سوئے حرم سے صحن حرم تك،2023 كا عمرہ

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جون 2025

آواز دوست

سوئے حرم سے صحن حرم تك،2023 كا عمرہ

محمد صديق بخاری

1994 سے لے كر 2023 تك اللہ كريم  نے اپنے اس بندے پر بارہا كرم فرمايا اور حج اور عمرے كے ليے بار بار اپنے در پہ حاضری كی سعادت نصيب فرمائی-اللّہم لك الحمد و لك الشكر- يہ سارےاسفار اكيلے بھی ہوئے ، والدہ ماجدہ كے ساتھ بھی ، اہليہ    ،ہمشيرہ و بھانجے كے ساتھ  اور دوست احباب كے ساتھ بھی – ليكن 2023 كا  سفر اس لحاظ سے  ممتاز ہے كہ اس سفر ميں بيگم كے علاوہ پہلی بار بيٹا ، بہو اور ايك سالہ پوتا بھی شامل تھے- اور يہ سفر اس اعتبار سے بھی منفرد تھا كہ پچھلے تيس برسوں ميں پہلی بار ايسا ہو رہا تھا كہ ميں يہ سفر اپنے خرچ پہ نہيں بلكہ بيٹے كی سپانسرشپ كے تحت كر رہاتھا- يوں  اس سفر ميں روحانی سرشاری كے ساتھ ساتھ تشكر كی ايك ايسی خوشی بھی  شامل تھی جيسی كسی باغبان  كواُس وقت ہوتی ہے جب اس كے ہاتھوں كے  لگائے پودے پھل دينا شروع كر ديں-

(پس نوشت- 2024 ميں دوسرے بيٹے كے ساتھ عمرے كے دوران بھی بعينہ يہی كيفيت رہی -فللہ الحمد)

ويزہ ، ٹكٹ ، ہوٹل كی بكنگ وغيرہ سارے انتظامات بيٹے كے ذمے تھے ، ہميں صرف سفر كرنا تھا- جاتے ہوئے لاہور سے بذريعہ ائير بلو مدينہ منورہ جانا تھا اور واپسی پہ سعودی ائر لائن نے ہميں جدہ سے لاہور لانا تھا-29جولائی 2023 كی شب ہمارا چھوٹا سا قافلہ رات 9 بجے  لاہور ائيرپورٹ پہنچا-فلائٹ ٹائم سوا بارہ بجے تھا -چونكہ چھ سات پروازوں كے اوقات ايك دوسرے سے متصل تھے اس ليے ائر پورٹ پر معمول سے زيادہ رش تھا-پورٹر كی خدمات حاصل كرنے كے باوجود ہميں باہر سے ليكر بورڈنگ پاس لينے تك ايك گھنٹہ بيت گيا اور مزيد ايك گھنٹہ اميگريشن پہ صرف ہو گيااور بمشكل ہم بورڈنگ ٹائم سے پندرہ منٹ پہلے لاؤنج ميں پہنچ سكے –

ائر پورٹ كے حالات وہی تھے جو پچھلے بيس برس سےمسلسل ديكھنے كو ملتے رہےہيں- پورٹر اپنی خدمت كا معاوضہ طے كرنے كے بعد بھی ہميشہ كی طرح اس بات پہ اصرار كرتے ہيں كہ انہيں طے شدہ اجرت سے زيادہ ادا كيا جائے اور اس كے ليے وہ بھكاريوں كی طرح مانگنے سے بھی گريز نہيں كرتے -چونكہ پچھلے كئی برس سے ديكھنے ميں يہ آ رہا ہے كہ ہمارے ہاں كامياب حكومت وہی قرار پاتی ہے جو عالمی سطح پر اچھی بھيك سميٹ سكے -اسی ليے بھيك مانگنے كا يہ كلچرہر ہر سطح پر مستحكم ہوتا جا رہا ہے اور جس كو جہاں موقع ملتا ہے وہ مختلف ناموں اور مختلف طريقوں سے بھيك مانگنے كی سعی  كرتا رہتا ہے – آپ ائير پورٹ پرواش روم استعمال كر كے تجربہ كر ليں ، صفائی پہ مامور اہل كاردروازے پہ كھڑا آپ كو ٹشو پيپر پيش كرے گا اور اس كے بعد توقع كرے گاكہ آپ اس كے بدلے اسے كچھ عنايت كريں-جو قوم ٹشو پيپر بھی بھيك مانگنے كے ليے استعمال كرتی ہو اس كی ترقی كا خواب بس ايك ديوانے كا خواب ہی ہے -اصل ميں جو چيز اوپر سے نيچے سفر كرتی ہے وہ تيزی سے نيچے پہنچ جاتی ہے جبكہ نيچے سے اوپر جانے كی رفتار اگرچہ اتنی تيز نہيں ہوتی ليكن ہوتی ديرپا  ہے-ہمارے مقتد ر حلقوں نے قانون شكنی، كرپشن، جھوٹ ، دھوكہ دہی اور بھيك مانگنے كو جس طرح مختلف ناموں سے رواج ديا ہے ، وہی چيز قوم كے نچلے طبقات ميں بھی تيزی سے سرايت كر گئی ہے- علمی افلاس تو خير بہت پہلے سے موجود تھا ليكن پچھلے چند سالوں سے اخلاقی گراوٹ جس تيزی سے سب طبقات خصوصاً نوجوانوں ميں سرايت كر گئی ہے اس كی وجہ پی ٹی آئی كے سربراہ كا ابتذال ، پھكڑ پن ، بازار ی زبان ، ركيك انداز اور كذب و افترا كو اپنا شعا ر بنانا  ہے كبھی كبھی تو يہ سوچ كے  رونا آتا ہے كہ كل كلاں كو مورخ ہمارا نام بھی ان لوگوں ميں لكھے گا  جنہوں نے  عمران خان كی شكل ميں پستی كا حد سے گزرنا ديكھا تھا –

قوموں كے عروج و زوال كے جس طر ح مادی اسباب ہوتے ہيں اسی طرح روحانی اسباب بھی ہوتے ہيں- اور ميرے خيال ميں پاكستانی قوم كے زوال كے بہت سے روحانی اسباب ميں سے ايك بڑا سبب  الفاظ كی حرمت كو پامال كرنا بھی ہے – ججوں ، جرنيلوں اور عمران خانی سياست دانوں كے ناپاك اتحاد ثلاثہ نے ميرے آقا ﷺ سے منسوب صادق   وامين اور رياست مدينہ، اسی طرح  اياك نعبد واياك نستعين  جيسے مقدس الفاظ كو ہر غلط جگہ اور ہر غليظ شخص كے ليے جس بے دريغ طريقے سے  استعمال كيا ہے وہ بھی اس سے پہلے پاكستان ميں كبھی نہ ہوا تھا-بہر حال اير پورٹ كے اندركسٹم ، اے ايس ايف اور اے اين ايف كے عملے كوبھی  حسب معمول بيزار پايا-سامان كھلوانا اور اسے چيك كرنا كسٹم كے عملے كا حق ہے اور اس حق كو يہ لوگ بڑی تعداد ميں استعمال  بھی كرتے ہيں ليكن لوگوں كے پيك شدہ سامان كو واپس پيك كرنا بھی اصلاً اُسی كی ذمہ داری ہے جس نے سامان كھولا ہے ليكن يہ ذمہ داری  پوری ہوتے ہوئے  ديكھنا آج تك نصيب نہيں ہوا-اے اين ايف  كی ڈيوٹی اصلاً بہت حساس ہے – ان كی ذمہ داری ہے كہ وہ اس بات پہ نظر ركھيں كہ كسی كے سامان كے ذريعے  منشيات نہ سمگل ہو جائيں  مگر انہيں سامان كے بجائے ہميشہ مسافروں كے پاسپورٹ چيك كرتے پايا گيا-كچھ ايسا ہی حال  اميگريشن كاؤنٹروں كا بھی ہے – وہاں بھی سينئر سٹيزن ، عورتوں اور غير ملكيوں  كے ليے مخصوص كاؤنٹرز پہ لگے بورڈ منہ چڑاتے رہتے ہيں اور لوگ  ہر ايك كاؤنٹر پہ چڑھ دوڑتے ہيں- نہ  عملہ مسافروں كو اس بات كی طرف متوجہ كرتا ہے اور نہ ہی مسافر اس كی پروا كرتے ہيں-اميگريشن كے بعد ہينڈ كيری سكينر سے گزارنا ہوتا ہے اور يہاں بھی عملہ جس كا بيگ چاہے كھلوا كر ديكھ سكتا ہے – يہاں ايك مسافر كو اے ايس ايف كے عملے سے الجھتے پايا- مسافر معترض تھا كہ دو بار سكين ہونے كے بعد بھی بيگ كھلوانے كی كيا ضرورت تھی جبكہ اے ايس ايف كے سب انسپكٹر كی بات كا لب لباب يہ تھا كہ مسافر كو ايك باوردی  افسر كے سامنے بولنے كی جرأت نہيں ہونی چاہيے -وردی كا خمار سر چڑھ كر بول رہا تھا- اگر مجھےاپنے پوتے كی فكر نہ ہوتی تو ميں كچھ دير اور ان كی "دلچسپ" بحث سن ليتا ليكن مجھے اس بات كی جلدی تھی كہ ميں بچے كوجلد از جلد لاؤنج ميں پہنچاؤں تا كہ ہمارا ننھاّ مسافرسيٹ پر بيٹھ كر كچھ آرام كر سكے – اللہ كريم كا لاكھ لاكھ شكر ہے كہ اُ س نے مدينے كے ننھے مسافر كو صبر ، حوصلہ اورہمت عطا كی – گھر سے لے كر ہوٹل تك كم و بيش بارہ گھنٹے پر محيط اس سفر ميں نہ تو وہ خود تنگ ہوا ،اور نہ ہی ہميں تنگ كيابلكہ اس كی خوشی قابل رشك تھی – يوں محسوس ہو رہا تھا كہ اس مبارك سفر كا وہ ہم سے  بھی زيادہ مشتاق ہے –

