رات کے دس بج چکے تھے ۔ایک سٹوڈنٹ کا فون آیا۔ اس نے کہا ، سر ، پلیز میرے ابو سے بات کریں ۔ میں نے کہا ، کیا بات؟ اس نے کہا کہ سر آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ آج کل او لیول کے امتحانات ہو رہے ہیں۔ اور کل میرا اسلامیات کا پیپر ہے ۔ لیکن میرے ابو مجھے اسلامیات ریوائز نہیں کرنے دے رہے ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ فزکس پڑھو ، فزکس ۔ کیوں وقت ضائع کر رہے ہو ۔ دو دن بعد فزکس کا پیپر ہے ۔ اسے ریوائز کرو۔اسلامیات بھی کوئی پڑھنے کی چیز ہے ؟ یہ فون سننے کے بعد میں موبائل ہاتھ میں لیے کتنی ہی دیر سوچتا رہ گیا کہ اس پیدایشی مسلمان سے کیسے اور کیو ں کر بات کروں؟
میں نے سکول میں بچوں کے لیے قرآن مجید کے ترجمے کی کلاس شروع کررکھی ہے ۔ جس کا مقصد ان میں یہ صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ وہ بغیر گرامر کی الجھنوں میں پڑے قرآن کا مفہوم تھوڑا بہت سمجھ سکیں۔ اس کے لیے انہیں الفاظ یاد کروائے جاتے ہیں اور یہ کام ہفتے میں دو بار ،صرف ۱۵ ، ۱۵ منٹ کے لیے ہوتا ہے ۔ اس کے لیے میں انہیں چھوٹی سورتیں لفظاً لفظاً ترجمہ کر کے فوٹو کاپی کر واکے دے دیتا ہوں اور انہیں کہتا ہوں کہ وہ گھر میں روزانہ صرف پانچ منٹ اسے دہرا لیا کریں۔ میرے پاس دسویں کلاس کے بچے آئے اور کہنے لگے کہ سر پلیز ہمیں یہ فوٹو کاپی نہ دیا کریں بلکہ میل کر دیا کریں ،ہم کمپیوٹر پہ پڑھ لیا کریں گے ۔ میں نے کہا اس کی وجہ ؟وہ کہنے لگے کہ سر،جب ہم یہ پڑھتے ہیں تو اگرہمارے والدین دیکھ لیں تو ہمیں ڈانٹتے ہیں کہ کیوں وقت ضائع کرتے ہو۔ کیمسٹری او رمیتھ پڑھو قرآن بھی کوئی سیکھنے اور پڑھنے کی چیز ہے ؟
ایک پڑھی لکھی تیز طرا ر خاتون والدین کی میٹنگ کے دن سکول آئی اور مجھے کہنے لگی کہ آخر آپ لوگ اسلامیات پڑھا کر بچوں کاوقت کیوں ضائع کرتے ہیں۔ اگر یہی وقت وہ باقی مضامین کو دیں تو کتنا بہتر رزلٹ آئے ۔ میں حیرانی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ اس نے مزید کہا کہ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ ‘الف’ کے ابو فلاں دینی جماعت کے باقاعد ہ ممبر ہیں اور وہ زمانہ طالب علمی میں بہت ہی متحر ک تھے انہوں نے ساری تفاسیر پڑھ رکھی ہیں اور اس نے کہا کہ میں خود بھی یونیورسٹی میں تمام دینی محافل میں جایا کرتی تھی ایسے میں ‘ الف’ کو اسلامیات پڑھنے کی آخرکیا ضرورت ہے ۔ میں خاموشی اور تاسف سے اس کے دلائل سن رہاتھا اور سوچ رہاتھا کہ اس خاتون نے یہ کیوں نہیں کہا کہ میں اور میرا خاوند روزانہ کھانا کھاتے ہیں ایسے میں ہمارے بیٹے کو کھانے کی کیا ضرورت ہے ؟
یہ تو ہمارے انفرادی اور خاندانی رویوں کی ایک جھلک تھی اب آتے ہیں اداروں کے رویے کی طرف۔
