ج: صحابہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وقت گزارا، آپ کی صحبت اٹھائی، شب و روز آپ کے ساتھ رہے اور ایک قابل لحاظ مدت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو اپنے ایک ساتھی کی حیثیت سے دیکھتے رہے۔ان سب صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے ، بلکہ اس معاملے میں تو بہت تعیین ہو گئی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ بیعت رضوان کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو لوگ گئے اور انہوں نے حضور ؐ کے ہاتھ پر بیعت کی، ان سب کے بارے میں اللہ نے یہ بشارت دی ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: میں آپ لوگوں کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح نبیوں کا انتخاب کیا ، اسی طرح صحابۂ کرام کا انتخاب کیا ہے۔ جس طرح پیغمبروں کو شہادت کے منصب پر فائز کیا، اُن کو بھی اسی طرح شہادت کے منصب پر فائز کیا۔ جس طرح پیغمبروں کے ذریعے سے اللہ کی حجت تمام ہوئی، اسی طرح ان کے ذریعے سے دنیا کی ساری اقوام پر حجت تمام ہوئی۔ اور بیعت رضوان کے صحابہ کے بارے میں تو قرآن یہ کہتا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا۔ اس وجہ سے اس معاملے میں بہت متنبہ رہنا چاہیے اور کبھی لغو روایات اور قصے اور کہانیوں کی بنیاد پر آرا قائم نہیں کرنی چاہیے۔ آج ہمارے پاس بے شمار ذرائع ہیں، میڈیا ہے، ٹیلی وژن ہے، ریڈیو ہے، اخبارات ہیں اور مواصلات کے دیگر ذرائع ہیں، جگہ جگہ کی خبریں پہنچ رہی ہیں۔ لیکن پھر بھی ایک واقعے کے بارے میں دس طرح کی رپورٹس ہوتی ہیں اور فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ہے۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ اسی زمانے میں ہوا ہے۔اس کے بارے میں کتنی آرا ہیں۔ بارہ اکتوبر کا واقعہ اسی ملک میں ہوا ہے، کوئی صحیح نتیجے تک پہنچ سکا۔ کارگل کا واقعہ اسی زمانے میں ہوا کیا صحیح بات معلوم ہوئی؟ آج یہ حال ہے تو آپ کاکیا خیال ہے کہ اتنے برسوں پہلے کا ایک واقعہ من وعن پہنچ گیا ہے ۔ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن مجید موجود ہے اور قرآن مجید اس طرح کے تمام واقعات کی لغویت کو بالکل واضح کر دیتا ہے۔ صحابۂ کرامؓ کا مرتبہ، ان کا مقام بہت غیر معمولی ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں ‘ہو اجتباکم’ اللہ تعالیٰ نے ان کا انتخاب کیا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس میں ہر آدمی کو زبان کھولتے ہوئے اس کا خیال کرنا چاہیے۔ حدیبیہ میں کوئی نافرمانی نہیں کی گئی بلکہ لوگ ایک سراسیمگی کی کیفیت میں تھے اور پوری توجہ کے ساتھ سن ہی نہیں سکے۔ انھیں باور ہی نہیں آیاکہ کیا واقعی حضورﷺ نے یہ حکم دیا ہے۔ اسی وجہ سے جب ام المومنین نے حضورﷺ کو یہ بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں، لوگ آپ کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتے۔ آپﷺ جا کے قربانی کیجیے، دیکھئے لوگ فوراً اٹھ کھڑے ہوں گے تو ایسا ہی ہوا۔ صحابہ کے خلاف کوئی نہ کوئی مقدمہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا میرے نزدیک آدمی کا شہد کی مکھی کے بجائے ، گندگی کی مکھی بن جانا ہے کہ وہ چیز کے روشن پہلو کو دیکھنے کے بجائے جہاں غلاظت ہو ،اُس پر بیٹھ جائے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے بعد اس طرح کا کوئی اقدام جاری نہیں رہا ۔ ہماری تاریخ اس سے خالی ہے ، بعد کے لوگوں نے جو اقدامات کیے انہوں نے کبھی بھی اسے اس کے ضمن میں نہیں جانا بلکہ جیسے فاتحین فتح کرتے ہیں ایسے ہی معاملات کو دیکھا ۔ تاریخ میں کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی کہ ہم اتمام حجت کے بعد لوگوں پر مسلط کر دیے گئے ہیں اور ہمیں یہ کام کرنا ہے ۔ اس سے یہ بالکل واضح ہے کہ اللہ کی سنت بالکل صحیح طریقے سے ظہور پذیر ہوئی ۔ جہاں تک صحابہ کرامؓ کے اعلان نہ کرنے کا تعلق ہے تو یہ اعلان خود قرآن مجید کر رہا ہے ۔ البتہ قرآن کے اس اعلان کے فہم میں علوم و فنون کی تشکیل کی وجہ سے کچھ رکاوٹیں پچھلی صدیوں میں حائل ہو گئیں، ان کو دور کرنے میں ہر شخص کو کچھ نہ کچھ وقت لگ جاتا ہے ۔ یہ وقت مجھے بھی لگ گیا۔یہ بات کہ صحابہ کی خصوصی حیثیت تھی ۔ ہم خود اس سے صرف نظر کرتے رہے ورنہ یہ بات ہماری قدیم کتابوں میں اتنی وضاحت سے بیان ہوئی ہے کہ شاید ہی کوئی اور بات بیان ہوئی ہو ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: حضرت ابوبکرؓ دین حنیفی اور دین ابراہیمی کے پیروکار تھے اور ایسے بہت سے لوگ تھے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ بات واضح ہے کہ ابو سفیان اسلام کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے ۔اس موقع پر بھی اور بعد میں بھی وہ اپنے دل میں ایمان کی رمق کو پاتے تھے اللہ نے ایسے سب لوگوں کی حفاظت کی ہے جن کے دل میں ایمان کی کوئی بھی رمق تھی۔ یہ بات سورہ فتح میں بیان ہو گئی ہے ۔ جب حضورﷺ کو حدیبیہ سے لوٹنے کے لیے حکم دیا گیا تو اس کی وجہ اللہ نے یہ بیان کی ہے کہ جن کے دلوں میں ایمان اتر چکا تھا ہم ان کو موقع دینا چاہتے تھے ۔چنانچہ یہ واقعہ ہوااور ابو سفیان ایمان لے آئے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: صحابہؓ نے ان جگہوں کواپنا مستقر بنالیا ۔ وہ کسی تبلیغی سفر پر نہیں گئے تھے۔ جہاں گئے سراپا تبلیغ تھے اور یہ کام مسلمانوں کو اس وقت بھی کرنا چاہیے مسلمان اس وقت دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں ، انکے اس جذبے کو بیدار کیجیے کہ وہ گردو پیش میں اللہ کادین پہنچائیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بالکل ٹھیک ہے ، اس کا مضمون ہی یہ بتا رہا ہے کہ کوئی شبہ نہیں اس میں۔ ہر ہر صحابی ستارہ ہے ان کی یہ حیثیت دین نے بیان کر دی ہے کہ وہ دین کے گواہ بنائے گئے ہیں ۔ خدا نے ان کا انتخاب کیا ہے اور ان کے اتمام حجت سے وہی نتیجہ نکلتا ہے جو پیغمبر کے اتمام حجت سے نکلتا ہے تو صحابہ کرام ؓ کے اس مقام میں کوئی شک نہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: دنیا پر اتمام حجت ، جہاد کے ذریعے سے لوگوں سے جزیہ طلب کرنااور ان کو مغلوب رکھنا صحابہ سے خاص تھا ۔ ان کے خاص حقوق ان کے منصب شہادت سے پیدا ہوئے تھے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: حضرت عمرؓ بہت زیادہ مشورہ کیا کرتے تھے بلکہ اگر اختلاف ہوتا تو باقاعدہ شوری بلا کر بھی مسائل حل کرتے تھے ۔روزمرہ کے معاملات کے لیے مہاجرین کی شوری موجود تھی ، اس کے اجلاس وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے تھے اور بڑے معاملات انصار اور مہاجرین مل کر حل کرتے تھے ۔ اس کو بالکل متناسب نمائندگی کے طور پر بلایا جاتا تھا۔ ایک موقع پر جب زمینوں کا فیصلہ ہوا تو آپؓ نے حکم جاری کیا کہ پانچ پانچ آدمی انصار کے دونوں قبیلوں میں سے آئیں اور باقی مہاجرین اس میں شریک کیے گئے تھے ۔ اگر کسی معاملے میں آپ نے اپنااجتہاد نافذ کیا اور صحابہؓ نے اس سے اختلاف نہیں کیا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو بھی سب صحابہ کی تائید حاصل ہو گئی۔
(جاوید احمد غامدی)