بامبے والا

مصنف : غلام عباس

سلسلہ : ادب

شمارہ : نومبر 2004

(انتخاب: کاشف علی خاں شروانی)

غلام عباس کا یہ افسانہ معاشرے کے دراصل ان افراد کی کہانی ہے جن کا معاشرتی تبدیلی کے عمل میں مثبت یامنفی کوئی کردار نہیں ہوتا۔مگر یہی افراد اس تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ردعمل کا نشانہ بن جاتے ہیں۔یہ افسانہ معاشرے کے دوگروہوں کے درمیان جاری کشمکش کی کہانی ہے ایک گروہ نئے دور سے ہم آہنگ ہونے میں ہی اپنی بقا دیکھ رہا ہے ۔ جبکہ دوسرا گروہ اس تبدیلی کا سخت مخالف ہے ۔یہ گروہ معاشرے کے بڑے بوڑھوں پر مشتمل ہے جو اپنی زندگی گزار چکے ہیں اور اب معاشرے کے کسی کام کے نہیں رہے۔ انہیں کچھ تو اپنی تہذیب کے خاتمے کا غم ہے اور کچھ اپنی اہمیت کے کھوجانے کا دکھ ہے۔ مگر وہ اس معاشرتی تبدیلی کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔اس دوران میں ایک ایساواقعہ رونماہوتاہے جس سے بڑے بوڑھوں کو کچھ تقویت حاصل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ یہ بڑے بوڑھے جو عرصہ سے اپنا غصہ اپنے دلوں میں چھپا ئے بیٹھے ہیں۔ایک بے ضرر سے آدمی سے اپنی ذلت کا بدلہ لیتے ہیں اور پھر زندگی اس طرف چل پڑتی ہے جس طرف وہ پہلے رواں دواں تھی۔آج کے دور میں بھی یہ افسانہ گہری معنویت رکھتاہے۔کیونکہ آج بھی یہ کشمکش جارہی ہے اور ‘‘بامبے والا’’ جیسے مظلوم کردار اس کشمکش کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ ازشیروانی۔

یہ علاقہ سرکاری فائلوں میں تو محض ‘‘گورنمنٹ کوارٹرز سی/۳۵۵’’ کہلاتا تھا مگر یہاں کے ساکنوں نے بڑی جدوجہد کے بعد ایک ضمنی نام بھی سرکار سے منظورکرا لیا تھا اور وہ تھا گلستان کالونی’’ ۔ یہ لوگ خود تو اپنے خطوں کی پیشانی پر خوش خطی سے گلستان کالونی لکھتے ہی تھے رشتہ داروں اوردوستوں کو تاکید تھی کہ وہ بھی خط لکھتے یہی پتہ تحریر کریں، پھر بھی کبھی کبھی کوئی تانگے والا شرارت یا انجان پن سے اس علاقے کو ‘‘بابو کالونی ’’ کے نام سے پکار کر بیٹھتا تو اس کی جہالت پر یہ لوگ جھنجلا کر ہی رہ جاتے۔

‘‘گلستان کالونی ’’ میں صرف ان ہی سرکاری ملازموں کو کوارٹر دیئے جاتے تھے جن کی تنخواہ ڈھائی سو سے ساڑھے چار سو تک ہوتی ۔ اس گریڈ میں عموماً دفتروں کے سپرنٹنڈنٹ اسسٹنٹ انچارج، اکاؤنٹنٹ ، آڈیٹر ، سینیئر اسٹینو گرافر، اوورسیئر اور اسی قبیل کے دوسرے ملازمین آتے تھے۔تھے تو یہ بھی کلرک ہی مگر ذرا نفیس قسم کے ،جیسے کلر کی کو دو آتشہ یا سہ آتشہ کر دیا گیاہو۔ ان کی حالت عام کلرکوں سے کہیں بہتر تھی اور وہ اپنی نسبتاً آسودہ حالی اور اپنے منصب کے باعث اپنے ہم چشموں میں خاصی عزت اور وقعت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔

اس علاقے کا نقشہ کچھ اس قسم کا تھا کہ کوئی نصف میل کے پھیلاؤ میں چارپانچ سٹرکیں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر شرقاً غربا ایک دوسرے کے متوازی چلتی تھیں اورچار پانچ سڑکیں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر شمالاًجنوباً چل کر انہیں کاٹتی تھیں،سب کوارٹر یک منزلہ اور ایک ہی وضع کے تھے، نہ چھوٹے نہ بڑے آگے ننھا سا باغیچہ اس کے بعد دو تین سیڑھیاں، پھر برآمدہ ،برآمدہ کے ساتھ ملے ہوئے دوکمرے پیچھے آنگن ،باورچی خانہ ، توشہ خانہ وغیرہ۔ یہ کوارٹر ایک دوسرے کے عین سامنے تھے بیچ میں صرف بیس فٹ کی سڑک تھی، چنانچہ اگر گھر کی مالکہ اپنی آزاد خیالی کی وجہ سے حجاب کی زیادہ قائل نہ ہوتی یا اپنے پھوہڑ پن کی وجہ سے ذرا بھی غفلت برتتی تو اس کے سامنے والی بی ہمسائی بڑے مزے سے اس کے ہر قسم کے اعمال و افعال کا مشاہدہ کر سکتی تھی۔

گلستان کالونی کسی ایک فرقے کے لیے مخصوص نہ تھی بلکہ اس میں ہندو مسلمان، سکھ عیسائی ، سب ہی رہتے تھے ، پھر زبانیں بھی یہاں بھانت بھانت کی بولی جاتی تھیں جن میں اردو، انگریزی، بنگالی ، مدراسی اور پنجابی کو زیادہ دخل تھاالبتہ ایک بات اس کالونی کے سب رہنے والوں میں مشترک تھی اور وہ تھی آرٹ اور فنون لطیفہ کی سرپرستی ۔ ریڈیو سے تو کوئی گھر خالی نہ تھا ، چنانچہ دن کے بارے بجے جب فرمائشی پروگرام چل رہا ہوتا، ایسے میں اگر کوئی یہاں آتا تو وہ ایک پورا فلمی گانا بغیر تسلسل ٹوٹے پھر کر سن کر سکتا تھا۔ اس کالونی کے باشندے متمدن سمجھے جانے کے بہت متمنی تھے۔ تنگی ترشی میں گزر کرتے ، مگر ظاہری ٹھاٹھ میں فرق نہ آنے دیتے۔ ہر گھر میں صج کو پابندی کے ساتھ ڈبل روٹی ، مکھن اور اخبار آتا۔ اخبار کا صاحبِ خانہ بے چینی سے متنظر رہتا۔ جب باری باری اور سب لوگ دیکھ چکتے تو آخر میں گھر کے بڑے بوڑھے کوارٹر کے باہر کرسی یا مونڈھا ڈال بیٹھ جاتے اور اخبار کو عینک کو قریب لالا کر گھنٹوں اس کے مطالعے میں غرق رہتے۔

یوں تو اس کالونی میں مصوری اوربت تراشی کا بھی خاصا چرچا تھا، مگر لوگ سب سے زیادہ گانے بجانے کے رسیا تھے۔ ریڈیو پر موسیقی کے پروگرام تو ذوق شوق سے سنے ہی جاتے تھے۔ کبھی کبھی ان کوارٹروں میں میوزک پارٹیاں بھی منعقد ہوتیں جن میں شہر کے مشہور مشہور گانے والوں کو بلوایا جاتا۔اس طرح ایک تو موسیقی کی سرپرستی ہوتی ، دوسرے مقامی جوہر کو ان کا کمالِ فن دیکھنے اور سیکھنے کا موقع ملتا۔ کئی گھروں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے میوزک ماسٹر رکھے گئے تھے۔ صبح کو جیسے ہی مرد ناشتہ سے فارغ ہو کر دفتروں کر راہ لیتے ، ان کے گھروں سے گھنگھروؤں کی جھنک کے ساتھ ساتھ بوڑھے کتھک کی گھمبیر آواز ’’ تاتھئی تھئی ۔تاتھئی تھئی’’ سنائی دینے لگتی ۔