وقت بہت كم تھا ، لاؤنج ميں بھاگم بھاگ نماز عشا ادا كی – اتنے ميں بورڈنگ كا اعلان ہو چكا تھا چنانچہ ہم سب جہا ز كی طر ف بھاگے – جہاز ميں جا كر يہ خوشگوار حيرت ہو ئی كہ ایر بلو كا يہ جہاز ان كے دوسرے جہازوں كی نسبت بہتر اور آرام دہ تھا- خصوصاً سيٹوں كے درميان فاصلہ بہت مناسب تھا جس كی وجہ سے ٹانگوں كو ہلانا جلانا ممكن  ہو رہا تھا- اس كے برعكس واپسی پہ سعودي ائير لائن كے جہاز كی سيٹيں بہت ہی تنگ تھيں جس كی وجہ سے كافی دقت ہوئی- فلائٹ ٹائم كم و بيش پونے پانچ گھنٹے تھا-فلائٹ الحمدللہ ہموار رہی  اور عين وقت پر مدينہ منور ہ لينڈ كر گئی-چونكہ اہليہ كو ويل چيئر كی ضرورت تھی اور جہاز كے عملے نے بتايا تھاكہ آپ لوگ جہا ز ہی ميں انتظار كريں ، اس ليے ہم وہيں انتظار كرتے رہے- ليكن اسی اثنا  ميں، ميں نے باہر ديكھا كہ ويل چيئر تو موجود تھيں اور جس كا جی چاہ رہا تھا ان كو استعمال كر رہا تھا خواہ اس نے ٹكٹ ميں اس كا كرايہ ادا كيا تھا كہ نہيں – يہ منظر ديكھ كر ميں نے جہاز كے عملے كو بار بار اس طرف متوجہ كيا كہ ہم لوگوں نے باقاعدہ ٹكٹ كے ساتھ ويل چيیر كا كرايہ بھی ادا كيا ہے اس ليے براہ كرم ويل چيئر كے حصول ميں ہماری مدد كی جائے مگر ان كی طرف سے خاطر خواہ جواب نہ ملنے كی وجہ سے ہم با لآخرجہاز سے باہر آئے اور خود ہی بمشكل ويل چيیر حاصل كی – ويل چيئر ہيلپركو چونكہ پورے طريقہ كار سے آگہی ہوتی ہے اس ليے ہم اميگريشن سے بآسانی پار ہوگئے – سامان كے حصول ميں البتہ كچھ دير ہوئی كہ ويل چيئر بك كروائی ہوئی تھی اس كا كافی انتظار كرنا پڑا-

سامان كی ٹراليوں اور ويل چيئر كو دھكيلتے ہم جونہی باہر نكلے تو شيخ منور صاحب كا ہنستا مسكراتا چہرہ اپنا منتظر پايا- (شيخ صاحب پرانے شناسا ہيں ان كا تعارف عليحدہ تحرير كا متقاضی ہے اس ليے  اس تعارف كو اُ س تحرير تك موخر كرتے  ہيں) شيخ صاحب نے سب سے پہلے مدينے كے ننھے مسافر كو پيار كيا اور پھر ہم سب سے  سلام دعا كی – طے يہ پايا كہ پہلے نماز فجر ادا كی جائے اور پھر شہر مدينہ كی طرف سفر كيا جائے البتہ اس سے پہلے شيخ صاحب كی لائی ہوئی عجوہ كھجوروں اور  آب زم زم سے ناشتہ كيا- ائيرپورٹ سے باہر نكلنے كے دوران ميں موبائل سم بیچنے والی ایک کمپنی کا سٹال نظر آیا تو ارادہ كيا کہ ، باہر جانے سے پہلے سم لے لیتے ہیں چنانچہ ہم سب اسٹال کی طرف بڑھے اور انہیں درخواست کی کہ ہمیں ایک سم  عنایت کی جائے -وہاں پہ موجود شخص نے ہم سے پاسپورٹ طلب کیے- میں نے اسے اپنا پاسپورٹ دیا تو اس نے کہا کہ بائیومیٹرک کی ضرورت ہے يعنی آپ کی انگلیوں کے نشان دركار ہيں- میں نے اپنی انگلیاں  مشین پہ رکھیں لیکن مشین نے انہیں پہچاننے سے انکار کر دیا -نتیجتاً وہاں موجود صاحب نے ہمیں سم دینے سے انكار کر دیا - سم نہ ملنے کا افسوس تو نہیں ہوا ،البتہ اس بات کا افسوس ضرور ہوا کہ کاؤنٹر کے پیچھے جو عرب  نما شخص بيٹھاتھا اس کا رویہ انتہائی متکبرانہ اور جاہلانہ تھا- وہ اپنے کسٹمرز سے اس طرح ڈیل کر رہا تھا گويا كہ وہ اس کے کسٹمر نہيں بلکہ بھکاری ہيں- سعودی لوگوں کا اجنبی لوگوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کرنا ،یہ میرا  پہلا تجربہ نہ تھا، بلکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے بہت سے ناگوار تجربات ہو چکے تھے-بہر حال ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو مسجد نظر آئی ،   میں اور شیخ صاحب تو مسجد کی طرف بڑھے اور خواتین سے کہا کہ وہ  مسجد کے باہر صحن میں ہی نماز ادا کر لیں- اس دوران میں ہمارا  ننھامسافر  اپنی دادی جان کی  ویل چیئر پہ بیٹھا ماشاءاللہ کھیلتا اور ہنستا رہا- نماز کے بعد ٹیکسی کی تلاش شروع ہوئی لیکن یہ اندازہ نہ تھا کہ  اس  عمل میں اتنی مشکل پیش آئے گی- ٹیکسی تلاش کرتے کرتے ایک گھنٹہ بیت گیا- شیخ صاحب اس كوشش میں تھے کہ ہمیں  کم اجرت پر کوئی ٹیکسی مل جائے ليكن جب میں نے دیکھا کہ ان کے حساب سے ٹیکسی ملنا محال ہے تو میں نے عرض کیا کہ  جس ریٹ  پہ بھی ملتی ہے آپ ٹیکسی لے لیں، بہت دیر ہو رہی ہے ہم بھی بہت تھک چکے  اور بچہ بھی اب بے چین ہو رہا ہے - ہمیں جلد ہوٹل پہنچنا چاہیے- پبلک ٹرانسپورٹ یا ٹیکسیوں کا آسانی سے  ملنا بھی ان بہت سارے انڈيكيٹرز میں سے ایک ہے جن سے یہ اندازہ كيا جا سكتا ہے کہ کسی ملک کی حکومت عوام کے لیے کیا کر رہی ہے- اس حوالے سے سعوديہ جب بھی جانا ہوا، مايوسی كے علاوہ كچھ ہاتھ  نہ آيا- خصوصاً ٹیکسیوں کی لین دین میں جو کھینچا تانی، پکڑ دھکڑ اور بھاؤتاؤ کرنا پڑتا ہے وہ بہت ہی مشکل کام ہے- لگتا ہے کہ پبلك ويلفير كے اس كام كی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں - بہرحال ٹیکسی روانہ ہوئی ہماری منزل مدینہ منورہ میں ہوٹل نسک الھجرة تھا- 20، 25 منٹ میں ہم وہاں  پہنچ چکے تھے -وہاں پہنچتے ہی ہم نے شیخ صاحب کو تو رخصت کر دیا كيونكہ وہ بیچارے  بھی بہت  تھک چکے تھے -ہم نے کہا کہ اب ہماری منزل آگئی ہے ،آپ گھر جا کے آرام فرمائيں پھر ملیں گے لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ ابھی ایک "شاك "ہمارا منتظر ہے- بیٹے نے ہوٹل کی ریسیپشن پر اپنی بکنگ دکھائی تو انہوں نے بجائے کمپیوٹر پہ چیک کرنے کے سرسری سا دیکھ کر یہ کہہ ديا كہ جی اس  نام کی کوئی بکنگ ہمارے پاس موجود نہیں ہے- بڑی پریشانی ہوئی کيونکہ شیخ صاحب بھی جا چکے تھے اور اس قد ر تھكاوٹ ميں كوئی دوسرا ہوٹل ڈھونڈنا بھی بہت مشکل نظر آرہا تھا- کاؤنٹر پہ بیٹھی خاتون بار باردرخواست كے باوجود اپنے كمپيوٹر پر چيك كرنے  پہ آمادہ  نہ تھی صرف اس ليے كہ  اس طرح اسے اپنی كوليگ سے باتوں ميں وقفہ كرنا پڑتا  يہاں بھی نوٹ كرنے كی بات يہ تھی كہ اس طرح كا رويہ ان كا غير عربوں كے ساتھ تھا- عرب كسٹمرز كے ساتھ ان كی ڈيلنگ بالكل مختلف تھی- عربوں كی معاشی دوڑ ميں پيچھے رہنے كی ايك وجہ يہ بھی ہے كہ وہ  آج بھی دنيا كو عرب  اور عجم (عجم سے ان كی مراد،اصل ميں ايشيائی اور افريقی لوگ ہيں كيونكہ يورپين اور امريكن توان كے ليے "مائی باپ" كا درجہ ركھتے ہيں) كے حوالے سے ديكھتے  ہيں- اگر وہ كيپٹالزم كی روايت كو مدنظر ركھتے ہوئے دنيا كو كسٹمر اور نان كسٹمر يا كنزيومر يا نان كنزيومر كی نظر سے ديكھتے تو صورت حال مختلف ہوتی -بہر حال مجبوراً بيٹے نے  پاکستان فون کیا اورشكر ہے كہ پاكستانی سم كام كر رہی تھی -جن صاحب نے ہوٹل  كی بکنگ کروائی   تھی ان سے یہ سارا معاملہ عرض کیا تو انہوں نے وہ نمبر اور اس کی تصویر ہمیں بھیجی جس کے تحت ہماری  بکنگ تھی-  چنانچہ دوبارہ جا کر ان کو وہ نمبر اورتصویر  دکھائی – يہ ديكھ كر وہ  خاموشی سے ہمیں کمرہ دینے پر آمادہ ہو گئے-آٹھويں منزل پر ہميں كمرہ ملا – کمرے میں پہنچے تو صبح کے  ساڑھے نو بج رہے تھے گویا اس طرح گھر سے لے کر ہوٹل تک ہمارا يہ سفربارہ گھنٹوں پر محیط ہو گیا تھا-

