یہ کوئی 87 یا 88 کی بات ہے۔پڑھائی چھوڑے ہوئے کئی برس ہو چکے تھے۔ میں مزدوری کیا کرتا تھا۔کہانیاں بھی لکھا کرتا تھا جو مختلف رسالوں اور ڈائجسٹوں میں چھپتی تھیں۔ مزدور کی دیہاڑی ان برسوں میں تیس روپے ہوا کرتی تھی ، اور کاریگر کی پچاس روپے۔ میں اس وقت تک شٹرنگ کا کاریگر بن چکا تھا۔چنائی پلستر اور ٹائل فکسنگ کا کام بھی سیکھ چکا تھا۔ اور پچاس روپے دیہاڑی کماتا تھا۔ ان دنوں جب کوئی کام ختم ہوجاتا اور ٹھیکے دار کے پاس کام کی اگلی چال نہ ہوتی تو میں اگلے دن صبح سویرے لالو کھیت ( ڈاک خانہ ) یا اورنگی ٹاؤن کے مزدوروں کے اڈے پر بیٹھ کر نئی دیہاڑی کا انتظار کرتا۔اگر بنارس کے اڈے پرآٹھ بجے تک کام نہ لگتا تو " ون ڈی " کی بس میں بیٹھ کر اپنی ہتھوڑی اور تھیلی ( کیلوں کی تھیلی ) لے کر لالو کھیت آجاتا۔ اڈے پر بیٹھ جاتا۔اور جلد ہی کوئی نہ کوئی ٹھیکے دار مجھے کام پر لے جاتا۔کام سے فارغ ہو کر میں گھر جانے کی بجائے اورنگی ٹاؤن میں موجود اپنی " لائبریری " پر چلا جاتا ،جہاں دن بھر میرے چھوٹے بھائی اشرف یا اسلم ( مرحوم ) بیٹھا کرتے تھے۔
مغرب کے بعد سے رات دو بجے تک میں لائبریری پر رہتا اور کتابیں کرائے پر دینے کے ساتھ ساتھ اسکول کی کتابوں کی جلدیں بنایا کرتا تھا۔۔ " شانی لائبریری " ہی میرا پوسٹل ایڈریس تھی ، زیادہ تر رسائل اور میری ڈا ک اسی پتے پر آیا کرتی تھی۔( عمر خطاب خان ،منیر احمد راشد، خان آصف اور محی الدین نواب سے میری پہلی ملاقات اسی لائبریری پر ہوئی تھی۔ایک روز مجھے ایک پوسٹ کارڈ ملا جس پر عمدہ سی تحریر میں لکھا تھا۔" ابن آس صاحب۔آپ کی کہانیاں بہت اچھی ہوتی ہیں ،آپ کسی دن آفس آکر محمود شام صاحب سے ملیں وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔" نزہت شیریں : ایڈیٹر ٹوٹ بٹوٹ۔
میں نزہت شیریں نام کی کسی خاتون کو نہیں جانتا تھا ، ہاں محمود شام کو جانتا تھا کہ وہ بہت بڑے جرنلسٹ ہیں۔ اخبار جہاں میں ان کا " کراچی کی فضاؤں سے " کے نام سے ایک مضمون چھپا کرتا تھا۔ اور وہ ٹوٹ بٹوٹ کے ایڈیٹر تھے۔اب مسئلہ یہ تھا کہ میں سوائے حنیف سحر کے کسی کو نہیں جانتا تھا۔کبھی کبھی ان کے گھر پر ان سے ملنے قصبہ کالونی جایا کرتا تھا۔۔میں مزدور تھا۔۔ کسی رسالے کے دفتر میں جانے کے لیئے چھٹی کرنا "افورڈ " نہیں کر سکتا تھا۔ ایک دن کی چھٹی کا مطلب تھا کہ ایک دن گھر میں چولھا نہ جلتا۔ لیکن وہ کارڈ پاکر مجھے بے حد خوشی ہوئی ،"آپ کی کہانیاں بہت اچھی ہوتی ہیں " پڑھ کر ایک خوشی کا احساس ہوا۔اور " محمود شام صاحب سے ملیں۔۔ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔" پڑھ کر جو فخر محسوس ہورہا تھا خود پر، اس کو لفظوں میں بیان کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔میں اس کارڈ کو کئی دنوں تک جیب میں ڈالے ڈالے پھرتا رہا، روز سوچتا کہ آج جلدی چھٹی ہوجائے گی تو وہاں سے چلا جاؤں گا۔ مگر جا نہ سکا ،کہ میرا زیادہ تر کام نیو کراچی ( دو منٹ کی چورنگی اور نئی آبادی کے اطراف ) میں چل رہا تھا۔پھر ایک روز موقع مل گیا۔ٹھیکے دار کا ایک کام طارق روڈ پر تھا ،وہاں کے ایک بنگلے میں تیسری منزل پر کچھ پلر ٹھوک کر بھرنا تھے۔دوپہر تک ہم نے شٹرنگ ٹھوکی اور کوئی چار بجے تک پانچوں پلروں کا مسالہ بنا کر انہیں بھردیا۔