ڈاکٹر عبدالرزاق مرحوم مجھے ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے پاس لے کر گئے ۔ وائس چانسلر صاحب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کے لیے اسلامیات کا سلیبس ترتیب دلوانا چاہ رہے تھے اور ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ میں ان کایہ کام کردوں۔ انہوں نے مجھے ایک ہفتے کا ٹائم دیا ۔ ایک ہفتے کے بعد دوبارہ میٹنگ ہوئی جس میں اہم پروفیسر حضرات بھی شامل تھے ۔ میں نے سلیبس کا خاکہ پیش کیا ۔ سب نے بیک زبان کہا its too much وائس چانسلر صاحب نے کہا جناب ہم ہفتے میں صرف ایک پیریڈ دینا چاہتے ہیں جبکہ میرا خاکہ ہفتے میں دو پیریڈ کے لیے تھا ۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے خود ہی بہت کم رکھاہے ،اتنا تو ہر مسلمان کو جاننا ہی چاہیے ۔ انہوں نے کہا یہ ممکن نہیں اسے اور کم کریں۔ میں نے کہا اور کم کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ اور ان سے عرض کیا کہ اگر آپ اس کم سے کم پہ بھی راضی نہیں تو آخر آپ یہ تکلف کر ہی کیوں رہے ہیں؟ وائس چانسلر صاحب ہنس دیے اور کہنے لگے جناب ، نہ ہمارے طالب علم پڑھناچاہتے ہیں نہ ہم پڑھانا چاہتے ہیں ، یہ تو اصل میں ایچ ای سی کا تقاضا ہے جسے پورا کرنا ضروری ہے ورنہ ڈگری valid نہیں ہوگی۔بس آپ فارمیلٹی پوری کر دیں۔ میں معذرت کر کے اٹھ آیا لیکن وہی فارمیلٹی بہرحال انہوں نے کہیں اور سے پوری کروا لی۔
یہ یونیورسٹی ایک کمرشل قسم کا ادارہ ہے ایسے تجارتی تعلیمی اداروں سے تو ہمیں کوئی گلہ نہیں لیکن وہ ادارے جن کی وجہ تاسیس ہی دین اور دینی علوم کا احیا تھا اوریاوہ ادارے جو عموماً اپنے نام کے ساتھ اسلامی قسم کا سابقہ یا لاحقہ لگانا پسند کرتے ہیں۔ ان کا حال بھی الا ماشاء اللہ یہ ہے کہ وہاں بھی اول درجہ ہمیشہ میتھ ، فزکس ،کیمسٹری او رانگلش کو حاصل رہے گا ۔ درجہ دوم اردو، اکنامکس جیسے مضامین کا ہو گا ، درجہ سوم مطالعہ پاکستان اور معاشرتی علوم کا اور درجہ چہارم اسلامیات کا ہو گا۔ یہ ایک خاموش ترتیب ہے جس پر تمام تعلیمی اداروں کاسکوتی اجماع ہو گیا ہے اور اسی کے مطابق وہ ان مضامین اور ان مضامین کے اساتذہ سے سلوک کرتے ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان اداروں سے ڈاکٹر ،انجینئر اور سائنس دان تو پیدا ہو رہے ہیں لیکن ‘‘انسا ن’’ نہیں پیدا ہو رہے ۔ انسان کو انسان معاشرتی اور دینی علوم بناتے ہیں لیکن میں نے اپنے تدریسی کیرئیر میں کبھی نہیں دیکھا کہ کبھی کسی ادارے کے انتظامی بزرجمہر اس بات پہ سر جوڑ کے بیٹھے ہوں کہ ہمارے بچے دس بارہ سال سکول میں قرآن اور اسلامیات پڑھتے ہیں لیکن آخر وہ اس قابل کیوں نہیں ہوتے کہ قرآن صحیح پڑھ سکیں یا سمجھ سکیں یا دینی مسائل سے کما حقہ آگہی حاصل کر سکیں اور انہیں زندگی میں نافذ کر سکیں۔