اس علاقے کی چہل پہل خاص طورپر شام کودیکھنے کے قابل ہوتی جب مرد دفتروں سے آچکے ہوتے اور برآمدے میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے یاکسی مہمان کی تواضع میں مصروف نظر آتے جس کی پرانی ، عموماً کالے رنگ کی چھوٹی موٹر گھر کے دروازے کے عین سامنے کھڑی ہوتی یاجب یہاں کی نوخیز لڑکیاں اور جوان عورتیں نئے نئے سنگھار کئے نئی نئی تراش کے لباس پہنے اس نواح کی سڑکوں پر جھرمٹوں کے صُورت مصروفِ خرام ہوتیں۔ ایسے میں اگر کوئی ناواقف آدمی ادھر آنکلتا تو وہ ان لڑکیوں کو تکتا کا تکتا ہی رہ جاتا۔

گلستان کالونی کی ان سرگرمیوں کوعام طور پر استحسان کی نظروں سے دیکھا جاتا اور خود وہاں کے باشندے بھی اپنی روشن خیالی اور آزادہ روی پر مسرور معلوم ہوتے تھے، البتہ اس علاقے کا ایک طبقہ ایسا تھا جس کو کالونی والوں کی ان تمدنی ترقیوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی بلکہ وہ چپکے چپکے ان باتوں پر سخت تنقید کرتا تھا ۔ یہ اس علاقے کے وہ بڑے بوڑھے تھے جو نوکری اور ہر قسم کے کام کاج سے سبکدوش ہوکر اپنا آخری وقت اپنے بیٹوں کی کمائی کے سہارے گزار رہے تھے۔ گھر کے معاملات میں ان کا کوئی دخل نہیں رہا تھا۔ اگر وہ کوئی بات معاشرے کی اس نئی روش کی برائی میں کہتے تو گھر کے سب جھوٹے بڑے اسے دقیانوسی کہہ کر مذاق میں اڑا دیتے اور ان کے لیے اس کے سوا چارہ نہ رہتا کہ جب تک گھر پر رہیں، اپنی آنکھیں اور کان بند رکھیں اور کھانے پینے یا اخبار پڑھنے کے علاوہ کسی کام سے سروکار نہ رکھیں۔

گھر پر تو ان بڈھوں کا بس نہ چلتا البتہ ہر روز تیسرے پہر وہ کالونی کے ایک چوک میں بڑی شان سے اپنی منڈلی جمایا کرتے۔ گرمیوں میں اس جگہ چھڑکاؤ کرکے آٹھ دس مونڈھے بچھا دئیے جاتے جن پر یہ بوڑھے بیٹھ کر دو تین گھنٹے تک خوب خوب دل کی بھڑاس نکالتے۔ زمانے کی نئی روشنی کے خلاف عورتوں کی بڑھتی ہوئی آزادی کے خلاف ، اپنے بیٹوں کی بے راہ روی کے خلاف ، بے پردگی کے خلاف ، فنون لطیفہ کی آڑ میں جن بے حیائیوں کو روا رکھا جاتا ہے ان کے خلاف ، زن ومرد کے بے محابا اختلاط کے خلاف ناچ گانے اور خصوصاً فلمی گانوں کے خلاف ۔ لطف یہ کہ جب اس طرح وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر کے گھر پہنچتے تو ان میں سے کسی کی پیاری پوتی جس کی عمر سات سال ہوتی اپنے ماں باپ اور ان کے احباب کی پُر شفقت اور پُر تحسین نظروں کے سامنے کو لہے مٹکا مٹکا کر گارہی ہوتی ۔ ‘‘ نا چونا چو پیارے من کے مور’’ اور یہ بڑے میاں چپکے سے اپنے کمرے میں جاکر اندرسے دروازہ بند کر لیتے۔

