میں پوری پوری گنجائش ہے ، بلکہ خود صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے طرز عمل سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے اور دین میں اس سے کوئی خرابی رونمانہیں ہوتی۔ لیکن دوسری چیز بعینہ وہ تفرق فی الدین ہے جس کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے اور اس تفرق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ لوگ فقہی مسائل ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھتے ہیں ، پھر ان مسائل میں ذرا ذرا سے اختلاف پر ان کے درمیان الگ الگ امتیں بنتی ہیں، پھر ان فروعی بحثوں میں وہ اس قد ر الجھتے اور ایک دوسرے سے بیگانہ ہوجاتے ہیں کہ ان کے لیے امت مسلمہ کی زندگی کے اصل مقصد کی خاطر مل کر جدوجہد کرنا غیر ممکن ہو جا تا ہے۔رفع یدین کرنا یا نہ کرنا،آمین زور سے کہنا یا آہستہ کہنا، اور ایسے ہی دوسرے امور صرف اسی وقت تک شرعی اعمال ہیں جب تک کوئی شخص ان کے ترک یا فعل کو اس بنا پر اختیار کرے کہ اس کی تحقیق میں صاحب شریعت سے ایسا ہی ثابت ہے ، یا یہ کہ ایسا کرنا دلائل شرعیہ کی بنا پر ارجح اوراولی ہے ۔مگر جب یہی اعمال کسی مخصوص فرقے کے شعائر بن جائیں اور ان کا ترک یا فعل وہ علامت قرار پائے جس کی بنا پر یہ فیصلہ کیا جانے لگے کہ آپ کس فرقے میں داخل اور کس سے خارج ہیں اور پھر انہی علامتوں کے لحاظ سے یہ طے ہونے لگے کہ کون اپنا ہے اور کو ن غیر، تو اس صورت میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا یا آمین زور سے کہنا یا آہستہ کہنا یا ایسے ہی دوسرے امور کا ترک اور فعل دونوں یکساں بدعت ہیں اور بد ترین قسم کی بدعت ہیں۔اس لیے کہ سنت رسول اللہ میں بجائے خود تو ان اعمال کا ثبوت ملتا ہے ، لیکن اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ ان اعمال کو مسلمانوں کے اند ر گرو ہ بند یوں اور فرقہ سازیوں کے لیے علامات اور شعائربنایا جائے ۔ ایسا کرنا در اصل حدیث کا نام لے کر صاحب ِحدیث علیہ السلام کے منشا کے بالکل برعکس کام کرنا ہے اور اس اصل کام کو غارت کرنا ہے جس کے لیے رسول اللہ ﷺ دنیا میں تشریف لائے تھے۔ (بشکریہ ترجمان القرآن)