ہم شہر نبیﷺ میں پہنچ چکے تھے- وہی شہر نبی جس کے بارے میں ہم بچپن سے ہی  ايك نعت نما عرضداشت اپنی والدہ كی زبان سے سنتے چلے آ رہے تھے – اس درخواست ميں وہ  كہا كرتی تھيں-""مائے نی میں کلی  آں ، شہر مدینے چلی آں ، شہر مدینہ دور آ ، جانا وی  ضرور آ، اندر بیٹھی بی بی فاطمہ باہر بیٹھے خدا دے پاک رسول –""ہمارے بچپن ميں مفلس گھرانوں كی  اكثر بچياں يہ نعت نما گيت گايا كرتی تھيں- (اميرگھرانوں اور اشرافيہ كے خواب تو يقينا ً اس سے مختلف ہوتے ہوں گے سوائے استثنائی مثالوں كے )انہی گيتوں كو سن سن كر ہم بڑے ہو ئے تھے اور ان لفظوں  نے ہمارے اندر بھی  مدينہ جانے كی ايك  امنگ   پيدا كر دی تھی ، ليكن اپنے معروضی حالات ديكھ كروہاں جانے كی كوئی سبيل نظر نہ آتی تھی – مجھے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں جب ہم آسماں كی طرف ديكھتے اور كوئی جہاز اڑتا نظر آ جاتا  تو یہ سوچتے کہ کیا کبھی ہم بھی اس سواری پہ سوار ہوں گے لیکن اللہ جو سب کچھ کے بغیر سب کچھ کرنے پہ قادر ہے ،اس نے کچھ ایسا کرم فرمایا کہ پھر زندگی میں 15 برس تو ایسے گزرے کہ جب جہاز ہی ہماری   سواری بن كے رہ گئے تھے-

ہاں تو ميں يہ كہہ رہاتھا كہ ہم شہر نبی ﷺ پہنچ چكے تھے  ہماری جگہ کوئی  مضبوط ایمان والا ہوتا تو یقیناً بھاگم بھاگ ،سب سے پہلے مسجد نبوی اور روضہ رسول ﷺپر پہنچتا مگر ہم ٹھہرے کمزور ایمان والے،اس ليے ہم نے تو پلان كيا كہ ہميں پہلے آرام کرنا چاہيے  تاکہ جسم اس قابل ہو سكے کہ وہ بسہولت اور باادب مسجد نبوی ميں حاضر ہو سكے  البتہ ميں نے كمرے كی كھڑكيوں سے جھانك كر باہر ديكھنے كی كوشش كی كہ شايد مسجد كی زيارت ہو سكے مگر يہ ديكھ كر مايوسی ہوئی  كہ ہمارے كمرے كا رخ كچھ اس طرح  سے ہے كہ باہر ديكھيں تو سوائے دوسری بلڈنگز كے كچھ نظر نہيں آتا-سامان وغيرہ سيٹ كر نے كے بعدناشتے كی تلاش شروع ہوئی – یہ ہوٹل ايسی جگہ واقع تھا جہاں پہ ارد گرد انڈین اور پاکستانی کھانے نایاب تھے اس لیے مجبوراً جو بھی چائے پانی قريب سے ملا، اسی پہ گزارا کیا اور جلد ہی نيند كی وادی ميں جا اترے- ليٹ  بيدار ہونے كی وجہ سے ظہر بھی کمرے ميں ادا کی -عصر میں البتہ یہ پلان کیا  کہ ہميں بہر صورت مسجد  میں حاضر ہونا ہے – چنانچہ ہم عصر سے قبل جانبِ مسجد روانہ ہوئے – ہوٹل سے باہر آئے تو يہ خوشگوار حيرت ہوئی كہ ہم مسجد نبوی سے بالكل قريب تھے- ہمارے سامنے بلڈنگز کی ایک اور  قطار تھی اور اس کے بعد دیکھا تو مسجد نبوی کاصحن اور چار ديواری نظر آرہی تھی - ہم سڑك كراس كرتے   ہوئے  گیٹ نمبر پانچ  سے داخل ہوئے  -ہمارے بالکل سامنے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھا اور دائیں طرف جنت البقیع- چونكہ  ہماری بہو فاطمہ بھی ہمارے ساتھ تھی اس ليے  پہلے اُسے  خواتین کی جگہ پہ چھوڑا- مسجد نبوی میں ہمیشہ سے ایسے ہی ديكھا ہے کہ خواتین کی نماز ادا كرنے  کی جگہ الگ ہوتی  ہے اور مردوں کی الگ- چنانچہ  خواتین کو مخصوص جگہ تك پہنچنے كے ليے بعض اوقات خاصی  مشقت اٹھانا پڑتی ہے -  ہم گیٹ نمبر چھ کی طرف سے ہوتے ہوئے مسجد کی بیک سائیڈ پہ خواتین کے لیے مخصوص جگہ پر پہنچے اور وہاں فاطمہ کو چھوڑ کر  مسجد كے اس صحن  میں داخل ہوئے جو ریاض الجنة کے پیچھے ہےاور جہاں آج کل چھتریاں لگی ہوئی ہیں-  ہر سفر ميں نماز پڑھنے اور بیٹھنے کے لیے یہ میری پسندیدہ جگہ رہی  ہے كيونكہ وہاں سے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منظر بھی بہت پیارا نظر آتا ہے ، ریاض الجنہ بھی سامنے ہوتی ہے اور ماحول بھی وہاں پہ كشادہ اور كھلا كھلا محسوس ہوتا  ہے- یہ جگہ کسی زمانے میں مسجد كا صحن تھی یہاں پر درخت بھی تھے اور ایک کنواں بھی ،جہاں نماز ی وضو کیا کرتے تھے -مدینہ منورہ کے پرانے سفر ناموں میں اس کا حال موجود ہے بلكہ بعض قديم تصاویر نے بھی يہ سارا منظر محفوظ كر ركھا ہے – ايك قديم سفر نامے ميں ايك صاحب نے لكھا كہ جب وہ مدينہ منورہ حاضر ہوئے تو  انہوں نے باب البقيع كی جانب مسجد سے چند گز كے فاصلے پہ ايك قبر ديكھی جس كےكتبے پہ سورہ كہف كی آيت لكھی تھی – ثلاثة  رابعھم كلبھم –(وہ تين ہيں چوتھا ان كا كتا) يعنی كتبہ لگانے والا يہ كہنا چاہ رہا تھا كہ وہ تين يعنی حضور ﷺ ، ابوبكر اور عمر رضي اللہ عنہما ہيں اور ان كے پڑوس ميں چوتھا يہ دفن ہے اور يہ ہے ان تين كا كتا-سبحان اللہ ، كم و بيش پچيس تيس برس ہو گئے اس سفر نامہ كو پڑھے ہوئے ليكن ميں آج بھی اس آيت كے اس قدر خوبصورت  اور نادر استعمال كی لذت محسوس كرتا ہوں-

