عبادت کا حقیقی تصور
(سید ابوالاعلیٰ مودودی)
قرآن کی رْو سے عبادت وہ اصل مقصد ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے
(وَمَا خَلَقتْ الجِنَّ وَ الاِنسَ اِلَّا لِیَعبْدْون۔ (الذّٰریٰت۱ ۵:۲ ۵)
‘‘میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔’’
انبیا جس غرض کے لیے دنیا میں بھیجے گئے وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ انسان کو خدا کی عبادت کی طرف دعوت دیں۔
(اَنِ اعبْدْو ا َ وَ اجتَنِبْوالطَّاغْوت (النحل)
’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔‘‘
پس ہمارے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ عبادت سے مراد کیا ہے اور اسلام میں جو عبادات ہم پر فرض کی گئی ہیں ان کی اصلی روح کیا ہے؟ دنیا کو چھوڑ کر کونوں اور گوشوں میں جا بیٹھنا اور اللہ اللہ کرنا عبادت نہیں بلکہ دنیا کے دھندوں میں پھنس کر دنیوی زندگی کی ساری ذمے داریوں کو سنبھال کر خدا کے قانون کی پابندی کرنا عبادت ہے۔ ذکرِ الٰہی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان پر اللہ اللہ جاری ہو بلکہ اصلی ذکرِالٰہی یہ ہے کہ جو چیزیں خدا سے غافل کرنے والی ہیں ان میں پھنسو اور پھر خدا سے غافل نہ ہو۔ دنیا کی زندگی میں جہاں قانونِ الٰہی کو توڑنے کے بے شمار مواقع بڑے بڑے نقصانوں کا خوف لیے ہوئے سامنے آتے ہیں، وہاں خدا کو یاد کرو اور اس کے قانون کی پیروی پر قائم رہو۔ حکومت کی کرسی پر بیٹھو اور وہاں یاد رکھو کہ میں بندوں کا خدا نہیں ہوں۔عدالت کے منصب پر متمکن ہو اور وہاں ظلم پر قادر ہونے کے باوجود خیال رکھو کہ خدا کی طرف سے میں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں۔ زمین کے خزانوں پر قابض و متصرف ہو اور پھر یاد رکھو کہ میں ان خزانوں کا مالک نہیں بلکہ امین ہوں اور پائی پائی کا حساب مجھے اصل مالک کو دینا ہے۔ فوجوں کے کمانڈر بنو اور پھر خوفِ خدا تمھیں طاقت کے نشے میں مدہوش ہونے سے بچاتا رہے۔ سیاست و جہاں بانی کا کٹھن کام ہاتھ میں لو اور پھر سچائی، انصاف اور حق پسندی کے مستقل اصولوں پر عمل کرکے دکھاؤ۔ تجارت اور مالیات اور صنعت کی باگیں سنبھالو اور پھر کامیابی کے ذرائع میں پاک اور ناپاک کا امتیاز کرتے ہوئے چلو۔
ایک ایک قدم پر حرام تمھارے سامنے ہزار خوش نمائیوں کے ساتھ آئے اور پھر تمھاری رفتار میں لغزش نہ آنے پائے۔ ہر طرف ظلم و جھوٹ و دغا، فریب اور بدکاری کے راستے تمھارے سامنے کھلے ہوئے ہوں اور دنیوی کامیابیاں اور مادی لذتیں ہر راستے کے سرے پر جگمگاتے ہوئے تاج پہنے کھڑی نظر آئیں اور پھر خدا کی یاد اور آخرت کی بازپرس کا خوف تمھارے لیے بندِپا بن جائے۔ حدود اللہ میں سے ایک ایک حد قائم کرنے میں ہزاروں مشکلیں دکھائی دیں، حق کا دامن تھامنے اور عدل و صداقت پر قائم رہنے میں جان و مال کا زیاں نظر آئے اور خدا کے قانون کی پیروی کرنا زمین و آسمان کو دشمن بنا لینے کا ہم معنی ہوجائے، پھر بھی تمھارا ارادہ متزلزل نہ ہو اور تمھاری جبین عزم پر شکن تک نہ آئے۔ یہ ہے اصلی عبادت، اس کا نام ہے یادِخدا، اسی کو ذکرِالٰہی کہتے ہیں اور یہی وہ ذکر ہے جس کی طرف قرآن میں اشارہ فرمایا گیا ہے ‘‘پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے۔’’
روزہ۔ ایک تربیتی کورس
اسلام انسان کی دنیوی زندگی کو عبادت میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ آدمی کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو، لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے ساتھ یہ بات لازم آ جاتی ہے کہ اللہ کو آدمی نے اپنا معبود تسلیم کیا ہے، اس کا عبد یعنی بندہ بن کر رہے اور بندہ بن کر رہنے ہی کا نام عبادت ہے۔ کہنے کو تو یہ چھوٹی سی بات ہے اور بڑی آسانی کے ساتھ اسے زبان سے ادا کردیا جاتا ہے مگر عملاً آدمی کی ساری زندگی کا اپنے تمام گوشوں کے ساتھ عبادت بن جاناآسان کام نہیں، اس کے لیے بڑی زبردست ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خاص طور پر ذہن کی تربیت کی جائے۔ مضبوط کردار پیدا کیا جائے۔ عادات اور خصائل کو ایک سانچے میں ڈھالا جائے اور صرف انفرادی سیرت ہی کی تعمیر پر اکتفا نہ کرلیا جائے بلکہ ایک ایسا اجتماعی نظام قائم کیا جائے جو بڑے پیمانے پر افراد کو اس عبادت کے لیے تیار کرنے والا ہو اور جس میں جماعت کی طاقت فرد کی پشت پناہ، اس کی مددگار اور اس کی کمزوریوں کی تلافی کرنے والی ہو۔
یہی غرض ہے جس کے لیے اسلام میں نماز، روزہ، زکوٰۃاور حج کی عبادتیں فرض کی گئی ہیں۔ ان کو عبادت کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس یہی عبادت ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس اصلی عبادت کے لیے آدمی کو تیار کرتی ہیں۔ یہ اس کے لیے لازمی ٹریننگ کورس ہیں۔ انہی سے وہ مخصوص ذہنیت بنتی ہے، اس مخصوص کردار کی تشکیل ہوتی ہے، منظم عادات و خصائل کا وہ پختہ سانچہ بنتا اور اس اجتماعی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں جس کے بغیر انسان کی زندگی کسی طرح عبادتِ الٰہی میں تبدیل نہیں ہو سکتی۔ ان ۴ چیزوں کے سوا اور کوئی ذریعہ ایسا نہیں جس سے یہ مقصد حاصل ہوسکے۔ اسی بنا پر ان کو ارکانِ اسلام قرار دیا گیا ہے۔ یعنی یہ وہ ستون ہیں جن پر اسلامی زندگی کی عمارت قائم ہوتی اور قائم رہتی ہے۔