سلطنتِ عثمانیہ کا نام کسی نسل یا قوم سے نہیں بلکہ اس کے پہلے حکمران سلطان عثمان غازی کے نام سے منسوب ہے۔
عثمان غازی کے والد کا نام ارطغرل غازی تھا. اس وقت ترک قبیلوں کی شکل میں رہتے تھے یہ تمام قبیلے خانہ بدوش تھے. جہاں سر سبز علاقہ اور پانی نظر آیا، وہیں خیمے گاڑ کر ڈیرہ ڈال لیا. ان قبیلوں میں ایک قبیلے کا نام قائی قبیلہ تھا۔ قائی قبیلہ باقی قبیلوں سے کچھ بڑا اور طاقتور تھا۔ سلیمان شاہ اس قبیلے کا سردار تھا. یہ نہایت جنگجو قبیلہ تھا۔ سلیمان شاہ اور اس کے قبیلے کے مقاصد میں سب سے بڑا مقصد اسلام کی اشاعت تھی کیونکہ یہ وہ وقت تھا کہ مسلمان ہر جگہ سے کمزوری کاشکار تھے. منگول اپنا سر اٹھا رہے تھے. سلجوقی سلطنت اپنے زوال کے قریب تھی۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ مسلمانوں کی تعداد کو بڑھایا جائے۔ سلیمان شاہ کا انتقال ہو گیا. اس کے تین بیٹے تھے۔ منجھلہ بیٹا ارطغرل اپنے والد کا جانشین مقرر ہوا. اور قبیلے کا سرادر بنا۔
ارطغرل غازی بہادر، نڈر، جنگجو شخص تھا. جو اپنے قبیلے کا دفاع کرنا خوب جانتا تھا۔لیکن اس وقت منگول ہر طرف تباہی پھیلا رہے تھے۔ مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا. چنگیز خان کی فوجوں نے خوارزم شاہ سلطنت کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔ اس صورت حال میں ارطغرل منگولوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا. وہ اپنے قبیلے کو لے کر سلجوقی سلطنت کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ تقریبا چار سو کے لگ بھگ خاندان تھے۔راستے میں اس نے دیکھا کہ دو فوجیں آپس میں لڑ رہی ہیں۔ اس نے سوچا کہ کسی ایک کا ساتھ دینا چاہیئے. اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ لشکر کس کس کے ہیں۔ کچھ سوچ کر اس نے جو فوج ہار رہی تھی اس کا ساتھ دیا اور اپنے ان تھوڑے سپاہیوں کے ساتھ مخالف فوج پر اچانک اور بہت تیز حملہ کروایا۔ وہ فوج ڈر گئی اور سمجھی کہ ان کو کہیں سے مدد مل گئی ہے. اور وہ فوج جیتتے جیتتے ہار مان گئی۔بعد میں معلوم ہوا کہ جس فوج کا ساتھ دیا، یہ سلجوقی سلطان علاؤ الدین کی فوج تھی ۔مخالف فوج کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے. بعض کے نزدیک وہ بازنطینی عیسائی فوج تھی اور اکثر کے مطابق وہ تاتاری تھے۔ بہرحال سلطان ان کی بہادری سے بہت خوش ہوا اور ارطغرل کے قبیلے کو اپنی سلطنت میں اناضول کے قریب سقاریہ کے علاقے میں ایک جاگیر عطاکی اور یہ قبیلہ وہیں آباد ھو گیا۔ سلطان نے ان کو اجازت دی کہ سرحد کے ساتھ ساتھ علاقوں کو فتح کریں اور ان کو سلطنت میں شامل کریں۔ یہ علاقہ بازنطینی عیسائی سلطنت کے بالکل ساتھ جڑا ہوا تھا۔ ارطغرل نے کچھ ہی عرصے میں اپنی شجاعت و بہادری کا سکہ بٹھا دیا۔ ان فتوحات کا نتیجہ یہ ہوا کہ باقی بہت سے ترک قبائل بھی ارطغرل کے ساتھ مل گئے اور اسے اپنا سردار تسلیم کر لیا۔ ارطغرل، سلطان علاؤ الدین کے نائب کے طور پر لڑتا رہا اور اس کی طاقت میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا. ارطغرل نے بازنطینی سلطنت کے ایک بڑے متحدہ لشکر کو شکست دی۔ 1281ء میں نوے برس کی عمر میں ارطغرل کا انتقال ہو گیا۔ اس کا جانشین اس کا بیٹا عثمان غازی تھا۔ عثمان اپنے والد کی طرح پکا مسلمان، بہادر اور حوصلہ مند تھا۔ اس نے بھی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ادھر سلطان علاؤ الدین سلجوقی ایک جنگ میں شہید ہوئے. اس کے بعد اس کا بیٹا غیاث الدین بھی تاتاریوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ 1299ء میں سلجوق سلطنت بالکل ختم ہوگئی عثمان غازی نے اپنے تمام مفتوحہ علاقوں میں اپنی خود مختار حکومت کا اعلان کر دیا. یوں سلجوقی سلطنت سے علیحدہ عثمانی سلطنت قائم ہوئی۔ سلجوقوں کے لیئے یہ بات تشویش کا باعث ہوتی لیکن وہ اندرونی جھگڑوں کی وجہ سے مکمل زوال پذیر ہو چکے تھے۔ امیر عثمان غازی نے بہت سے شہروں اور قلعوں کو فتح کیا اور ینی شہر جو کہ برصہ کا ایک ضلع تھا، کو اپنا دارالحکومت بنایا سلطان عثمان نے مال خاتون سے شادی کی۔ اس سلطنت کے قائم ہونے کے بعد مسلمان متحد ہونا شروع ہوئے۔
برصہ کی فتح کے بعد سلطان عثمان بیمار ہوئے اور 1323ء کو وفات پائی مرنے سے پہلے اپنے بیٹے اورخان کو ایک طویل نصیحت کی. اورخان سلطان بنا اور اپنے باپ کی پالیسی کو جاری رکھا. جب سلطان عثمان کا انتقال ہوا تو سلطنت کا رقبہ سولہ ہزار مربع کلومیٹر تھا. ڈیڑھ سو سال کے اندر اندر یہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت بن گئی. سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر کے نبی کریم کی حدیث بھی(بقیہ ص پر)
پوری کر دی اور اپنے بہترین ہونے کا ثبوت دیا.
سلطنتِ عثمانیہ کے نویں (9th) سلطان ، سلطان سلیم اول نے مصر میں موجود عباسی خلافت ختم کر کے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا. یوں خلافت بھی ان کی ہوئی اور سلطان سلیم اول سلطنتِ عثمانیہ کے پہلے خلیفہ بنے. یہ سلطنت 623 سال قائم رہی اور 1922ء میں ختم ہوئی۔
سلطان عثمان کے نام سے ہی سلطنت کو سلطنتِ عثمانیہ کہا گیا. انگلش میں اسے "Osman Empire‘‘ کہتے تھے. کچھ علاقوں کے لوگ اسے اپنی زبان کی وجہ سے "Othman Empire‘‘کہتے تھے. آہستہ آہستہ اسے "Othman’’ سے "Ottoman Empire‘‘ کہا جانے لگا. پھر اس کا نام یہ ہی پڑ گیا۔