مسجد میں پہلے ہم نے تحية المسجد اور پھر شکرانے کے دو نفل ادا کیے -مالك كے حضور اعتراف كيا كہ مالك  يہ محض آپ كاكرم ہے كہ آپ بار بار يہاں حاضری كا موقع فراہم كر ديتے ہيں ورنہ كتھے مہر علی كتھے تيری ثنا-----وہيں بيٹھ كر نماز عصر كا انتظار كيا  اور نماز کے بعد آقا ﷺ كی خدمت ميں سلا م عرض كرنے كے ليے چلے-كووڈ كے بعدسے انتظامات ميں بہت تبديلياں آ چكی ہيں- اب کیفیت یہ ہے کہ نہ تو آپ براہ راست ریاض الجنہ میں داخل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی باب سلام سے داخل ہو کر روضہ اقدس کی طرف جا سکتے ہیں- اس کے لیے آپ كو صحن ميں بنے لمبے زگ زيگ راستوں سے ہو كر   باب سلام تک پہنچنا ہو گا-چنانچہ ہم بھی اس لائن ميں جا كھڑے ہوئے اور دھيرے دھيرے چلتے باب سلام تك  جا پہنچے اور دعا پڑھتے ہوئے اس جگہ داخل ہوئے جہاں كبھی ابوبكر و عمر اور عثمان و علی جيسی عظيم ہستياں داخل ہو ا كرتی تھيں-با ب  سلام سے داخل ہوں تو ہمیشہ میرا دھیان اپنے بائیں طرف باب ابوبکر صدیق کی طرف چلاجاتا ہے کہ جہاں خلیفہ اوّل جنابِ ابوبكر کا گھر ہوا کرتا تھا جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ مسجد نبوی میں  کھلنے والے سارے گھروں کے دروازے بند کر دیے جائیں سوائے ابوبکر کے گھر کے- مسجد میں داخل ہوئے تو پتہ چلا کہ یہاں بھی اب چلنے کی وہ آزادی نہیں جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی -اب یہاں بھی انتظاميہ  نے درميان ميں كپڑے كی ديوار كھڑی كر كے  دو راستے بنا دیے تھے-کچھ لوگوں کو ریاض الجنہ کی جانب  چلنے كاموقع ملتا اور کچھ لوگوں كو دیوار کی دوسری  طرف يعنی  قبلہ كی جانب -  اللہ کا شکر ہے کہ ہميں  اس لائن ميں جگہ مل گئی جو روضہ رسولﷺ سے زيادہ قريب تھی-خير ماضی كی نسبت تو يہ قريب بھی دور ہی ہےكيونكہ ماضی ميں تو اس طرح كی كوئی ديواريں نہ ہوا كرتی تھيں اور زائرين روضہ رسول كے بالكل قريب ہو كر سلام عرض كر سكتے تھے بلكہ اگر ہمت كريں تو جاليوں كو ہاتھ بھی لگا سكتے تھے – يعنی اتنا قريب سے گزرتے تھے كہ جالياں ان سے ايك ہاتھ ہی دور ہوتی تھيں – مگر  اب يہ صورت حال مكمل بدل چكی ہے –قدم قدم چلتے ہم  بھی مواجہ شريف پہ پہنچ چكے تھے – وہ جگہ جہاں كی حاضری  اس امت كی جليل القدر ہستياں كے نزديك ہميشہ باعث  فخرو امتنان  رہی ہے- اتنے ہزاروں لاكھوں علما ، صلحا ، اوليا كے بيچ ہماری بھی حاضری ،اللہ اكبر ، يہ سوچ كے ہی جھر جھر ی سی آ جاتی ہے – ايك طرف اگرچہ اپنے مقدر پہ ناز بھی ہوتا ہے ليكن دوسری طرف يہ ڈ ر بھی ہوتا ہے كہ كہيں كوئی ايسا عمل نہ ہوجائے جو بارگاہ نبوی كے ادب كے خلاف ہو  - اور جب روضہ رسول پہ لكھی آيات پہ نظر پڑتی ہے تو يہ ڈ ر دو چند ہو جاتا ہے - بہر حال پھر يہ سوچ كے تسلی بھی ہو جاتی ہے كہ مالك نے يہ حاضری قبول كرنی تھی تو يہاں تك پہنچايا-اللھم لك الحمد ولك الشكر-روضہ اقدس پہ حاضر ی كے وقت انسان كی كيا كيفيت ہو تی ہے اس كو الفاظ كے احاطے ميں لانا كم از كم ميرے بس ميں تو نہيں اور ميں سمجھتا ہوں كہ جتنے انسان وہاں حاضر ہوتے ہيں شايد اتنی ہی كيفيات بھی ہوتی ہوں گی - جس طر ح ہر انسان الگ الگ ہے اس طرح حضور سے ان  كے تعلق كی نوعيت بھی الگ الگ ہے – اس ليے كسی ايك كی كيفيت كو دوسرے پر قياس كرنا شايد ممكن بھی نہيں-البتہ ایک علمی مسئلہ جس نے مجھے ہميشہ  خلجان ميں ركھا  اور وہ خلجان اب بھی تھا كہ آيا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  روضہ اقدس پہ موجود زائرين كا صلوة و سلام براہ راست سنتے ہیں؟ اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ انبیاء  اپنی قبور ميں زندہ ہوتے ہيں اس کا آخر کیا مطلب ہے ؟ اس مسئلے پہ میں جتنا بھی غور كروں، اتنا ہی کنفیوز ہو جاتا ہوں- دونوں طرف  دلائل  موجود ہیں لیکن بہرحال وہ دلائل  میرے لیے  زيادہ اطمینان بخش ہيں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ حضور ﷺ كی حيات سے مراد  ،انتہائی اعلی درجے كی  برزخی حیات  ہے  اور یہ بات قابل فہم  بھی  ہے ورنہ یہ کہنا کہ انبیاء اپنی قبروں میں اپنے جسم كے ساتھ زندہ ہوتے ہیں ، يہ تو  ايك توہين سی لگتی ہے  -گويا چند فٹ کی جگہ كوانبیاء کے ليے مختص كرکے لوگ سمجھتے ہیں کہ شايد انہوں نے ان کے  احترام كا حق اد ا كر ديا – اين چہ بوالعجبی است  -ہاں البتہ اللہ كريم ان برگزيدہ ہستيوں كے اجسام كو بھی يقيناً محفوظ ركھتا ہوگا كہ وہ مالك ہے – زمين بھی اس كی مخلوق ہے – زمين وہی كرے گی جس كا اسے حكم ہو گا- ان مقدس اجسام كا محفوظ ہونا اور بات ہے اور ان كا اتنی سی جگہ ميں دنياوی زندگی كی طرح  كی  زندگی پانا بالكل الگ بات ہے جس كو سمجھنے كی اہليت شايد ميرے پاس موجود نہيں-اور پھر یہ مسئلہ بھی پیش نظر رہتا ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سنتے ہیں توآپ ﷺ كے سننے کی رینج کیا ہے؟ کیا آپ دیوار کے پاس جو کھڑے ہیں صرف ان  كی سنتے  ہیں يا چند گز جو پیچھے کھڑے ہیں ان کی بھی سنتے ہیں یا مسجد نبوی سے باہر جو لوگ  ادب و احترام  سے صلوة  وسلام پیش کررہے ہوتے  ہیں ان کی بھی سنتے ہیں- یہ بھی ایک گنجلک مسئلہ ہے - میرے خیال میں  یہ بات زیادہ لاجيكل اور عقلی ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدرجہ اولی انتہائی اعلی اور ارفع  حیات ِبرزخی حاصل ہے اور آپ کی خدمت میں جو صلاۃ و سلام بھی  پیش کیا جاتا ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک بہرحال پہنچا دیا جاتا ہے-جو لوگ روضہ اقدس پہ حاضر ہو كر سلام پيش كرتے ہيں ان كے بارے ميں يہ بھی بتا ديا جاتا ہو گا كہ آپ كا يہ چاہنے والا اتنی دور سے آپ كے شہر ميں صرف اس ليے حاضر ہو ا ہے  كہ آپ كا گھر اور روضہ ديكھے تو يقيناً اس كی اہميت اس زائر كے حوالے بڑھ جاتی ہو گی ورنہ درود تو جو بھی، جہاں سے بھی، بھيجے وہ پہنچايا جاتا ہے - اس لیے میرا تو ہمیشہ یہ معمول رہا  كہ میں تو روضہ رسولﷺ پہ  جا کر بھی  اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ہی عرض کرتا ہوں کہ یا اللہ میری یہ حاضری قبول فرما میرے آنے کی خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرما دے اور میرےصلوۃ وسلام  كا تحفہ بھی ان تک پہنچا دے - اب اس عقيدے میں  اگر ميں غلطی پر ہوں تو اللہ مجھے معاف فرمائے ابھی تک  تو ميں اس كے بالعكس پر مطمئن نہيں ہو سكا جس دن واضح ہو گيا  ميں اپنی  رائے تبديل   کر لوں گا –دوست كہتے ہيں كہ اگر ايسا ہی ہے كہ جہاں سے بھی درود و سلام عرض كيا جائے ، آپ تك پہنچايا جاتا ہے تو پھر روضہ اقدس پہ جا كر سلام پيش كرنے كی  آخر ضرورت ہی كيا ہے – ارے ميرے بھائی، محبت اظہار مانگتی ہے – اور يہ ميرا حضور ﷺ سے تعلق اورمحبت كا اظہار ہے كہ  جہاں آپ كے شب و روز گزرے ،جہاں دن رات آپ كے قدم مبار ك پڑے ،ميں اس جگہ كو ديكھوں اور ان فضاؤں ميں حضور كی تصوراتی موجودگی كو محسوس كروں- يہ يقينا ً بڑے نصيب كی بات ہے  اورمجھے يوں محسوس ہوتا ہے كہ حضور ﷺ سے تعلق كا ہر شرعی اظہار بھی قيامت كی ميزان ميں اپنا وزن ركھے  گا-اور يہاں كی حاضری ان اظہارات ميں سے سب سے اہم اظہا ر ہے-