گلستان کالونی کی چہل پہل میں اضافہ کرنے میں ایک اور ہستی کا بھی بڑا دخل تھا اور یہ تھا بامبے والا۔ بامبے والا بیس بائیس برس کا ایک نوجوان تھا۔ گندمی رنگ ، ناک نقشہ برا نہیں تھا۔ اسے دیکھ کر یہ بتانا مشکل تھا کہ وہ کس صوبے کا رہنے والا ہے۔ وہ خو کو بمبئی کا باشندہ بتلاتا تھا مگر اس کے شین قاف کی درستی کہے دیتی تھی کہ اس کا تعلق ملک کے جنوبی حصے سے نہیں بلکہ شمالی حصے سے ہے۔ اپنی وضع قطع اور لباس سے وہ سرکس کے مسخروں سے ملتا جلتا تھا۔ کبھی سیاہ ٹیل کوٹ اور سیاہ ٹاپ ہیٹ ، کبھی شب خوابی کا رنگ دار دھاریوں والا کرتہ پاجامہ اور سر پر تنکوں کی بنی ہوئی انگریزی ٹوپی، کبھی بنگالی فلم ایکڑوں کے تتبع میں کھدر کا لمبا کرتہ اور لہراتی ہوئی دھوتی کبھی شکاریوں کی طرح برجس ڈالے ہوئے ، کبھی کبھی ٹاپ ہیٹ کی جگہ سرخ ترکی ٹوپی لے لیتی ۔ چہرے پر ایکٹروں کی طرح گاڑھا گاڑھا میک اپ کیا ہوا۔آنکھوں میں کاجل ، ہونٹوں پر لپ اسٹک ، اس کے ساتھ باریک باریک مونچھیں ،وہ جو لباس بھی پہنتا ایسا بے ہنگم ہوتا کہ دیکھ کر بے اختیار ہنسی آجاتی۔ اس نے اپنی سائیکل کا حلیہ بھی بگاڑ رکھا تھا اور اس کے ہینڈل اور مڈگارڈوں پر رنگدار کاغذ کی بنی ہوئی بھنبھیریاں لگا رکھی تھیں جو ہوا سے آپ ہی آپ گھومتی رہتیں۔ گلے میں ایک چھوٹا سا بکس ڈال رکھا تھا جس میں طرح طرح کی ٹافیاں چونسے والی گولیاں ، رنگترے کی پھانکیں اور میٹھی سونف کی پُڑیاں ہوتیں۔ علاوہ ازیں وہ فلمی ایکٹروں کے فوٹو اور فلمی گانے کی کتابیں بھی بیچا کرتا تھا ۔ایک ہاتھ ہینڈل پر ، دوسرے ہاتھ میں ایک بڑی سا کالے رنگ کا بھونپو۔ اس کو منہ سے لگا کر جس وقت وہ ‘‘بامبے والا’’ ،بامبے والا’’ کی آواز لگاتا ، تو گھروں میں ہلچل سی مچ جاتی بچے پیسوں کے لیے مچلنا شروع کر دیتے اور وہ تیر کی طرح بامبے والا کے پاس پہنچ جاتے۔

‘‘بامبے والا’’ کے الفاظ وہ لہک لہک کر ادا کرتا کہ وہ ایک نغمے کی طرح معلوم ہوتے جس میں کئی اترے ہوئے سر لگتے ۔ اس کہ یہ گانا اس کی آمد کا اعلان ہوتا۔

دل کا نیک تھا۔ بچوں کوان کے دام سے کچھ زیادہ ہی مٹھائیاں دے دیا کرتا۔ کبھی کسی بچے کے پاس پیسہ نہ ہوتا تو مفت ہی ایک آدھ چونسے والی گولی دے دیتا۔ وہ ‘‘بامبے والا ’’ کی الاپ کے علاوہ اور بھی بہت سے گانے گایا کرتا ۔ یہ فلموں کے چلنتر گانے ہوتے جن میں پریم اور پریمی ،بھونرے اور پپہیے کا ذکر ایسے پُر سوز طریقے پر ہوتا کہ انہیں سن کر بلوغت کو پہنچے والی لڑکیوں کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی اور وہ اپنے چھوٹے بھائیوں یا بہنوں کو آنہ یا ٹکادے کر میٹھی سونف منگوایا کرتیں۔

