آج سے سات سو سال پہلے بغداد میں ایک بڑے پائے کے عالم رہائش پذیر تھے۔ اْن کا نام تھا قاضی ابو بکر بغدادی۔ وہ قاضی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ محدث اور مقرر بھی تھے۔ دن کے وقت وہ عدالت میں مقدمات سنتے جبکہ رات کو قرآن و حدیث کے طلبہ کو تعلیم دیتے۔ یہ طلبہ نہایت کثیر تعداد میں تھے جن کے قیام و طعام کی ذمہ داری قاضی ابو بکر کے کندھوں پر تھی۔ وہ نہ صرف اِن طلبہ کو دو وقت کا کھانا مہیا فرماتے بلکہ ان کی رہائش کا بندوبست بھی ان کے ذمے تھا۔
ایک دن اْن کے شاگردوں نے اْن سے پوچھا‘‘حضرت! آپ کی تنخواہ تو معمولی ہے تو پھر یہ اتنے ڈھیر سارے اخراجات کہاں سے پورے کرتے ہیں؟’’ طلبہ کا سوال سن کر قاضی صاحب مسکرائے پھر کہا ‘‘یہ ایک راز ہے۔ اس راز پر سے پردہ تب تک نہیں اْٹھ سکتا جب تک کہ میں تمھیں اپنے ماضی کے چند عجیب و غریب واقعات نہ سنادوں۔اِس لیے بہتر ہے کہ فی الحال تم اِس راز کو راز ہی رہنے دو۔’’
شاگرد سمجھے کہ شاید اِس وقت اْن کا کچھ بتانے کا اِرادہ نہیں لہٰذاوہ چپ ہورہے۔ لیکن تھوڑے عرصے بعد شاگردوں نے ایک مرتبہ پھر عرض کی‘‘اْستادِ محترم! آپ نیک کاموں میں اس قدر خرچ کرتے ہیں۔ بظاہر آپ کی آمدنی کا بھی کوئی خاص ذریعہ نہیں، پھر یہ درہم و دینار آپ کے پاس کہاں سے آتے ہیں؟’’
اْستاد نے انھیں ایک مرتبہ پھر طرح دی اور مال کی نسبت اللہ تعالیٰ کے غیبی خزانوں کی طرف اشارہ کیا۔ لیکن اس بار شاگرد اس راز کو جاننے پر بضد تھے۔ شاگردوں کا اصرار دیکھتے ہوئے اْستاد نے بالآخر ان سے کہا ‘‘اِس مال کے ساتھ میری جوانی کا ایک نہایت اہم واقعہ وابستہ ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے انسان کو ایسے ایسے عجائبات دکھاتا ہے کہ اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔
لو سنو! یہ آج سے تیس بتیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں اْن دنوں جوان تھا اور علمِ دین کے حصول میں ہمہ وقت مشغول رہتا تھا۔ میرے ساتھ میرے چند دوست بھی تھے۔ ہماری دن رات کی مصروفیت یہی تھی کہ قرآن و حدیث پڑھتے اور باقی وقت تکرار یا مطالعے میں صرف کرتے۔ میں اْن دنوں یہیں بغداد میں مقیم تھا۔ شہر کے علمی حلقوں میں اْن دنوں مکہ معظمہ کے ایک عرب عالم کا بہت شہرہ تھا جن کا نام شیخ عبداللہ عزام تھا۔ وہ علمِ حدیث میں یکتائے روزگار تھے اور دور دور سے طالبانِ علم آکر اْن کے درس میں شریک ہوتے۔میں محدثین کی محفلوں میں بیٹھنے کا بڑا حریص تھا۔ چناں چہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مکہ جا کر شیخ عبداللہ عزام کی صحبت سے فیض یاب ہونا چاہتا ہوں۔ آپ لوگوں کو اگر منظور ہو تو میرے ساتھ چلیں ورنہ آپ لوگوں کی مرضی۔ میرے تینوں ساتھی شاید کم ہمت تھے ،اْنھوں نے میرے ساتھ اتنی دورجانے سے صاف انکار کردیا۔