روضہ اقدس پہ حاضری اور صلوۃ وسلام کے بعد واپس ہوٹل پہنچے اور دوسرے دن کے لیے یہ طے پایا کہ ننھے مسافر کو بھی روضہ اقدس  پہ ساتھ لے کر جائیں گے- چنانچہ دوسرے دن فجر کے بعد جب ہم روضہ اقدس پر حاضر ہوئے تو ہمارا  ننھا مسافر (مخبت ) بھی میرے کاندھوں پر سوار تھا- كسی كی روضہ رسول ﷺپہ پہلی حاضری ہو اور وہ اپنے دادا كے  كاندھوں پہ سوار ہو يہ خوش نصيبی كم ہی لوگوں كے حصے ميں آيا كرتی ہے-   جب ہم مقدس جاليوں كے روبرو پہنچے  تو چونکہ زائرين روضہ اقدس کی طرف ادب و احترام سے ہاتھ اٹھا رہے تھے تو مخبت نے بھی میرے کاندھوں پر بیٹھے بیٹھے ہاتھ اٹھادیے اور مسکرانے لگا-چھوٹے بچوں كو عموماً ميں كم ہی گود ليا كرتا ہوں ليكن  اپنے اس  پوتے کو ميں اس اميد پہ کاندھوں پہ اٹھا کے لے گيا تھا كہ  کل جب ميں اس دہر ميں نہ ہوں گا تو ان  تصویروں كو ديكھ كر  شاید وہ بھی میرے لیے دعائے مغفرت کر دیا کرے بلکہ میں نے اپنے بیٹے سے کہا كہ یہ تصویریں بطور خاص اس کو دکھايا كرنا تاکہ میں دعاؤں میں اس کو یاد آتا رہوں-

 حج اور عمرے کا مقدس سفر تو تھوڑی بہت انتظامی تبدیلیوں کے ساتھ تقريباً ویسا ہی رہتا ہے البتہ مسا فر بدلتے رہتے ہيں-  ایک زمانہ تھا کہ جب میں جوان تھا ، والدہ بوڑھی تھيں تو سفر ان كے ساتھ ہو ا تھا اور اب يہ زمانہ ہے كہ ميں بوڑھا ہوں اور بچے جوان ہيں- اور جلد ہی وہ زمانہ بھی آ جائے گا كہ جب يہ" جوان بچے "بوڑھے ہو ں گے اور ان كے

" مخبت "جوان ہو ں گے – بس يہی زندگی ہے اور ايسا ہی اس كا سفر ہے-

 اگلے دن مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات کی زیارت کا پروگرام تھا- شیخ صاحب نے اس کے لیے گاڑی کا بندوبست کر دیا تھا چنانچہ صبح ہی اس سفر پر روانہ ہوئے اورحسب معمول زيارات كاآغا ز مسجد قبا سے ہوا-مسجد قبا مسجد نبویﷺ سے تقریباًساڑھے تين يا چارکیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ مسلمانوں کی یہ سب سے پہلی مسجد ہے۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکے جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ بنو عوف کے پاس قیام فرمایا - آپ نے  خو داپنے دست مبارک سے اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس مسجد کے متعلق الله تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَیٰ﴾․ (التوبہ:108) يعنی وہ مسجد جس کی بنیاد اخلاص وتقویٰ پر رکھی گئی ہے۔مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے بعد مسجد قبا دنیا بھر کی تمام مساجد میں  افضل ہے۔ حضور  اکرم صلی الله علیہ وسلم کبھی سوار ہو کر اورکبھی پیدل مسجد قبا تشریف لے جاياکرتے تھے۔ آپ کا ارشاد ہے : ”جو شخص(اپنے گھر سے ) نکلے اور اس مسجد میں آکر (2رکعت) نماز پڑھے تو اسے عمرہ کے برابر ثواب ملے گا۔

ايام جوانی میں  تو ،بارہا مسجد نبوی سے قبا تك پیدل ہی سفر کیا ہے- کھجور مارکیٹ اس وقت دور نظر آيا كرتی تھی-  اپنی قيام گاہ  سے نکلتے اور جنت البقيع کی طرف سے ہوتے ہوئے سوق التمر کی طرف  نكل جاتے اور اس سوق كی عقبی  شاہراہيں کراس کر تے ہوئے اس سڑک پہ آ جاتے جو سیدھی قبا کی طرف جاتی ہے –ميں عموماًَ مسجد نبوی سے اشراق كے بعد يہ سفر كيا كرتا تھا- قبا روڈ كےدائيں بائيں محلے تھے اور اس وقت بچے بس سٹاپ پہ كھڑے اپنی اپنی سكول بس كا انتظار كر رہے ہوتے تھے – اسی طرح ناشتے كی تيارياں ہو رہی ہوتی تھيں اور ہمارے ہاں كے نان چنے كی طرح لوگ خبز كے تندوروں كے گرد اكٹھے ہو رہے ہوتے تھے – اس پيدل سفر ميں مقامی عرب كلچر كو ديكھنے كا بھی اچھا موقع ملتا تھا- اب تو قبا روڈ  ايك خوبصورت سٹريٹ بنا دی گئی ہے جو صرف  پيدل چلنے والوں كے ليے مختص ہے – خير مسجد پہنچے  نوافل ادا کیے-كچھ دير بيٹھے او رچشم تصور سے وہ منظر ديكھنے كی كوشش كی جب نبی ﷺ نے اس مسجد كا سنگ  بنياد ركھا ہو گااور پھر صحابہ نے حضور ﷺ كے ساتھ مل كر اس كی تعمير كی ہو گی- مسجد چونکہ اب بہت  وسیع ہو گئی ہے اس لیے دل میں ایک كسك سی رہتی ہے کہ کاش وہ  جگہ معلوم ہو جائے کہ جہاں میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا پتھر ركھا ہو گا- دل یہ بھی چاہتا ہے کہ کاش اس جگہ کو  بھی نشان زدکر دیا جاتا كہ يہ حضورﷺ کے زمانے میں مسجد کی جگہ تھی- بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب مسجد کے  بڑے دروازے سے اندر داخل ہوں تو سامنے دائیں طرف جو بڑا سا ستون بنا ہوا ہے شاید یہ وہ جگہ تھی جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سنگ بنياد ركھا تھا- اس طرح کی تاریخی عمارات میں اگر اس طرح کی چیزوں کو محفوظ کر دیا جائے اور وہاں پہ الواح لگا دی جائيں تو کتنا ہی اچھا ہو- یادگار يں ، عمارتیں اور مقبرے مٹانے سے شرک تو نہيں مٹتا البتہ تاریخ ضرور مٹ جاتی ہے-

مخبت نے بھی مسجد قبا ميں بيٹھنا خوب انجوائے كيا اوركافی دير ادھر ادھر كھيلتا رہا-يہ مخبت كی زندگی كا پہلا سال ہے – كاش كہ اللہ ايسے اسبا ب پيدا فرما دے كہ اُ س كی زندگی كا كوئی سال بھی ايسا نہ ہو كہ جب اُ س كو يہاں كی حاضر ی نصيب نہ ہو-

مسجد قبا سے نكلے تو ہمارا اگلا پڑاؤ مسجد جمعہ تھا-مسجدجمعہ اس جگہ بنائی گئی ہے جہاں اسلام كا پہلا جمعہ حضور ﷺ كی اقتدا ميں پڑھا گيا- يہ وہ وقت تھاجب حضور ﷺ قبا سے مدينہ منور ہ جا رہے تھے – راستے ميں جمعے كا وقت آيا تو آپ نے يہاں پہلا جمعہ ادا كيا-چونكہ بئر غرس بھی يہاں سے قريب ہی تھا اس ليے  اس كی زيارت  بھی كی – اس كنوئيں كے بارے ميں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس كے پانی سے وضو کر کے بقیہ پانی کو اس میں ڈال دیا تھا-ابن حبان نقل کرتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بئر غرس سے پانی منگواتے اور فرماتے کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ اس کنوئيں یعنی بئر غرس کاپانی پیتے اور وضو فرماتے تھے- ابن ماجہ سے صحیح روایت کے ساتھ بیان ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھ کو وصال کے بعد  اس كنوئيں  کے پانی سے غسل دیناچنانچہ اسی كے پانی سے آپ كو غسل ديا گيا-كنوئيں كے پاس ايك بورڈ آويزاں تھا جس پہ اس كی تاريخ رقم تھی – موجودہ حكومت كا يہ احسن اقدام ہے – اميد ہے باقی زيارات كے ساتھ بھی ايسا ہی كيا جائے گا-كنوئيں كے ارد گرد لوہے كی جالی لگا كر اس كو محفوظ بھی كر ديا گيا ہے –يہاں بھی لوگ پانی كو تحفہ سمجھ كر لے جا رہے تھے – اور ان كی عقيدت كو "كيش" كرانے كے ليے بہت سے مقامی اس پانی كو بيچتے ہو ئے بھی نظر آ رہے تھے – عقيدت اورمحبت كو  پيسوں ميں كنورٹ كرنے كا فن ہر قوم جانتی ہے -