اس کی آواز ایسی مدھر تھی کہ جب وہ کوئی فلمی گانا گاتا تو لوگ اس کے مسخرے پن کو بھول کر گانے پر جھوم اٹھتے اس کی یہ آواز اس کے کاروبار کی کامیابی کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔ عورتوں کو گھورنا یا ان پر آوازے کسنا اس کی عادت نہ تھی یہ اور بات ہے کہ آواز گانے کے پردے میں بہت کچھ کہہ جاتی ۔

وہ اس کالونی میں ہفتے میں ایک آدھ بار ہی آیا کرتا ، یہی وجہ ہے کہ اس کے آتے ہی بچے بڑے جوش وخروش سے اس کے خیر مقدم کے لیے دوڑتے ، بچے جس قدر اس سے خوش تھے، ان کے ماں باپ اتنا ہی اس سے بیزار، کیونکہ اس کے آنے پر انہیں بچوں کی ضد پوری کرنی پڑتی تھی خواہ جیب میں پیسہ ہو یا نہ ہو اور ان بڑے بوڑھوں کی ناراضگی کا تو پوچھنا ہی کیا۔انہیں اس کے مسخروں کے سے لباس اور عاشقانہ گیتوں سے سخت چڑ تھی، کیونکہ ان کے خیال کے مطابق ان گانوں سے شرفا کی بہو بیٹیوں کا اخلاق بگڑتا تھا۔ اگر ان بڈھوں کا بس چلتا تو وہ اسے پولیس کے حوالے کر کے حوالات میں بند کر ا دیتے مگر جب تک اس سے کوئی مجرمانہ حرکت سرزد نہ ہو ایسا ممکن نہ تھا۔یہی وجہ تھی کہ ان بڑے بوڑھوں کو گھر کی طرح اس معاملے میں بھی صبر ہی سے کام لینا پڑتا تھا۔

آخر ایک دن ایسا آیا جب ان کے صبر کا پیمانہ سچ مچ لبریز ہوگیا، اور ادھر وہ لوگ جو عورتوں کی آزادی کے بڑے حامی تھے سوچ میں پڑ گئے کہ کہیں ہمیں توغلطی پر نہیں ہیں۔

ہوایہ کہ اس کالونی میں ایک بنگالی بابو رہتا تھا۔ بڑا خوش خلق اور شریف طبع ۔ کالونی میں اس کا بڑا مان تھا ۔وہ کسی دفتر میں سپرنٹنڈنٹ تھا۔ اس کی دو بیٹیاں تھیں۔ میراؔ اور سیتا ؔ،میرا ؔکی عمر تیرہ برس اور سیتا ؔکی چودہ برس ۔ وہ کاٹھیا واڑ کے ایک کتھک سے ناچ سیکھا کرتی تھیں۔ اس کتھک کی عمر کوئی تیس بتیس سال کی تھی ۔ حد درجہ کا چرب زباں۔ اس جواں عمری میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا تھا۔ ایک دن دوپہر کو وہ کسی تماشے کے‘‘ پاس’’ لے کر آیا اور ان لڑکیوں کوتماشہ دیکھنے پر اکسایا۔ بنگالی بابو دفتر میں تھا۔ لڑکیوں نے ماں سے اصرار کر کے اجازت لے لی ۔ اس کے بعد وہ دونوں لڑکیاں اور کاٹھیاواڑی کتھک ایسے غائب ہوئے کہ نہ جانے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔

بعض لوگ کہتے کہ دونوں بہنیں ایکٹرس بننے کے شوق میں بمبئی بھاگ گئیں۔ بعض کہتے ہیں اسی شہر میں ایک سیٹھ کے قبضے میں ہیں جس نے انہیں تالوں میں بند کر رکھا ہے۔ یہ کتھک بھی اسی سیٹھ کا سکھایا پڑھایا تھا۔ غرض جتنے منہ اتنی ہی باتیں، تھانے میں رپٹ لکھوا دی گئی تھی مگر ابھی تک کسی کا کھوج نہیں ملا تھا۔