چناں چہ رختِ سفر باندھا اور تنہا ہی منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا مکہ معظمہ جاپہنچا۔ وہاں معلوم ہوا کہ شیخ عبداللہ عزام صاحبِ فراش ہیں اور فی الحال درسِ حدیث کا سلسلہ موقوف ہے۔یہ سن کر اگرچہ مجھے بہت مایوسی ہوئی، تاہم یہ جان کر کچھ سکون محسوس ہوا کہ مکہ میں اْن دنوں بہت سے جلیل القدر علما موجود ہیں جو مسجدِ حَرم میں درس دیتے تھے۔ اگر شیخ عزام سے استفادہ نہیں ہوسکتا تو کم از کم اْن بزرگوں سے علم حاصل کرنا ممکن تھا۔ چناں چہ میں واپس بغداد جانے کے بجائے وہیں ٹھہرگیا اور حرم کی علمی مجالس سے اپنی پیاس بجھانے لگا۔
اْن دنوں میرے ساتھ ایک بدقسمتی یہ ہوئی کہ میرا زادِ راہ ختم ہوگیا لیکن میں نے اِس کی چنداں پروا نہ کی۔ میرے پاس کچھ کھجوریں اور ستو موجود تھے، تھوڑا سا زیتون کا تیل بھی مل گیا۔ میں نے اِنہی چیزوں کو غنیمت جانا اور روکھی سوکھی کھا کر تحصیلِ علم میں مشغول رہنے لگا۔ چند ہی دنوں بعد میرا ذخیرہ خوراک ختم ہوگیا اور ایک دن ایسا آیا کہ میرے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ رہا اور فاقوں تک نوبت آن پہنچی۔اس حالت میں یہ سوچ کر گھر سے نکلا کہ شاید باہر سے کوئی چیز کھانے کی مل جائے اور اگر کچھ بھی نہ ملا تو حرم جا کر اپنے رب سے مانگوں گا۔ میں گھر سے نکل کر گلی میں آگیا۔ اتفاق سے مجھے سامنے ہی ایک ریشم کی تھیلی پڑی ملی۔ دوپہر کا وقت اور ہو کا عالم تھا۔ گلی بالکل سنسان تھی اور کوئی شخص بھی آس پاس نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے وہ تھیلی اْٹھائی اور گھر لے آیا۔گھر آکر تھیلی کھولی’ تو اْس میں سفید رنگ کے خوبصورت موتیوں والا ایک ہار نکلا۔ میں نے اْسے الٹ پلٹ کردیکھا۔ ہار کے موتی ہر زاویے سے اس طرح چمکتے تھے کہ اْنھیں دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی تھیں۔ مجھے یہ سمجھنے میں ذرا بھی دشواری نہ ہوئی کہ یہ ایک بہت قیمتی ہار ہے۔ میں نے اْسے تھیلی میں ڈال کر بستر کے نیچے چھپا دیا۔ظہر سے عصر تک کا وقت اِسی ادھیڑ بن میں گزر گیا۔ میں یہ سوچتا رہا کہ یہ تھیلی گلی میں کیوں پڑی تھی اور اتنا بیش قیمت ہار کس کا ہوسکتا ہے؟ اِسی دوران عصر کی اذان بلند ہوئی اور میں نماز کی ادائی کے لیے حرم شریف چلا گیا۔ عصر کی نماز پڑھ کر آیا اور دوبارہ یہ سوچنے لگا کہ یااللہ’ خبر نہیں اِس ہار کا مالک کون ہے اور میں اب اِسے اْس تک کیسے پہنچاؤں؟’’اِسی دوران گلی میں کچھ شور بلند ہوا۔ میں نے دروازے سے باہر جھانکا تو دیکھا کہ ایک اونٹ پر کوئی بوڑھا آدمی سوار ہے۔ اونٹ کے آگے چند آدمی دَف بجاتے چل رہے ہیں۔ وہ بوڑھا تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہ اعلان کرتا کہ مکہ والو! میری ایک تھیلی گم ہوگئی ہے۔ اْس میں ایک ہار تھا۔ وہ ہماری خاندانی میراث ہے۔ تم سب اللہ کے ہمسائے اور قابلِ تعریف لوگ ہو جس کو وہ تھیلی ملے براہِ مہربانی مجھے واپس کردے میں تھیلی واپس کرنے والے کو پانچ سو دینار انعام دوں گا۔ خدا تم پر رحم کرے مکہ والو!’’