ہماری اگلی منزل جبل احد تھا- يہ وہ پہاڑ ہے جس كے بارے ميں حضور نے فرمايا تھا كہ ھذا جبل یحبنا ونحبہيعنی ”اُحد کا پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اُحد سے محبت رکھتے ہیں۔اسی پہاڑ کے دامن میں 3ھ میں جنگ اُحد ہوئی، جس میں نہ صر ف 70 صحابہ شہيد ہوئے بلكہ حضور ﷺ بھی زخمی ہوئے - یہ شہداء اسی جگہ مدفون ہیں، ان كی قبور كے ارد گرد چار ديواری بنا د   ی گئی ہے ۔ اسی احاطہ کے بیچ میں حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی الله عنہ مدفون ہیں، آپکی قبر کے برابر میں حضرت عبدالله بن حجش رضی الله عنہ اور حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ مدفون ہیں۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم خا ص اہتمام سے یہاں تشریف لاتے اور شہداء کو سلام ودعا سے نوازتے تھے۔يہيں پہ جبل الرماة بھی ہے جہاں تير اندازوں كا دستہ تعينات كيا گيا تھا- جبل احد پہ جب بھی ميری حاضری ہوتی ہے تو چشم تصور ہمیشہ یہ دیکھنے کی کوشش کرتی ہے  کہ کاش وہ جگہ معلوم ہو  جائے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے جہاں آپ کی ذات اقدس زخمی ہوئی تھی يا جہاں صحابہ کے مقدس لاشے گرے تھے- وہ درّہ ، البتہ آج بھی محفوظ ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو كر تشریف فرما ہوئے تھے اور جہاں سے صحابہ نے ابو سفیان کے نعروں اور باتوں کا جواب دیا تھا- وہاں تک جوانوں کا جانا تو آسان ہے اور لوگ جاتے بھی ہیں -ہم بھی  جوانی میں جاتے رہے لیکن اس بار وہاں تك نہ جا سکے-

جبل احد كے بعد غزوہ خندق كے مقام كی زيارت كی -يہاں كسی زمانے ميں ايك بڑی مسجد ہوا كرتی تھی جسے مسجد فتح يا مسجد احزاب كہا جاتا تھا-یہ مسجد جبل سلع کے غربی کنارے پر اونچائی پر واقع تھی۔ رسول اکرم صلی الله علیہ و سلم نے اس جگہ دعا فرمائی تھی چناں چہ آپ کی دعا قبول ہوئی اورمسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اس مسجد کے قریب کئی چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنی ہوئی تھيں، جو مسجد سلمان فارسی، مسجد ابوبکر، مسجد عمر اور مسجد علی کے نام سے مشہور تھيں۔ دراصل غزوہٴ خندق کے موقع پر یہ اُن حضرات کے پڑاؤ تھے، جن کو محفوظ او رمتعین کرنے کے لیے غالباً سب سے پہلے حضرت عمر بن عبدالعزیزنے مساجد کی شکل دے دی تھی۔ یہ مقام مساجد خمسہ کے نام سے بھی مشہور تھا۔ اب  تو وہاں سعودی حکومت نے ایک بڑی عالی شان مسجد( مسجد خندق) کے نام سے تعمیر کر دی  ہےجس نے ان تما م چھوٹی مساجد كو اپنے دامن ميں لے ليا ہے -اس كے بعد مسجد قبلتين كی زيارت كی ليكن اند ر نہ جا سكے – كہا جاتا ہے كہ تحویل قبلہ کی آیت اسی مسجد میں نماز پڑھتے وقت نازل ہوئی تھی اور اسی ليے عين نماز ہی ميں قبلہ كا رخ تبديل كر ليا گيا تھا- تاہم اس كے برعكس علمی آرا بھی موجو دہيں-باغ سلمان فارسی اور بئر عثمان رضی اللہ عنہما دیکھنے کے بعد ہم واپس ہوٹل جانا چاہتے تھے لیکن شیخ صاحب کو دو باتوں پہ اصرار تھا ایک تو یہ کہ  ہم ان کے گھر کھانا کھا کے جائیں گے اور دوسری یہ کہ ایک زیارت اور کریں گے - اس زیارت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہاں پہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے پاؤں کے نشان موجود ہيں اور وہ ایک عرب کی حویلی کے اندر ہیں-شيخ صاحب نے اس عرب كے ايك كاركن سے رابطہ كيا – چنانچہ ہمارے جانے پر اس نے مزرعہ كے گيٹ كھول دئيے اور ہميں ان نشانات كی زيارت كروائی گئی – ان نشانات كے بارے ميں كوئی  مصدّقہ تاريخی روايت ميرے علم كی حد تك موجود نہيں – اس ليے ہمارا وہاں جانا زيارت نہيں بلكہ  شيخ صاحب كی مروت كی وجہ سے تھا- وہاں سے شيخ صاحب كے گھر حاضر ی ہوئی جہاں انہوں نے پر تكلف ضيافت كااہتمام كر ركھا تھا- اوريوں اس ضيافت پہ زيارات كا يہ سفر اختتام كو پہنچا اور ہم واپس ہوٹل پہنچے -  

پچھلے دو دنوں سے ہم گیٹ نمبر پانچ اور چھ سے گزرتے ہوئے المعرض والمتحف الدولی  کا بورڈ دیکھ رہے تھے جس پہ یہ لکھا ہوا تھا"السيرة كانك تعيشھا" يعنی كہ سيرة كو ايسے دكھانے كا انتظام كہ گويا كہ آپ خود اس زمانے ميں جی رہے ہوں- چنانچہ يكم اگست كو اس نمايش اور عجائب گھر كو ديكھنے كا ارادہ كيا-ظہر كے بعد ٹكٹ ليے - ايك بج كر پچاس منٹ والی سلاٹ ميسر آئی – چنانچہ اپنی باری كا انتظار كيا اور وقت آنے پہ اند ر گئے -يہ متحف رسول اكرم ﷺ كی زندگی اور ان كے زمانے كی ثقافت پر مبنی ہے – وہاں تصويروں ، سلائيڈز ، وڈيوز كے ذريعے حضورﷺ كی زندگی گزارنے كے انداز كا پورا خاكہ پيش كيا جاتا ہے جس كے ساتھ ايك مترجم كمنٹری كرتا  اور تفصيل بتاتا جاتا ہے – ہر زبان والوں كا ايك گروپ بنايا جاتا ہے اور ان كو ان كی زبان كا مترجم فراہم كيا جاتا ہے -

پاکستانی طلبا چونکہ وہاں کے مدارس میں وافر مقدار میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس لیے اردو کے مترجمین کی کوئی کمی نہیں ہمیں بھی ایک ایسا ہی مترجم میسر آیا جو وہاں کسی یونیورسٹی میں دینی تعلیم حاصل کر رہا تھا- تمام سلائیڈز اور ویڈیوز کے درمیان مترجم صاحب كی كمنٹری صرف اس بات پر مشتمل تھی كہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کیسے تھے ،  آپ کا چہرہ انور كيسا تھا، آپ  كاقد کتنا تھا، آپ کے چلنے كا انداز كيا تھا، آپ  كيسے گفتگو فرماتے تھے،آپ کا لباس کیسا تھا – اسی طرح كی باتوں كے  ار د گرد ان كا خطاب گھومتا رہا اور يوں ہمارا  وقت اختتام كو پہنچا-میں سارا وقت یہ سوچتا رہا کہ کیا سیرت صرف اسی کا نام ہے- بلاشبہ یہ بھی سیرت کا ایک حصہ ہے لیکن بہت چھوٹا سا - اصل سیرت اُس مشن اور مقصد کا نام ہے جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے تھے اس امت کے ساتھ یہ المیہ ہو گیا ہے کہ ہمارے وطن میں بھی اور یہاں بھی اور شاید اسی طرح امت مسلمہ کے باقی حصوں میں بھی سیرت کو اسی طرح پیش کیا جاتا ہے جس كی وجہ سے امت كی غالب اكثريت بس انہی  چيزوں كو سيرت سمجھ كر اور انہی كو محبت ميں اپنا كر مطمئن ہو جاتی  ہے-  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقصد اور مشن کو پورا کرنے کے لیے کیا کیا جتن کیے، کن کن گھاٹيوں كو عبور كيا ،کیا کیا حکمت عملی اختیار کی اوركس  کس طرح آپ کے شب و روز اس غم اور دکھ میں گزرے اس کوبیان، کیا ہی نہیں جاتا- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ   حضور ﷺ كی پيروی كے جذبے سے آگے بڑھنے والا مسلمان بھی انہی كو اسوہ سمجھ كر اور انہی كی نقل كر كے مطمئن ہو جاتا ہے  اور آپ کا مشن اور مقصد کہیں دور پیچھے کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے – سکولوں اور كالجوں  میں بھی اسی انداز كی سيرت پڑھائی جاتی ہے – اس ميں بس يہی بتايا جاتاہے كہ حضور ﷺ پيدا ہوئے ،   بچپن گزرا، بڑے ہوئے ،آپ نے لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا- کچھ تکلیفیں آئيں ، آپ نے ہجرت فرما لی -جنگيں ہوئيں ، مكہ فتح ہو گيا لوگ مسلمان ہو گئے اور يوں آپ كامشن مكمل ہو گيا- طالب علم كے ذہن ميں يہ سوال رہ جاتا ہے كہ جب مشن مكمل ہو گيا تو  امتی كو اب كيا كرنا ہے -يہ نہيں بتايا جاتا كہ ہر ہر امتی نے  توحيد كو اپنی زندگی ميں غالب كرنے كا مشن پورا كرنا ہے -حضور كی سیرت کی روشنی  ميں ہر ہر مسلمان نے اپنے اپنے بت تلاش کرنے ہیں اور موت سے پہلے پہلے ان کو توڑنا ہے -ليكن نہ تو اس کا ذکر کتابوں میں کیا جاتا ہے، نہ اس کو پڑھایا جاتا ہے اور نہ ہی بتا یا جاتا ہے  چنانچہ اس طرح كی سيرت پڑھنے اور سمجھنے والا مسلمان  توحید کو اپنی زندگی میں غالب كيے بنا ہی دنيا سے رخصت ہو جاتا ہے- اے كاش كہ ہم سمجھيں---دن کا باقی حصہ معمول کے مطابق گزرا -عصر، مغرب عشاء الحمدللہ باجماعت ادا کیں - روضہ رسول ﷺپر بھی  حاضری دی -اللہ نے کرم کیا مجھے  اور بیٹے دونوں كو ايپ   کے ذریعے رياض الجنة میں داخلے کا اجازت نامہ مل چکا تھا جو کہ آنے والی رات میں تہجد كے وقت تقریبا ًتین ساڑھے تین بجے تھا- چنانچہ جلد سو گئے تا كہ جلد بيدار  ہو كے رياض الجنة ميں جا سكيں- تہجد كے  وقت ہم دونوں مسجد میں پہنچے اور دیے ہوئے طریقہ کار کے مطابق موبائل پہ اجازت نامہ دكھا كر  بالآخر ریاض الجنہ پہنچنے ميں كامياب ہو گئے - ہم نے تو وہ وقت بھی دیکھے ہیں کہ ریاض الجنہ میں آپ  جب چاہیں جا سکتے تھے اور جتنا چاہیں بیٹھ سکتے تھےاور يہی صورت حال قدمين شريفين كی طرف تھی كہ چاہو تو دو دونمازيں وہيں پڑھو اور وہيں بيٹھو- لیکن اب یہ وقت آن پہنچا ہے کہ قدمين شريفين كی طرف جانے كو بالكل منع كر ديا گيا ہے جبكہ رياض الجنة ميں  چند منٹ کے داخلے كے ليے بھی  اجازت درکار ہوتی ہے اور وہ بھی قسمت سے ملتی ہے-