جس دن یہ واقعہ پیش آیا کالونی میں ایک تہلکہ سا مچ گیا۔ کالونی والوں کے چہرے اُتر سے گئے جیسے کوئی موت واقع ہوگئی ہو۔ ریڈیو پر فلمی گانے سننے بند کر دئیے گئے اور ایک سوگ کا سا سماں بندھ گیا۔ کالونی میں ایک کالیستھ کی بیٹی ایک ستارئیے سے ستار سیکھا کر تی تھی۔ کالیستھ نے اسی دن اسے برطرف کر دیا۔ یہ واقعہ تھا تو بہت افسوس ناک مگر ان بڑے بوڑھوں کے حق میں تائیدغیبی ثابت ہوا۔ کالونی میں یک لخت ان کا وقار بڑھ گیا۔ یہ بڈھے جو پہلے سرڈالے سائے کی طرح چپکے سے گلی کوچوں سے گذر جاتے تھے اب انہیں راستوں پر کھنکارتے زور زور سے لاٹھی ٹیکتے ، سر اٹھا اٹھا کر چلنے لگے۔ وہ اپنے بیٹوں کوکھری کھری سناتے اور اسی نئی تہذیب کی خوب خوب دھجیاں اڑاتے۔ برسوں سے اس کے خلاف دلوں میں جو نفرت کا طوفان اُمنڈرہا تھا وہ ایک دم پھوٹ پڑا۔ اب ان کے خود سر بیٹوں کے لیے اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ خاموشی سے سنتے رہیں اور سر جھکالیں۔

جس دن یہ واقعہ پیش آیا تھا اس دن سے بڈھوں کی اس منڈلی میں بڑا جوش و خروش نظر آنے لگا تھا۔ یہ لوگ بلند آواز سے اس پر حاشیہ آرائی کرتے اور جلے دل کے پھپھولے پھورتے، ان کے لیے یہ ماجراروز کا ایک مستقل موضوع بن گیا تھا۔

‘‘ویدجی ’’ مونڈھے پر بیٹھے ہوئے ایک بڑے میاں نے اپنے ساتھ والے بڈھے سے خطاب کیا ۔‘‘اگر ایسا ہی ایک واقعہ اور ہوجائے تو میں مسلمان لڑکیوں کی طرح اپنی پوتیوں کو برقع پہنانا شروع کر دوں۔’’

اس پر منڈلی میں ایک فرمائشی قہقہہ پڑا۔

‘‘گپتا جی بھی کمال کرتے ہیں ۔’’ ایک سفید ریش مقطع صورت بزرگ گویا ہو ئے شرافت کوئی برقع میں تھوڑی ہے۔ یہ تو دل میں ہونی چاہیے۔’’

‘‘سچ کہتے ہو خان صاحب ۔’’ ایک اور پیر مرد نے تائید کی اور خان صاحب نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ان بزرگ کا شکریہ ادا کیا۔ خان صاحب کی بہو پردہ نہیں کرتی تھی اور جوان بیٹیاں بھی بے نقاب ہی کالج جاتی تھیں۔

منڈلی میں یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اچانک ‘‘بامبے والا’’ کی آواز سنائی دی کالونی کی اس اداس اورسوگ بھری خاموشی میں یہ آواز ایسی معلوم ہوئی جیسے قبرستان میں کوئی بدمست شرابی آگھسے اور بنکارنا شروع کر دے۔

بڈھوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر بخشی جی، جو تھے تو ساٹھ کے پیٹے میں مگر جوانوں کا سادم خم رکھتے تھے مونڈھے سے اٹھے اور بامبے والا کو اپنی طرف آنے اشارہ کیا۔

‘‘کیا بیچتے ہو تم؟’’ بخشی جی نے غصہ بھری آواز میں پوچھا۔

بامبے والا متعجب سا ہو کر مسکرانے کی کوشش کرنے لگا۔

‘‘میں پوچھتا ہوں کیا بیچتے ہو تم؟ ’’ بخشی جی نے پہلے سے زیادہ غصے میں کہا ۔

‘‘ٹافی چونسنے والی گولیاں ، میٹھی سونف۔’’بامبے والا نے بدستور مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

‘‘لاؤ دکھاؤ۔’’