یہ کہہ کر وہ اپنے دائیں ہاتھ کو ہوا میں لہراتا جس میں ایک پھٹے پرانے کپڑے میں دینار واضح نظر آرہے تھے۔ میں یہ اعلان سْن کر حیران رہ گیا۔ دل میں سوچا کہ شاید یہی بوڑھا اِس تھیلی کا حقیقی مالک ہے۔ مجھے ضرور یہ اْس تک پہنچانی چاہیے۔ میں ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ اعلان کرنے والا اور اس کے ساتھی میرے گھر کے سامنے سے گزرنے لگے۔ میں لپک کر باہر نکلا اور اونٹ کی لگام تھام کر کہا‘‘بڑے میاں! ذرا میری بات سنیے۔’’‘‘کہو نوجوان’’ بوڑھے آدمی نے جھک کر کہا‘‘کیا بات ہے؟’’
‘‘آپ ذرا نیچے اْتر کر میرے گھر آئیے۔’’ میں نے کہا‘‘آپ کی تھیلی میرے پاس ہے۔’’بوڑھا جلدی سے نیچے اْتر آیا۔ میں نے اْسے بٹھایا’ بستر کے نیچے سے ریشمی تھیلی نکال کر اْسے دی اور پوچھا ‘‘کیا یہی وہ تھیلی ہے جس کی آپ کو تلاش ہے؟’’
بوڑھے نے میرے ہاتھ سے تھیلی جھپٹی اور تیزی سے اْسے کھولا۔ اْس میں وہ ہار جوں کا توں موجود تھا۔ بوڑھے نے ہار نکال کر اْسے چْوما اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا‘‘نوجوان!یہ ہار سفر کے دوران مجھ سے کہیں کھو گیا تھا،میں اِس کی وجہ سے سخت پریشان تھا۔ خدا تمھیں جزا ئے خیر دے’ تم بہت دیانت دار ہو۔ لو اپنا انعام سنبھالو۔’’
یہ کہہ کر اْس نے دینار میرے آگے کر دیے۔ میں نے کہا:‘‘بڑے میاں! یہ ہار مجھے گلی میں پڑا ملا تھا’ میں اسے اندر اْٹھا لایا۔یہ میرے پاس آپ کی امانت تھا۔ میرا تو یہ فرض تھا کہ میں اِسے آپ کو واپس کروں۔ مجھے انعام کی ضرورت نہیں، میں اپنی نیکی فروخت نہیں کرتا۔’’ میری بات کا بوڑھے پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بدستور اِس پر بضد رہا کہ میں دینار قبول کرلوں۔ اْس نے بہت اِصرار کیا لیکن ادھر میں بھی اپنی بات پر جما رہا۔ آخر وہ بوڑھا نہ مانا اور دینار میرے پاس چھوڑ کر چلا گیا۔میرے پاس کچھ نہ تھا اور میں بہت بھوکا تھا لہٰذا میں نے چار و ناچار اْن دیناروں سے اپنی غذا کا بندوبست کیا اور مکان کے مالک کو کرایہ بھی ادا کیا۔ اِسی دوران شیخ عبداللہ عزام نے حرم شریف میں دوبارہ درسِ حدیث کا سلسلہ شروع کر دیا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور روزانہ شیخ کی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔میں کافی عرصے تک تحصیلِ علم میں مشغول رہا اور اِس دوران مالی ضرورتوں کے لیے وہی دینار کفالت کرتے رہے۔
آخر وہ دن بھی آگیا کہ جب میں نے جو کچھ سیکھنا تھا سیکھ لیا اور واپس بغداد جانے کے لیے ‘‘جدہ’’ کی بندرگاہ پرپہنچا۔ وہاں سے میں نے بحری سفر شروع کیا۔ کشتی کا ملاح اناڑی تھا۔ وہ ہمیں کسی غلط سمت لے گیا۔ ہم سب اتنے ڈرے سہمے بیٹھے تھے کہ کوئی کسی سے بات نہ کرتا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اندھیرا چھا گیا اور بارش ہونے لگی۔ ملاح موسم کی شدت پر لعنت کرنے لگا۔ اِسی دوران کشتی ہچکولے لینے لگی اور آخر کار ٹوٹ گئی۔اْس وقت ہم جس مصیبت سے دوچار تھے’ اْس کا اندازہ لگاناآسان نہیں۔ آسمان پر بجلی کڑک رہی تھی اور نیچے سمندر کی طوفانی لہروں کا شور اور ایسے میں خوفزدہ مسافروں کی چیخ پکار جاری تھی۔ میں اس سارے وقت میں آنکھیں بند کیے کشتی کے ایک تختے سے چمٹا رہا۔ سارا دن وہ تختہ سمندر میں تیرتا رہا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ میں کس طرف جارہا ہوں اور باقی مسافروں کا کیا بنا؟آخرکار خدا خدا کرکے وہ تختہ ایک جزیرے کے ساحل سے جا لگا۔ میں ساحل کی ریت پر جا لیٹا۔ جب ذرا حالت سنبھلی تو اْٹھ کر آگے بڑھا اور جنگلی پھلوں سے اپنی بھوک مٹائی۔ جب حواس بحال ہوئے تو دیکھا کہ جزیرے کے وسط میں ایک مسجد ہے اور کچھ دور آبادی بھی ہے۔ میں مسجد میں چلا گیا۔وہاں قرآن پاک کے کچھ اوراق رکھے تھے۔ میں انھیں پڑھنے لگا۔ مجھے قرآن پڑھتے دیکھ کر آبادی میں سے کچھ مرد اور عورتیں میرے پاس آئے اور کہنے لگے:‘‘اے شیخ! کیا آپ عالم ہیں؟’’‘‘میں ایک طالبِ علم ہوں۔’’ میں نے عاجزی سے کہا۔وہ کہنے لگے ‘‘اے شیخ ہم مسلمان ہیں’ لیکن قرآن پڑھنا نہیں جانتے۔’’ آپ مہربانی فرما کر ہمیں تلاوت سکھا دیں اور اگر ہوسکے تو کچھ لکھنے پڑھنے کی بھی مشق کروا دیں۔’’