مسجد نبوی میں ریاض الجنہ ہی وہ واحد جگہ ہے  جہاں میرے گمان کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کا سب سے زیادہ وقت گزرا ہوگا اور اسی طرح جليل القدر صحابہ کا بھی زیادہ وقت یہيں بسر ہو اہوگا- اسی لیے اس جگہ کے ہر ہر ستون کے ساتھ ایک تاریخ وابستہ ہے -منبرنبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہیں ہے،محراب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہیں پہ ہے - حضور اور صحابہ کی بے شمار یادیں اس جگہ کے ایک ایک ذرے کے ساتھ جڑی ہوئی  ہيں- اس جگہ داخل ہوں تو دل تو یہ چاہتا ہے کہ اس کے ایک ایک ستون کے ساتھ لگ کر اس کی پوری پوری تاریخ كو چشم تصور میں لايا جائے- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر نبوی پر خطاب کرتے ہوئے دیکھا جائے، حضرت بلال کو چبوترے پہ اذان دیتے ہوئے سنا اور دیکھا جائے- اصحاب صفہ کو  صفہ سے ریاض الجنہ میں آتے جاتے دیکھا جائے -حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازوں کی امامت کرتے ہوئے دیکھا جائے-ليكن چند منٹ میں کیا كياکچھ کیا جا سکتا ہے -اس لیے میری طرح ہر انسان اسی بات کو ترجیح دیتا ہے کہ جانے پھر زندگی میں موقع ملے کہ نہ ملے، بجائے چشم تصور میں تاریخ کو دیکھنے کے ،اللہ کے حضور چند سجدے کر لیے جائيں کہ شاید اس جنت كے  صدقے آخرت میں بھی جنت نصیب ہو جائے- چنانچہ میں نے اور بیٹے نے وہاں پہ نوافل ادا کيے اور جو دعائیں کر سکتے تھے کيں ، اتنی دیر ميں پندرہ بيس منٹ تمام ہوئے اور ہميں وہاں سے چلتا كر ديا گيا-

 مسجد نبوی کے قرب و جوار میں بہت سی چھوٹی چھوٹی مساجد ہیں جو صحابہ کے ناموں سے منسوب ہیں کہا جاتا ہے کہ یہاں پہ ان صحابہ کے گھر ہوا کرتے تھے- مسجد کی توسيع ہونے کی وجہ سے اب تو یہ ساری مساجد مسجد کا حصہ ہی معلوم ہوتی ہیں ان میں سے سب سے قریب مسجد غمامہ ہے جو اب مسجدكے صحن كا حصہ ہے –كسی زمانے ميں ہم ٹيكسی لے كر مسجد غمامہ ديكھنے جايا كرتے تھے-اس كو مصلى العيد بھی کہا جاتا ہے۔نبی ﷺ اپنی حیات طیبہ کے آخری برسوں میں عیدین کی نماز مسجد غمامہ میں ادا فرماتے تھے۔ آپ نے  نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ بھی اس جگہ پڑھائی۔  نویں صدی ہجری تک اسی مسجد میں عیدین کی نماز ادا کی جاتی رہی، پھر غالباً مسجد نبوی کے کشادہ ہونے کے باعث وہاں نماز عیدین کا اہتمام کیا جانے لگا۔ اس ننھی سی مسجد کے آٹھ چھوٹے گنبد ہیں۔ کہا جا تا ہے کہ یہاں نماز استسقاء کے دوران میں ایک بادل نے آپ ﷺ پر سایہ کیے رکھا تھا لہذا اسے  مسجد غمامہ ( بادل والی مسجد)کہا جا تا ہے۔مسجد نبوی كے شما ل مغربی جانب سقيفہ بنی ساعدہ بھی ہے يعنی وہ مشہور باغ جہاں حضرت ابوبكر كے ليے بيعتِ خلافت ہوئی تھی – يہ  باغ بھی اب مسجد كے صحن كا حصہ بن گيا ہے – اس جگہ كے گرد باڑ لگا دی گئی تھی اور لكھا كہ  سقيفہ كی تعمير نو كا كام جاری ہے -مسجد نبوی ميں حاضر ی  ہو اور انسان جنت البقيع ميں حاضر نہ ہو  يہ بھی ممكن نہيں  - يہ وہ مبارك جگہ ہے جہاں نہ صرف   حضور ﷺ كی ازواج مطہرات ، آپ كی صاحبزادياں ، آپ كے چچا ، بلكہ سيدنا عثمان غنی  سميت ہزاروں صحابہ دفن ہيں-ليكن اس با ر پہلے سے بھی زيادہ مايوسی ہوئی كہ پہلے تو كچھ نہ كچھ پتھر موجود تھے  خصوصاً حضرت عثمان كا مرقد مبارك محفوظ تھا اسی طرح حضرت امام مالك كا بھی ، شہدائے احد  كا احاطہ بھی موجود تھا ليكن اب تو سب كچھ ہی برابر كر ديا گيا تھا- آل سعود نےبزعم خود شرك مٹاتےمٹاتے تاريخ ہی مٹا دی ہے -

