یہاں بھی تو وہاں بھی تو زمیں تیری تیری فلک تیرا
کہیں ہم نے پتہ پایا نہ ہر گز آج تک تیرا
صفات و ذات میں یکتا ہے تو اے واحد مطلق
نہ کوئی تیرا ثانی کوئی مشترک تیرا
جمال احمد و یوسف کو رونق تو نے بخشی ہے
ملاحت تجھ سے شیریں حسن شیریں میں نمک تیرا
ترے فیض و کرم سے نار و نور آپس میں یکدل ہیں
ثنا گر یک زبان ہر ایک ہے جن و ملک تیرا
کسی کو کیا خبر کیوں شر پیدا کئے تو نے
کہ جو کچھ ہے خدائی میں وہ ہے لاریب کئے تو نے
نہ جلتا طور کیونکر کس طرح موسی نہ غش کھاتے
کہاں یہ تاب و طاقت جلوہ دیکھئے مر دیک تیرا
دعا یہ ہے کہ وقت مرگ اسکی مشکل آساں ہو
زباں پر داغ کے نام آئے یا رب یک بہ یک تیرا