چناں چہ میں نے یہ پیش کش قبول کر لی اور اْن کے بچوں کو قرآن و کتابت سکھلانے لگا۔ اِس کے بدلے مجھے صبح و شام کھانا مل جاتا۔ رفتہ رفتہ وہ لوگ مجھ سے بہت مانوس ہو گئے۔ وہ میری قدر کرتے تھے اور بڑے ادب سے ‘‘حضرت الاستاذ’’ کہہ کر مجھے پکارتے۔ میری زندگی کے دن یونہی گزر رہے تھے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ میں کہاں ہوں اور کن لوگوں کے درمیان ہوں؟ایک دن اْن کے ایک بزرگ میرے پاس آئے اور بولے ‘‘یا شیخ! یہاں ایک یتیم بچی ہے، خاصی مالدار ہے اور سلیقہ شعار بھی ہے۔ آپ شریف النفس ہیں اور تنہا بھی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ اْس بچی سے نکاح کر لیں’ اِس طرح آپ کی گزر بسر آسانی سے ہوسکے گی۔’’
میں نے انکار کر دیا۔ لیکن وہ لوگ مسلسل اِصرار کرتے رہے اور مجھے اتنا مجبور کیا کہ آخر کار میں نے اْن کی بات مان لی۔چناں چہ میرے نکاح کے انتظامات ہوئے۔ نکاح کی رات جب میں نے اپنی دلھن کو دیکھا تو اْس کے گلے میں وہی ہار تھا جو میں نے مکہ میں اْس بوڑھے کو واپس کیا تھا۔میں ہار دیکھ کر بہت حیران ہوا اور گھر سے باہر آکر لوگوں کو سارا ماجرا سنایا۔ میری بات سن کر لوگوں نے اِس زور سے نعرہ لگایا کہ اْن کی آواز پورے جزیرے میں گونج گئی۔ میری حیرانی ہنوز باقی تھی بلکہ اِس بات سے مجھے مزید حیرت ہوئی۔مجھے پریشان دیکھ کر جزیرے والوں نے بتایا ‘‘وہ بڑے میاں جنھیں آپ نے مکہ میں ہار واپس کیا تھا’ اس بچی کے والد تھے۔ آپ سے پہلے وہی اِس مسجد کے امام بھی تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے زندگی میں سچے و ایمان دار لوگ کم ہی ملے۔ ان میں وہ مسلمان نوجوان بھی شامل ہے جس نے مجھے میرا خاندانی ہار واپس کیا تھا۔ یااللہ!میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اْس سے دوبارہ ملادے تاکہ اپنی بیٹی کا نکاح اْس سے کردوں۔ اور اب ایسا ہو بھی گیا۔ ہم سب قدرت کے اِس اتفاق پر حیران ہیں اور اِسی خوشی میں ہم نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ہے۔’’
اْن کی بات سن کر مجھے بھی بہت خوشی ہوئی اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ میں پھر اپنی بیوی کے ساتھ مدت تک اِس جزیرے میں رہا اور بہت خوش گوار زندگی گزاری۔ بعدازاں جب میری رفیقہ حیات کا انتقال ہوا’تو میں پھر تنہا ہوگیا۔ کچھ عرصہ تو میں اْس جزیرے میں رہا پھر اْن لوگوں سے اجازت لے کر بغداد واپس آگیا۔وہ ہار ابھی تک میرے پاس تھا۔ جزیرے والوں نے بخوشی اْسے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی۔بغداد میں وہ ہار ایک تاجر کو پسند آگیا۔ اْس نے کئی لاکھ دینار میں وہ مجھ سے خرید لیا۔ میں نے دینار اپنے پاس سنبھال رکھے ہیں۔ انہی سے میں تم لوگوں کے اخراجات پورے کرتا ہوں۔ چونکہ میں اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرتا ہوں’ اِس وجہ سے برکت ہی برکت ہے۔ یہ داستان بیان کرنے کے بعد شیخ ابو بکر بغدادی خاموش ہوگئے اور پھر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے لگے۔شاگرد بھی یہ جان کر مطمئن ہوئے کہ ان کے استاذ کو رب کائنات کی طرف سے دولت عطا ہوئی ہے۔