جنت البقیع سے واپسی پر ٹیکسی والے سے بات کر لی تھی  مکہ مکرمہ جانے کے لیے-چونكہ ہمارا سامان زيادہ تھا اس ليے ايك بڑی ٹیکسی ہائر کی اور  وقت طے کر کے ہوٹل واپس آ گئے تھے- دوسرے دن فجر کے بعد روضہ رسول ﷺپہ حاضری دی اور جانے کی اجازت طلب کی اس امید کے ساتھ کہ  دوبارہ بھی حاضر ہونے کی اجازت ملے گی- ٹیکسی والے   سے  دس بجے کا وقت طے ہوا  تھا، وہ پونے دس ہی آن پہنچا- ہم نے ہوٹل سے چیک آؤٹ کیا ٹیکسی میں بیٹھے اور مکہ مکرمہ کا سفر شروع ہو گیا-احرام ہم نے ہوٹل ہی سے باندھ ليے تھے – ميقات پہ نوافل ادا كيے ، عمرے كی نيت كی اور واپس گاڑی ميں آ بيٹھے – اگرچہ اب مدینہ سے مکہ مکرمہ  ٹرین کی سہولت بھی میسر ہے ،سفر بھی آرام دہ ہے ، وقت بھی کم خرچ ہوتا ہے  يعنی دو ڈھائی گھنٹے- لیکن اس میں دو مسائل ہیں ایک تو مدینہ ميں آپ کو ہوٹل سے ٹیکسی لے کر ٹرین سٹیشن تک جانا پڑتا ہے ،وہاں پہ انتظار کرنا اور پھر مکہ مکرمہ میں ٹرین کے اسٹیشن سے ٹیکسی لے کر  اپنے ہوٹل تک پہنچنا -نتیجتاً اتنے گھنٹے ہی صرف ہوجاتے ہیں، اس لیے ہم نے ٹیکسی کو ترجیح دی کیونکہ ٹیکسی میں ہوٹل سے لے کر ہوٹل تک انسان  آرام سے پہنچ جاتا ہے-ٹيكسی ميں  اگر نارمل سپيڈ سے سفر کیا جائے تو مدینہ سے مکہ پانچ گھنٹے صرف ہو جاتے ہيں ،ليكن ہمارے گاڑی والے بھائی کو بہت ہی جلدی تھی، انہوں نے ہو ا كے گھوڑےپہ سوار ہميں ساڑھےتين گھنٹے ميں مكہ مكرمہ پہنچا ديا-اس طرح ہم ڈيڑھ بجے مكہ كے ہوٹل ووكوپہنچ چكے تھے -چيك ان ٹائم دو بجے تھاچنانچہ ساری فارميلٹيز پوری كرتے كرتے ہم دو بجے كمرے ميں پہنچ گئے-وو کو  نام كے لجاظ سے تو فائيو سٹار ہوٹل ہے ليكن اس كے كمرے اور ديگر سہوليات ايك تھری سٹار ہوٹل كی طرح ہيں- یہ مکہ مکرمہ میں شارع ابراہیم خلیل پہ واقع ہے لیکن حرم سے تقریباً دو ڈھائی کلومیٹر دور -یوں کہیے كہ  یہ  حرم کی جانب نہیں بلکہ شہر کی جانب ہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ4 202 میں جب میں  اپنے دوسرے بیٹے عمر کے ہمراہ عمرے كے ليے گيا تو بھی ہم مکہ مکرمہ میں اسی شارع يعنی ابراہیم خلیل پہ ہی ٹھہرے تھے لیکن اس کے بالکل برعكس یعنی حرم کی جانب- حرم کی طرف سے جو سب سے پہلا ہوٹل آتا ہے ہوٹل ورتھ ايليٹ ،اس میں ٹھہرے تھے یعنی ایک سال اس شارع کی ایک انتہا پر اور دوسرے برس اس شار ع كی دوسری انتہا پر – 2024 كا سفر بھی ايك يادگار سفر تھا اس كی تفصيل پھر كبھی،  فی الحال 2023 كے سفر كی بات مكمل كر تے ہيں-

ظہر ، عصر ، مغرب ہوٹل ميں ادا كيں – مغرب كے بعد سوئے حرم روانہ ہوئے -حرم پہنچ كر يہ فيصلہ كيا كہ پہلے بيٹابہو اور پوتا طواف كر يں گے اور ہم بيٹھ كر انتظار كر يں گے كيونكہ  ميری اہليہ يہ چاہتی تھی كہ وہ بھی بجائے ويل چير كے خود چل كر طواف كر ے – اگر ويل چير لے جاتے تو شرطوں نے  مطاف ميں جانے ہی نہيں دينا تھا اس ليے ہم فرسٹ فلور پر بيٹھ كر انتظار كرتے رہے اور جب ہمارے ہمراہيوں كا طواف مكمل ہو گيا تو وہ اوپر آ كرہماری جگہ پر بيٹھ گئے اور ہم طواف كرنے چلے گئے – طواف ايك ايسی عبادت ہے جو صرف اسی جگہ كی جا سكتی ہے اور اس عبادت كا جو انداز  اور اس كے اندر جو وارفتگی ہے وہ كسی اور عباد ت كے اند ر موجود نہيں- طواف كے دوران  ميں ہر ايك كی كيفيت بھی اسی طرح الگ الگ ہوتی ہے جس طرح سب كی شكل و صورت الگ الگ ہے –

طواف ختم ہوتے ہی عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا چنانچہ عشاء کی نماز ادا کی اور عشاء کی نماز کے بعد ہم سب سعی کی طرف چلے -سعی ہم سب نے اکٹھے ادا کی -يہ بڑا یادگار منظر تھا جب میرا پوتا کبھی چلتا، کبھی اپنی پرام میں بیٹھتا اورکبھی دوڑنے كی كوشش كرتا – اس بچے کے گرتے پڑتے دوڑنے سے اماں ہاجرہ علیہا السلام کا دوڑنا یاد آیا ، ان کے بچے کی پیاس یاد آئی- عمرہ اور حج بھی کیسی عجیب عبادت ہے -ایک ماں ، ايك باپ  اور ايك بيٹے کی كہانی ہے- جب اللہ كريم كو كسی كی فرمانبرداری  پسند آ جاتی ہے تو وہ اسے یوں رہتی دنیا تک یادگار بنا دیتا ہے-

سعی سے فارغ ہوئے توعمرے كے آخری مرحلے يعنی حلق كی فكر لاحق ہوئی- ميں نے مشورہ ديا كہ ہوٹل كی جانب چلتے ہيں -وہيں راستے ميں حلق كروا كے اور كھانا كھا كے واپس جائيں گے – چنانچہ ايسے ہی كيا اور رات دير گئے الحمد للہ عمرہ مكمل كر كے واپس ہوٹل پہنچ گئے –

اگلے تين دن طواف کرتے، نمازیں پڑھتے اور ہوٹل آتے جاتے  گزرے -ہوٹل سے حرم تک شٹل فراہم كی جاتی تھی -جاتے ہوئے تو شٹل مل جاتی مگر واپسی  پہ  اس کا ملنا بہت دشوار تھا- اس لیے ہم اکثر شٹل پہ چلے تو جاتے لیکن واپس  ٹیکسی پہ آتے-  دو بار تو میں پیدل گیا اور پیدل  ہی آيا- زیادہ مشکل پیش نہیں آئی- طواف  اہليہ کو ایک دفعہ ویل چیئر پہ کروایا اوپر والے فلور پہ، ایک دفعہ اس نے خود ہی  مطاف ميں کيا-الحمدللہ، اللہ نے فضل فرمايا سارے مناسك بآسانی مكمل ہو گئے –مقامی زيارات البتہ بوجوہ نہيں كر سكے ليكن ہر آنے والے زائر كو ميرا مشورہ ہے كہ  اگر ہمت ہو تو غار حرا اور غار ثور كی زيارت ضرور كرے كيونكہ يہ وہ جگہيں ہيں كہ جو آج بھی ويسے ہی محفوظ ہيں جيسے حضو رﷺ كے زمانے ميں تھيں-مساجد اور حرم تك تبديل ہو گئے ليكن يہ جگہيں تبديل نہيں ہوئيں بلكہ اب تو بہت سہولت بھی ہو گئی ہے كہ غار حرا تك جانے كے ليے  تقريباً سب سيڑھياں بن گئ ہيں بلكہ اب تو چير لفٹ كا پروگرام بھی ہے اور وہاں تك سڑك بنانے كا بھی اہتمام كيا جا رہا ہے – اس ليے اب تو وہاں جانا كوئی مسئلہ نہ ہوگا ليكن اصل تو يہی ہے كہ انسان اس پہاڑ پر پيدل جائے تا كہ اندازہ ہو كہ آقا ﷺ كتنی مشقت فرمايا كرتے تھے -اگرچہ ان جگہوں كی زيارت كوئی شريعت كا تقاضا يا ثواب تونہيں مگر محبوب كی محبوب چيزوں سے محبت بھی محبت كا تقاضا ہے  -

مدينہ منورہ ميں ہم ساڑھے تين دن  (يعنی اتوار 30 جولائی 2023 كی صبح سے بدھ 2 ، اگست 2023 كی  دوپہر تك)  اور  مكہ مكرمہ ميں ساڑھے چار دن (يعنی بدھ 2، اگست كی سہ پہر سے اتوار چھ اگست كی رات   تك) - ٹھہرے  اور يوں واپسی کا دن آن پہنچا -  چند دن تھے جو گزر گئے- وقت کی سب سے بڑی خوبی يہی ہے  كہ يہ گزر جاتا ہے، اچھا بھی اور برا بھی-  چھ اگست کی رات ہماری واپسی تھی –بيٹے كی فلائٹ جدہ سے بارسلونا اور ہماری جدہ سے لاہور – وقت تقريباً قريب قريب ہی تھا-  كل ہی ايك بڑی ٹيكسی والے سے بات كر لی تھی – چنانچہ عشا كے بعد ہم عازم جدہ ہوئے -  ہماری فلائٹ  رات  چار بجے تھی اور بيٹے كی دو بجے -گيارہ بجے كے قريب ہم اير پورٹ پہنچ گئے – پہلے ہم نے سامان بك كروايا، بورڈنگ پاس ليا اور پھر بچوں كو الوداع كہا كيونكہ ان كا سامان بك كروانے كا ہال مختلف تھا-مختلف مراحل عبور كرتے كرتے جب ہم بورڈنگ گيٹس والے ہال  تك پہنچے تو بچے بھی وہاں آن پہنچے اور اسطرح ہميں ننھے مسافر سے كھيلنے كی چند گھڑياں اور مل گئيں- وہاں سے فائنل خدا حافظ كہا اور ہم اپنے اپنے گيٹ پر پہنچ گئے – واپسی پہ سعود  ی اير لائن كا جہاز بہت ہی گھٹيا معيار كا تھا ، اير بلو سے بھی كم – بہر حال فلائٹ ہموار رہی اور يوں ہم پير 7 ، اگست صبح گيار ہ بجے لاہور پہنچ گئے – الحمد للہ- اور اس كے ساتھ ہی يہ مبارك سفر اختتام كو پہنچا – اللہ كريم قبول فرمائے -