مولانا رومی کی رباعیوں کے حوالے سے ایک مشہورقصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص کسی بستی میں روزانہ پابندی کے ساتھ پانچ وقت کی اذان دیتا تھا جس کی آواز اتنی بھدی تھی کہ لوگ بدظن ہونے لگے ۔ مگر بستی کے بااخلاق لوگ ان کے خلوص ، پرہیز گاری اور وقت کی پابندی کی وجہ سے منع نہیں کر پارہے تھے کہ وہ اذان نہ دے۔ ایک دن بستی کے کچھ لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کی بستی سے کوئی قافلہ حج کو روانہ ہونے والا ہے ۔ بستی کے لوگوں نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ موذن کے زاد راہ کا انتظام کر کے انہیں حج کیلئے روانہ کردیا جائے ۔ اس طرح موذن صاحب کاایک مقدس فریضہ بھی ادا ہوجائے گا اور ہمیں ان کی آواز سے بھی چھٹکارا مل جائے گا ۔ قدیم زمانے میں چونکہ پیدل سفر کی وجہ سے مسافت طویل اور مشقت سے بھر پور ہوا کرتی تھی اس لئے اکثر لوگ قافلوں میں سفر کیا کرتے تھے اور پھر قافلے والے راستے میں کسی بستی میں کچھ دنوں تک ٹھہر کر آگے کے سفر کا بھی انتظام کر لیا کرتے تھے ۔ موذن صاحب جب اس قافلے کے ساتھ روانہ ہوئے تو سفر کے دوران ان کے قافلے کا پڑاؤ ایران کی ایک بستی میں ہوا۔وہاں پہنچ کر انہوں نے یہاں بھی پابندی کے ساتھ مقامی مسجد میں اذان دینا شروع کر دی۔ اسی دوران میں ایک دن بستی کا ایک غیر مسلم پارسی ایک تھیلے میں اشرفیاں بھر کر لایا اور موذن صاحب کو یہ کہہ کر دیکر چلا گیا کہ یہ میری طرف سے آپ کو حج کے سفر کیلئے تحفہ ہے ۔ موذن نے خوشی خوشی لوگوں سے اس کا تذکرہ کیا تو لوگ بہت ہی حیرت میں پڑ گئے کہ آخر وہ شخص جو ہمارے مذہب سے بغض رکھتا تھا اسے موذن صاحب پر اتنا رحم کیسے آیا ۔ لوگوں نے پارسی سے پوچھا کہ تم کو تو ہمارے مذہب سے بیر تھا پھر آخر یہ نئے موذن پر فراخدلی کے مظاہرے کا کیا مطلب ۔ پارسی نے کہا کہ میری لڑکی اس سے پہلے اذان کی آواز سے اتنا متاثر تھی کہ وہ روز مجھے پریشان کرتی کہ وہ اسلام قبول کرنا چاہتی ہے مگر نئے موذن صاحب کی آواز نے اسے اپنا فیصلہ بدلنے کیلئے مجبور کر دیا ہے اس لئے میں نے خوش ہوکر یہ تحفہ نئے موذن کو دیا ہے کہ جس مذہب کو قبول نہ کرنے کیلئے میں برسوں اپنی لڑکی کو بازنہیں رکھ سکااس موذن نے چند دنوں میں یہ کام پورا کردیا ۔ اس تمہیدی گفتگو سے ہمارامقصد یہ ہے کہ کبھی کبھی ہم مسلمان خود اپنے اعمال اور اپنی طرز زندگی یا اچھی بات کو غلط ڈھنگ اور طریقے سے پیش کرکے بھی دوسروں کو متنفر کرتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔ایک بار ہمارے ایک ساتھی نے اسی اذان کے معاملے کو لیکر ایک مسجد کے موذن سے شکایت کی کہ وہ اذان تھوڑا اچھے اندازسے پکاریں ۔ موذن نے جواب دیا کہ کیا چار ہزار کی تنخواہ میں محمد رفیع کی آواز میں پکاروں ۔ موذن کی اپنی بات بھی درست تھی کہ چار ہزار روپئے کسی کے گزارے کیلئے بہت ہی کم ہوتے ہیں لیکن موذن نے بھی یہ نہیں سوچا کہ اذان کوئی فن یا پیشہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی دعوت ہے جو دین کے ایک اہم فریضے کی طرف لوگوں کو بلاتی ہے اور اس پکار میں اللہ اور اس کے رسول کی ذات کا مقدس نام بھی آتا ہے جس کی ادائیگی میں اتنا اہتمام تو ہونا ہی چاہیے کہ سننے والا خود یہ پوچھنے کیلئے بے چین ہو جائے کہ آخر یہ آواز کیسی ہے اور یہ کس ہستی کا مقدس نام ہے جس کی طرف بلانے کی دعوت دی جارہی ہے ۔ شاید ہمارے موذن حضرات کو یہ بھی احساس نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ حکومت میں جب بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے اذان پکارنے کی درخواست کی گئی تو نہ صرف حضرت بلال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام آتے ہی زارو قطار رو پڑے بلکہ اس وقت مدینے میں موجود تمام صحابہ کرام کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے ۔ ہندوستان میں چونکہ مسلم حکمرانی کے بعد سارا نظام ہی درہم برہم ہو چکا ہے اس لئے اب کسی عالم کسی مولوی یا کسی مسجد کے ٹرسٹی جو اکثر دین کی اصل روح سے دور ہیں انہیں نصیحت کرنا بھی بے فیض معلوم ہوتا ہے لیکن چونکہ اسی ماحول میں کچھ لوگ اپنے اجتماعات اور کانفرنسس میں لاکھوں روپئے خرچ کر کے اصلاح معاشرے کی جدوجہد میں بھی مصروف ہیں اس لئے ہم صرف ایسے لوگوں کو ایک تصویر دکھا سکتے ہیں کہ کرنے کے کام یہ بھی ہیں کہ کم سے کم اپنے معاشرے اور مساجد و مدارس اور مکا تب کی اصلاح کر لی جائے ۔ اسی سلسلے کی ایک تصویر یہ بھی ہے کہ ہم اور ہمارے کچھ ساتھی ممبئی سے قریب شہر بھیونڈی کے ایک رشتہ دار سے ملنے گئے ۔ ہمارے عزیز نے شام کے وقت گھر کی بالائی منزل پر چائے کا انتظام کر رکھا تھا تاکہ سب لوگ کھلی فضا اور ہوا کا مزہ بھی لے سکیں ۔ ہم سب چائے کے بعد بحث ومباحثے میں مشغول تھے کہ مغرب کی اذان ہو گئی ۔ ہم نے بمشکل اذان کی آواز تو سنی لیکن جس طرح بیک وقت مختلف مساجد کے لاؤڈ اسپیکر سے نکلنے والی آوازیں ایک دوسرے سے ٹکرا کر ارتعاش پیدا کر رہی تھیں ہمارے لئے نہ صرف اذان کے الفاظ کو سمجھنا مشکل ہو رہا تھا بلکہ ایک عجیب سی گھٹن کی کیفیت بھی پیدا ہورہی تھی کہ کاش اطراف کی تمام مساجد کی ایک ہی اذان ہوتی اور ایک اچھے قاری کو اتنی تنخواہ دے دی جاتی کہ وہ یہ شکایت ہی نہ کرتا کہ کیا میں چار ہزار میں محمد رفیع کی آواز میں اذان دوں لیکن بدقسمتی سے ہم اتنے مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں کہ ایسا سوچنا بھی گناہ ہے ۔ ہندوستان میں وہ چاہے کانپور ہو ، لکھنئو ہو یا مہاراشٹر کا بھنڈی بازار مدنپورہ ممبرا بھیونڈی مالیگاؤں اورنگ آباد کے علاوہ حیدرآباد ، دہلی اور مدراس کے مسلم علاقے ان مسلم بستیوں میں کچھ غیر مسلم بھی بستے ہیں اور اذان کی یہ دعوت بیشک ان کیلئے بھی ہوتی ہے ۔ خوش قسمتی سے ہم مسلمان کسی بھی طرح اذان کا ثواب تو لوٹ لیتے ہیں لیکن غیر مسلموں کو اگر ہماری اس نہ سمجھ میں آنے والی دعوت اور پکار سے تکلیف پہنچتی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ ہمارے ملک میں مسلم بستیوں کی مسجدوں میں اذان کا یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ مسجدوں کے متولی امام کی قرأت کو تو اہمیت دیتے ہیں لیکن موذن کی قرأت کا کوئی دھیان نہیں دیا جاتا جبکہ امام کی قرأت سے تو صرف نمازی ہی مستفید ہوتے ہیں اگر امام کی قرات تھوڑی سی کمزور بھی ہے تو اسے صرف نمازیوں کو ہی برداشت کرنا ہے لیکن موذن کی آواز ان کو بھی متاثر کرتی ہے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں یا غیر مسلم ہیں ۔ بدقسمتی سے میں نے کبھی کسی مسجد کے امام ، مقرر یا خطیب کو نہیں دیکھا کہ وہ اپنے جمعہ کے خطبات یا اجتماعات میں اس مسئلے کو بھی موضوع بنائیں ۔اس بحث کا ایک تیسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جس طرح ہندوستان میں بے شمار مسلکی تنظیمیں دعوت و تبلیغ کے کاموں میں مصروف ہیں ، بظاہر ساری تنظیموں کا دعویٰ ایک ہی ہے کہ دوڑو اس رب کی طرف جس کی جنت زمین وآسمان سے بھی زیادہ وسیع ہے ۔ لوگ اپنے مسلک کے اجتماعات اور علماء کی شعلہ بیان تقریر اور چیخ و پکار سے اس جنت کی لالچ میں دوڑ بھی رہے ہیں لیکن اس دوڑنے میں بھی ثواب لوٹنے والے صرف مسلمان ہی ہیں اور مسلمانوں میں بھی سارے مسلکوں کی دوڑ اسی طرح الگ الگ ہے جیسے کہ یہ لوگ اپنی اپنی مسجدوں کی طرف اذان کی آواز سن کر دوڑتے ہیں ۔ لیکن مسلمانوں کی کسی بھی مسلکی تنظیم کو یہ احساس نہیں کہ مختلف مساجد کی اذان کی طرح ان کی دعوت و تبلیغ اور اجتماعات کے مخاطب غیر مسلم بھی ہیں اور ان کا یہ طریقہ بھی آپس میں ٹکرا کر غیر مسلموں کے سامنے دھندلی تصویر پیش کر رہا ہے ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے محلے میں رہنے والے ہندو لڑکے بھی جاننے لگے ہیں کہ مسلمانوں کے کس مسلک کا کس مسلک سے کیا اختلاف ہے ۔ اب آپ ندازہ لگائیں کہ ایسے میں مسلمان کس طرح غیر مسلموں میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کر سکتا ہے اور دیگر مذاہب کے لوگ کس تنظیم کی دعوت پر کس طرح لبیک کہیں گے ۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے اندر موجود مختلف ذات برادری اور مسلکی اختلاف بذات خود ایک فتنہ ہے اور ہندوستان میں دعوت وتبلیغ اور دعوتی اجتماعات اور کانفرنسس میں چمپیئن کہلائی جانے والی تنظیمیں خود اسلام کی اصل روح سے بہت دور جاچکی ہیں ۔ روایتی علماء اور دعوت و تبلیغ میں مصروف تنظیموں کے افراد سے اگر برجستہ یہ سوال کر دیا جائے کہ دعوت کیا ہے ، دین کسے کہتے ہیں ، ہم مسلمان کیوں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان الدین عنداللہ الاسلام اور ادخلو فی السلم کافۃً سے کیا مراد ہے تو شاید کچھ لوگ رٹے رٹائے لفظی اور لغوی مفہوم ضرور پیش کردیں لیکن چند لوگ ہی تشریح کر پائیں گے حالانکہ ہم یہ بات ایک ایسے جدید تعلیم یافتہ دور میں کہنے کی جرأت کر رہے ہیں جب ملک کے ہزاروں مدارس سے لاکھوں علمااور مفتی سند لے کر باہر آ رہے ہیں اور ایک مسلک کے علمانے دوسرے مسلک کے لوگوں کو باطل قرار دینے کیلئے اپنی دلیلوں سے صفحات کے صفحات سیاہ کر دیے ہیں ۔ کاش ہم سمجھتے اور سمجھا پاتے کہ مسلمانو یہ تمہارے مختلف مسالک اور مدارس کی طرف سے دی جانے والی مختلف دعوت و تبلیغ اور تعلیم واصلاح کی باتیں بھی تمہاری اذان کی طرح محض پیشہ وارانہ فن اور فلسفے کے سوا کچھ نہیں ۔ اقبال نے شاید ہمارے اسی معاشرے کی منظر کشی کرتے ہوئے کہا ہے کہ