اس کے برعکس اگر انگلش بولنے میں کوئی کمی آجائے یا میتھ فزکس کا رزلٹ نامناسب آجائے تو دوڑیں لگ جاتی ہیں ، میٹنگز پہ میٹنگزہوتی ہیں ،ایک ہلچل ہے جو برپا ہوجاتی ہے او ر آخر خرابی تلاش کر لی جاتی ہے اور اس کی اصلا ح کر دی جاتی ہے ۔اسی لیے مجھے یقین ہے کہ اگر آج حکومت یہ اعلان کرے کہ تمام معاشرتی اور دینی علوم کے مضامین ختم کیے جار ہے ہیں تو شاید تھوڑ ابہت احتجاج ہو گا ، دو چار دن آوازیں اٹھیں گی اور پھر خاموشی چھا جائے گی لیکن اگر یہ اعلان کیا جائے کہ تمام میڈیکل کالج اور انجنیئرنگ یونیورسٹیاں بند کی جارہی ہیں تو ایک طوفان ہے جو برپا ہوجائے گا اور جب تک یہ ادارے بحال نہ ہوجائیں گے قوم چین سے نہ بیٹھے گی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر ان تمام سائنسز کواپنی اور اپنے بچوں کی ضرورت سمجھتے ہیں۔جبکہ دین اور دینی علوم کو ضرورت نہیں بلکہ تبرک ، تقدس اور توسل کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ انسان ہمیشہ اپنی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لیے تگ ودو اور جد وجہد کرتا ہے ۔ تبرک ، تقدس حاصل ہو جائے تو اچھی بات ہے لیکن یہ کوئی ایسی ضرورت نہیں کہ اس کے لیے تن من دھن لگادیا جائے ۔
تاریخ اور ہمارے رویے یہ بتاتے ہیں کہ اسلامی ملکوں نے محض فارمیلٹی پوری کرنے کے لیے اسلامیات کو لازم کر رکھا ہے جبکہ ہم نے محض تبرکاً اس کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ہمارے اسی انفرادی اور اجتماعی رویے کا نتیجہ ہے کہ آج دینی علم کا شعبہ عام طور پر مجبوروں ، معذوروں ، ناداروں ، غریبوں اور یتیموں کے سپرد ہو کر رہ گیا ہے اور اسی کا لازمی اثر ہے کہ دین بحثیت مجموعی بھی مسلمان معاشروں میں یتیم ہو کر رہ گیا ہے۔
پیدایشی مسلمانوں اور ملکوں کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ان کا تعلق دنیا سے تو تن من دھن اور ضرورت کا ہوتا ہے جبکہ دین یا دینی علم سے ان کا رشتہ محض تبرک ، تقدس ، توسل ، رسم ، رواج اور ایک فارمیلٹی سے زیادہ نہیں ہوتا۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم دین اور دین علوم سے اپنا تعلق ضرورت کے درجے میں قائم نہیں کرتے ہمارے سچے اور اچھے مسلمان ہونے کا دعوی محض دعوی ہی رہے گا۔ اور اللہ کے حضور کھڑے ہو کر اس دعوے کا ثبوت فراہم کرنا شاید ہمارے لیے ممکن نہ ہو گا۔ ابھی وقت ہے کہ ہم دین اور دینی علوم کو اپنی ضرورت بنالیں تا کہ ضرورت کے وقت یہ ہمارے کام آئیں۔ایسا نہ ہو کہ جب ہمیں ان علوم کے ضرورت ہونے کا احساس ہو تو وقت بہت آگے نکل چکا ہواور ہم بہت پیچھے رہ چکے ہو ں ۔