اس بنگلے کا مالک کوئی سرکاری افسر تھا ،بہت مز ے کا آدمی تھا، ہمارے ساتھ چائے پی رہا تھا، کام کے دوران باتیں کر رہا تھا، مذاق کر رہا تھا۔کام ختم کرنے کے بعد میں نے اس کو کارڈ دکھایا اور پوچھا کہ یہ پتا کہاں کا ہے۔اس نے کارڈ پڑھا، اور حیرت سے میری طرف دیکھا۔" کس کا ہے یہ کارڈ۔؟"" میرا ہے۔ مجھے ملا ہے۔" میں نے جواب دیا۔" یہ ابن آس کون ہے۔ ؟' یہ میں ہوں۔" میں نے مختصراً کہا تو وہ بے یقینی سے میری طرف دیکھنے لگا۔ کیوں جھوٹ بولتے ہو۔۔ یہ تو مشہور رائیٹر ہے۔ میں نے اس کی کہانیاں پڑھی ہیں۔ تم تو مزدور ہو۔اور تمہارا نام اختر ہے۔۔۔"" جی۔۔ میں اختر ہی ہوں لیکن اس نام سے کہانیاں لکھتا ہوں۔"
اسے میری بات پر یقین نہیں آرہا تھا ،بڑی مشکلوں سے یقین دلایا، تو اس کا رویہ میرے ساتھ اور اچھا بلکہ مہذبانہ ہو گیا، وہ مجھ سے تم کی بجائے آپ کر کے بات کرنے لگا۔وہ محمود شام کو بھی جانتا تھا۔اس نے کہا کہ یہ پی سی ایچ ایس کا ایڈریس ہے۔ دو گلیاں چھوڑ کر تیسری گلی میں معیار کا آفس ہے۔وہیں ہوتے ہیں شام صاحب۔ "میں نے اس کا شکریہ ادا کیا، اور وہاں سے پیدل ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہوئے اس پتے پر پہنچ گیا جو اس کارڈ پر لکھا تھا۔معیار اور ٹوٹ بٹوٹ کا آفس پی ای سی ایچ ایس کے بازار والی گلی میں تھا۔۔۔ نیچے سموسوں اور ایک پان والے کی دکان تھی۔ اس کے ساتھ ایک بڑے سے لڑکے نے پنجرے رکھے ہوئے تھے جن میں رنگ برنگ طوطے بند تھے ،وہ طوطے بیچتا تھا۔۔
سموسوں کی دکان ( مٹھائی کی دکان )کے اندر سے سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں ،سموسے والے نے بتایا کہ اوپر چلے جاؤ۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا تو لاؤنج کے ساتھ ایک کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور کھڑکی کے دوسری طرف ایک نہایت حسین لڑکی بیٹھی تھی۔میں اس لڑکی کے سامنے پہنچا ( اتنی حسین لڑکی میں نے اس وقت تک فلموں میں تو دیکھی تھی ،حقیقت میں نہیں)۔ وہ گلابی رنگت کی حامل لڑکی میز پر بہت سے کاغذ پھیلائے کچھ لکھنے میں مصروف تھی ، میں اس کے سامنے پہنچ گیا۔" مجھے محمود شام سے ملنا ہے۔"لڑکی اپنے کام میں مصروف رہی249 اور ہاتھ سے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔" اس کمرے میں ہیں۔"" جی شکریہ۔۔" میں پلٹنے لگا تو اس نے اچانک سر اٹھایا۔اور میری طرف دیکھا۔میرے کپڑے سیمنٹ میں چیکٹ ہورہے تھے۔ پلروں کی بھرائی کے بعد میں یوں ہی اس طرف آ گیا تھا۔ ’’اے۔ بات سنو۔۔۔ " اس نے گھبرا کر کہا۔" جی۔۔" میں رک گیا۔" کون ہو تم۔۔ کہاں سے آئے ہو۔۔؟" وہ میرا حلیہ دیکھ کر سمجھی کہ نیچے سے کوئی مزدور آیا ہے۔" جی۔۔ میں۔۔ مجھے محمود شام نے بلایا ہے ملنے کے لیئے۔۔۔"