اس نے بائیسکل کواسیٹنڈ پر کھڑا کر دیا اور گلے میں پڑا ہوابکس کھول کر سب چیزوں کا ایک ایک نمونہ دکھانے لگا۔

‘‘بے ایمان کہیں کا۔’’ بخشی جی اچانک ہی برس پڑے۔‘‘ یہ ٹافی تو گڑ کی ہے، بچوں کو ٹھگنے کے لیے یہ چار سو بیس ! ’’

‘‘بامبے والا کچھ پریشان سا نظر آیا مگر مسکراتے ہوئے ادب سے بولا:

‘‘حضور ، اول تویہ درست نہیں کہ یہ ٹافی گڑکی ہے،دوسرے یہ چیزیں میں خود تھوڑا ہی بناتا ہوں۔ یہ تو کمپنی کامال ہے ۔ میں بنا بنایا مال لاتا ہوں۔’’

اس اثنا میں تین چار بوڑھے ا ور منڈلی سے اٹھ کر بامبے والا کے پاس پہنچ گئے اور اس کو گھیر کر کھڑے ہو گئے۔

‘‘کیا ٹر ٹر لگائی ہے۔’’ یہ کہتے ہی گپتاجی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ زور کا ایک چانٹا بامبے والا کے منہ پرجڑ دیا۔’’ ایک تو چور اوپر سے کمپنی کا رعب جماتا ہے ، لے اور لے ۔’’

گپتا جی پہل کر چکے تھے ۔چاروں طرف سے بامبے والا پربے بھاؤ کی پڑنے لگیں ادھر اس کا یہ حال کہ ہر تھپڑ یا چانٹے پر وہ پہلے سے زیادہ ہکا بکا ہو کر اپنے مارنے والے کا منہ تکنے لگتا۔

اس کی ٹاپ ہیٹ اچھل کر زمین پر آرہی تھی۔ اس کے گالوں پر انگلیوں کے نشان پڑ گئے تھے۔ گالوں اور ہونٹوں کی سرخی میں کاجل کی سیاہی مل گئی تھی ۔ اس کے کپڑے پھٹ گئے تھے۔ ایک بزرگ نے اس کے ٹیل کوٹ کی ٹیل نوچ ڈالی تھی، اس کا مٹھائیوں والا بکس کھل گیا تھا اور ٹافیاں ، چاکلیٹ ، رنگترے کی پھانکیں ، میٹھی سونف کی پڑیاں زمین پر آرہی تھیں۔ فلمی ایکٹروں کی تصویریں، گانوں کی کتابیں فلمی پریوں کی داستانیں زمین پر بکھری پڑی تھیں۔

‘‘حرام زادہ۔ سؤر کا بچہ بڑا ایکٹر بنا پھرتا ہے ۔ بدمعاش …………جا، اب تو چھوڑدیا ، پھر کبھی ادھر رخ نہ کیجو۔’’ اور بڑے بوڑھوں نے خود ہی تھک کر اس کا پیچھا چھوڑ دیا اور ہانپتے ہوئے آکر پھر اپنی منڈلی میں آبراجے۔

بامبے والا مظلومی کی تصویر بنا دیرتک زمین پر بیٹھا مٹھائیاں ، تصویریں اور کتابیں اُٹھاتا اور جھاڑ جھاڑ کر اپنے بکس میں رکھتا رہا۔کبھی کبھی وہ ان بوڑھے بابوؤں پر بھی ایک نظر ڈال لیتا ۔ آخر وہ زمین سے اٹھا گلے میں مٹھائیوں کا بکس ڈالا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس طرف گیا جہاں سائیکل کھڑی تھی ۔ پھر سائیکل پر بیٹھ خاموشی سے اس نواح سے رخصت ہو گیا۔

اس مارپیٹ سے اس کا جسم درد کرتا تھا۔ اسے بے عزتی کا بھی غم تھا مگر اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی تھی کہ کس جرم کی پاداش میں یہ سزا دی گئی ہے۔

اس کے بعد گلستان کالونی میں بامبے والا کی آواز پھر کبھی نہ سنائی دی۔