وہ الجھی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی۔میں نے پوسٹ کارڈ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا۔اس کا رنگ ایسا گلابی تھا کہ میں اس کے چہرے کی طرف دیکھ نہیں پا رہا تھا ،اور ایسے صاف اور سلیقے سے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہ مجھے بات کرنے کی بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔اس نے کارڈ دیکھا ،پھر تعجب سے میری طرف دیکھا۔" یہ کارڈ تو میں نے لکھا تھا۔تم۔۔" وہ تعجب سے میری طرف دیکھنے لگی۔میں نے جلدی سے کہا۔" جی میں ابنِ آس ہوں۔ آپ نزہت شیریں ہیں۔۔۔۔؟"
"ہاں۔۔میں نزہت شیریں ہوں۔تم واقعی ابنِ آس ہو۔۔؟" اسے یقین نہیں آرہا تھا۔"جی۔۔ میں ابنِ آس ہوں۔۔۔۔"
" ٹھہرو ایک منٹ۔۔ یہیں کھڑے رہو۔ "وہ مجھے وہیں کھڑا کر کے اس کمرے میں نوک کر کے چلی گئی جس کی طرف پہلے مجھے جانے کا اشارہ کیا تھا۔کمرا برابر میں ہی تھا۔اندر سے نزہت شیریں کی آواز آئی۔
" شام جی۔۔ ابن آس آگئے ہیں۔۔۔"
جواب میں کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ نہ نزہت شیریں کا کوئی مزید فقرہ۔چند لمحوں بعد وہ باہر آئی اور میری طرف دیکھے بغیر بولی۔" اندر چلے جائیں۔۔"میں شکریہ کہہ کر اندر چلا گیا،تاہم میری گدی پر چیونٹیاں سی رینگ رہی تھیں ،مجھے احساس ہو رہا تھا کہ نزہت شیریں مجھے بے یقینی سے گھور رہی ہیں۔( نزہت شیریں صاحبہ کی ان ہی دنوں مجاہد بریلوی سے شادی ہوئی تھی ،مجاہد بریلوی بھی وہیں کام کرتے تھے۔۔۔۔ نزہت شیریں صاحبہ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا)
میں محمود شام صاحب کے کمرے کی طرف بڑھا۔ درواز ے پر ایک چق پڑی تھی اسے اٹھا کر اندر چلا گیا ۔سب سے پہلی نظر میں جو چیز دکھائی دی ،وہ بھٹو کی تصویرتھی جو سامنے والی دیوار پر فریم میں لگی ہوئی تھی۔اس کے نیچے ایک بڑی سی میز تھی اور بھٹو کی تصویر کے عین نیچے محمود شام بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔میرے اندر آنے پر بھی انہوں نے نظریں نہیں اٹھائیں۔ میں چند لمحے کھڑا رہا ،وہ لکھتے رہے ،میری ہمت نہیں ہوئی کہ آواز دیتا۔وہ کافی دیر تک لکھتے رہے ،پھر لکھ کے فارغ ہوئے تو کاغذوں کا پلندہ اٹھاتے ہوئے اسے فولڈ کیا اور ایک لفافے میں ڈال کر اٹھنے لگے تھے کہ مجھ پر نظر پڑی۔" جی۔ کس سے ملنا ہے۔۔۔؟"
" جی وہ۔محمود شام سے۔۔ مطلب۔۔ آپ سے۔۔ "میں بوکھلا کر بولا۔ اتنی دیر میں وہ واپس بیٹھ کر ایک گھنٹی بجا چکے تھے۔اگلے ہی لمحے کہیں سے نکل کر ایک دبلا پتلا نوکر کمرے میں آیا۔’’ جی صاحب۔ " اس نے آتے ہی پوچھا۔" کون ہے یہ۔اندر کیسے آگیا۔ کہاں تھے تم۔کوئی بھی اندر آجاتا ہے۔"میری تو وہ حالت کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔" جی میں، میں ابن آس ہوں۔۔ مجھے بلایا تھا آپ نے۔۔یہ۔۔ کارڈ۔مجھے ملا تھا۔۔۔"میں نے جلدی جلدی ہکلا کر کہا۔اور کارڈ ان کے سامنے رکھ دیا۔ انہوں نے کارڈ کو سرسری دیکھا ، پھر ملازم سے کہا۔ نزہت صاحبہ کو بھیجیں۔"وہ سر ہلا کر چلا گیا۔چند لمحوں میں نزہت صاحبہ اندر آ گئیں۔" آپ نے بلایا شام جی۔؟"
" بھئی کون ہیں یہ۔۔ ؟"شام جی۔ آپ نے کہا تھا نا۔ ابنِ آس کو بلانے کے لیئے۔یہ کہہ رہے ہیں کہ ابنِ آس ہیں۔۔" نزہت صاحب نے جلدی جلدی کہا۔تب شام جی نے پہلی بار میری طرف غور سے دیکھا۔کچھ سوچتے رہے۔پھر نزہت شیریں صاحبہ کو جانے کا اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔" واقعی تم ابنِ آس ہو۔۔۔؟"
" جی۔۔" یہ جو کہانیاں آتی ہیں ہمارے پاس۔۔ وہ تم ہی لکھتے ہو۔؟" شام جی نے پھر پوچھا۔میں نے اثبات میں سر ہلایا۔انہوں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا ،اور بہت عزت دیتے ہوئے کہا۔" تشریف رکھیے۔" میں کرسی پر بیٹھ گیا۔" میں سمجھا نیچے سے کوئی مزدور آیا ہے۔ نیچے کام ہو رہا ہے اس لیئے۔۔ یہ حلیہ کیا ہے آپ کا۔۔"" جی میں مزدوری کرتا ہوں۔ یہاں قریب میں پلروں کی بھرائی جلد ختم ہوگئی تھی۔اس لیئے وہاں سے فارغ ہو کر ڈھونڈتے ہوئے آگیا۔۔ "شام جی میری طرف دیکھتے رہے ،سوچتے رہے۔پھر گھنٹی بجائی۔ملازم گھنٹی کے جن کی طرح حاضر ہو گیا۔" اچھی سی چائے۔۔ اور نیچے سے کچھ سموسے لے آؤ۔۔"ملازم چلا گیا۔۔ شام جی مجھ سے پوچھتے رہے کہ مزدوری کیوں کرتا ہوں۔۔ کہانیاں کیسے لکھتا ہوں کب سے لکھ رہا ہوں۔کتنی لکھ چکا ہوں۔۔وغیرہ اور گھر کے حالات۔۔ میں انہیں تفصیل سے بتاتا رہا وہ حیرت سے سنتے رہے۔ پھر تعلیم کا پوچھا۔۔میں نے بتایا کہ تعلیم کو خیرباد کہہ کر بہت چھوٹی عمر میں مزدوری شروع کر دی تھی۔اتنی دیر میں سموسے اور چائے آگئی۔بھوک شدید تھی ،سموسے تازہ تازہ اور گرما گرم۔۔چائے میں سے بھی بھاپ اڑ رہی تھی۔ چائے اور سموسوں کے دور کے بعد انہوں نے ایک کاغذ اور ایک قلم میری طرف بڑھایا۔" کوئی کہانی لکھو۔" میں نے چونک کر دیکھا۔" ابھی۔؟"
" ہاں۔۔ " میں سمجھ گیا کہ شاید انہیں ابھی بھی یقین نہیں آیا ہے کہ میں ہی ابنِ آس ہوں۔میں نے قلم تھاما اور فوری طور پر ایک کہانی لکھنی شروع کر دی۔کہانی کا نام تھا۔" چھوٹا "ابھی ایک ہی صفحہ لکھا تھا کہ انہوں نے کہا۔" دکھاؤ۔۔"میں نے کاغذ ان کی طرف بڑھا دیا۔وہ پڑھتے رہے۔ پھر بولے۔" کتنے پیسے کماتے ہو مزدوری سے۔۔""جی پچاس روپے روز۔ کاریگر بن گیا ہوں۔" انہوں نے بے یقینی سے میری طرف دیکھا ،میں بہت پتلا دبلا تھا۔ اور بہت کم عمر بھی۔ اتنا کم عمر کاریگر انہوں نے شاید ہی دیکھا ہوگا۔" چھٹیاں بھی ہوتی ہوں گی۔؟" نہیں۔ " میں نے جواب دیا۔" جب سے مزدوری شروع کی ہے۔ایک دن بھی چھٹی نہیں ہوئی۔ صبح اخبار بھی ڈالتا ہوں گھروں میں۔ اور رات کو جلدیں بھی بناتا ہوں کتابوں کی۔۔ ایک لائبریری بھی ہے میری۔۔"شام جی نے دل ہی دل میں حساب لگایا اور بولے۔ اس کا مطلب ہے۔۔ایک مہینے میں پندرہ سو روپے کما لیتے ہو۔؟" جی۔ " اگر ہم تمہیں صاف ستھرے کپڑے پہن کر میز کرسی پر کام کرنے کا موقع دیں تو مزدوری چھوڑ دو گے۔" شام جی نے ٹھہر ٹھہر کر پوچھا۔" پیسے کتنے دیں گے۔۔؟ میں نے جلدی سے کہا۔"اتنے ہی۔ پندرہ سو روپے۔۔ " انہوں نے جواب دیا۔" ہاں۔چھوڑ دوں گا مزدوری۔۔ " میں نے جلدی سے جواب دیا۔" تو ٹھیک ہے۔۔آپ کل سے صاف ستھرے کپڑے پہن کر یہاں آجائیں۔۔ آج سے آپ ٹوٹ بٹوٹ کے ایڈیٹر ہیں۔ لیکن ایک شرط ہے۔۔؟میں خوشی کے مارے کانپنے لگا۔" جی کیسی شرط۔۔؟"" آپ پڑھائی دوبارہ شروع کریں گے۔ "
" جی ضرور۔ "انہوں نے ایک فائل بکس اٹھا کر میری طرف بڑھایا ،اسی وقت نزہت شیریں دروازہ نوک کر کے اندر آئیں۔" شام جی۔۔ شام بارک پوری آئے ہیں۔"
" اچھا۔۔ " شام جی نے مختصرا کہا ،پھر بولے۔" نزہت صاحبہ۔ابن آس صاحب کو ان کی میز دکھادیں۔اب ٹوٹ بٹوٹ یہ دیکھیں گے۔آپ کا مسئلہ حل ہوگیا۔ یہ
کہانی کے بڑے آدمی ہیں۔"نزہت شیریں نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔اور مجھے لے کر باہر آگئیں۔بہت عزت کے ساتھ انہوں نے اپنے سامنے کی میز دکھائی اور کہا۔" یہ آپ کی میز ہے۔ ڈبا یہاں رکھ دیں۔۔اور کل صبح نو بجے سے آجائیں۔۔" لیکن مجھے تو کوئی کام نہیں آتا۔۔ "گھبرائیں مت۔۔ ہمیں بھی کچھ نہیں آتا تھا۔شام جی ہیں۔وہ سب سکھا دیں گے۔۔۔"
یہ تھی محمود شام سے میری پہلی ملاقات۔اور صحافت میں میری انٹری کا ناقابل فراموش واقعہ۔ہر سال 5 فروری کو ہم بچوں کے ادیب شام جی کی سال گرہ منانے ان کے گھر جاتے ہیں ،ان میں وہ سارے ادیب موجود ہوتے ہیں جنہیں شام جی نے مختلف وقتوں میں ٹوٹ بٹوٹ کا ایڈیٹر بنایا، انہیں سکھایا ،اور لکھنے پڑھنے والوں کی ایک نسل تیار کی۔۔ہر سال جب بھی شام جی سے ملنے جاتا ہوں۔تو یہ واقعہ کسی فلم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔۔ اور میرے دل سے شام جی کے لیئے دعاؤں کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔۔ حنیف سحر کے بعد محمود شام وہ آدمی تھے جنہوں نے میری زندگی بدل ڈالی۔
شام جی کا وہ فقرہ " یہ کہانی کے بڑے آدمی ہیں۔" میں کبھی نہیں بھول سکا۔جب کبھی بھی کہانی لکھتے لکھتے اٹکتا ہوں تو اکثر یہ فقرہ میرے ذہن میں گونجتا ہے اور میرے اندر ایک بار پھر وہ اعتماد پیدا ہوجاتا ہے کہ قلم اٹکتے اٹکتے پھر سے چلنے لگتا ہے۔شام جی بچوں کوخاص طور پر نوجوان ادیبوں کو اتنی عزت دیتے تھے اور دیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ان کے لگائے ہوئے پودے آج تن آور درخت بن چکے ہیں اور شکر ہے کہ آج بھی شام جی کی چھاؤں میں ہیں۔ان کے روشن کیے ہوئے تمام چراغ آج بھی روشن ہیں اور جب ضرورت موجود ہوتی ہے شام جی سے مزید روشنی مل جاتی ہے۔
( آج اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ نام ہے۔۔۔عزت ہے۔۔ شہرت ہے۔۔ اور جتنی ضرورت ہوتی ہے دولت بھی مل جاتی ہے۔۔اس سب کا کریڈٹ ماں کی دعاؤں کے بعد حنیف سحر اور محمود شام کو جاتا ہے )
اللہ سے دعا ہے کہ شام جی کو لمبی عمر عطا فرمائے اور انہیں ہمیشہ خوش رکھے۔۔آمین۔۔( شام جی کی سال گرہ کے موقع پر )