یہ حال تو تارکین صیام کا تھا۔ اب انہیں دیکھیں جو عاملین و صائمین میں دا خل ہیں۔ یہ سرگزشت ان کی تھی جنہوں نے شریعت کو چھوڑ دیا، لیکن آؤ اب ان کے سراغ میں نکلیں جو اب تک دامن شریعت سے وابستہ ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو پانی سے دور ہوگئے۔ اب آؤ ان کو دیکھیں جو دریا کے کنارے خیمہ زن ہیں پھر کیا وہ سیراب ہیں؟کیا وہ پہلوں کی طرح پیاسے نہیں!!
افسوس کہ حقیقت کی آنکھیں اب تک خونبار ہیں اور عشق مقصود کا قدم یہاں تک پہنچ کر بھی کامیاب نہیں۔ یہ سچ ہے کہ پہلوں نے دریا کی راہ چھوڑ دی اور دوسرے نے اس کے کنارے اپنا خیمہ لگایا اور اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ اس کا اجر انہیں ملنا چاہئے، لیکن اگر دریا کا قرب دریا کے لئے نہیں بلکہ دریا کے پانی کے لئے تھا تو پہلا گروہ پانی سے دور رہ کر پیاسا رہا، اور دوسرے اس تک پہنچ کر پیاسے ہیں۔انہیں کشتی نہیں ملتی، انہیں ساحل نہیں ملتا۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے شریعت کے حکموں کو تو لے لیا ہے، مگر اس کی حقیقت چھوڑ دی ہے۔ یہ وہ ہیں کہ انہوں نے چھلکے پر قناعت کی اور اس کے مغز کو ان لوگوں کی طرح چھوڑ دیا جنہوں نے چھلکا اور مغز دونوں چھوڑ دیا ہے۔ یہ جسم کو انسان سمجھتے ہیں حالانکہ جسم بغیر روح کے ایک سڑجانے والی لاش ہے۔ یہ نقاب کو چہرۂ محبوب سمجھے ہیں، حالانکہ عیش نظارہ اس نے پایا، جس نے نقاب کی جگہ صورت سے عشق کیا۔ کاشت کار پھل کے لئے بیج بوتا ہے اور پھولوں کی ساری محبوبیت اس میں ہے کہ اس کی خوشبو سے دماغ معطر ہوجاتا ہے۔ پس اگر بیج پھل نہ لایا اور پھولوں نے خوشبو نہ دی تو کاشتکار کے لئے ہل جوتنے کی جگہ بہتر تھا کہ وہ گھر میں آرام سے سوتا، اور بے خوشبو کے پھولوں سے وہ خشک ٹہنی زیادہ قیمتی ہے جو چولہے میں جلائی جاسکے فَوَیلٌ لِلمُصَلّینَ الَّذینَ ہُم عَن صَلاتِہِم ساہونَ (سورۃ الماعون)
نماز ہو یا روزہ، شریعت کے جتنے اَحکام اور جتنی طاعات ہیں، سب کا حال یہ ہے کہ ایک شے تو ان میں مقصو د بالذات ہوتی ہے اور ایک اس مقصود کے حاصل کرنے کا وسیلہ...!نماز میں اصلی شے عبودیت ِالٰہی، انکسار و تذلل، خضو ع و خشوع، ابتہال و توجہ الی اللہ وانقطاع و تبتّل ہے، اور نتیجہ اس کا تمام فواحش و منکرات اور رذائل و خبائث سے اجتناب و تحفظ ہے۔ حج کا مقصود دعوتِ اسلامی کی نشا ۃ اولیٰ کی یادگار، اسوۂ ابراہیم کی تجدید، مرکز ِتوحید پر تمام شعوب و قبائل موحدین کا اجتماع، اور وحدتِ اسلامی و اتحادِ ممالک و اُمم کا ظہور و قیام ہے اور نتیجہ اس کا تعلق الٰہی کی تقویت، احکامِ شریعت کا انقیاد اور رفع انشقاق و ا ختلاف، و انسدادِ تفریق و تشتت کلمہ اسلام ہے۔
اسی طرح روزہ بھی صرف بھوک پیاس کا نام نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر فقیر عابد ہوتا اور ہر فاقہ کش مومن کامل، حالانکہ بہت سے بے نصیب مسکین ہیں جن کی فاقہ کشی انہیں وہ شے نہیں دے سکتی جو ایک اللہ پرست بادشاہ، لذائذ و نعائم کے خوان ہائے پرتکلف کے سامنے بیٹھ کر پالیتا ہے۔ اصل شے روح کا تقویٰ، نفس کی طہارت، خواہشوں کا حبس، قوتوں کا احتساب اور جذبات کا ایثار ہے، اور چونکہ مخلوقات کے لئے غذا کی خواہش سب سے بڑی مجبو رکن خواہش ہے، اس لئے درسِ صبر، تعلیم تحمل، تولید فضائل اور نفوذِ اتقاء و ایثارِ نفس کے لئے اسی خواہش کے ترک کرنے کا حکم دیا گیا اور اس کو تمام روحانی فضائل کے کسب اور تمام اَ خلاقی رذائل سے اجتناب کا وسیلہ قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ کا حکم دینے کے بعد اس کی علت ایک نہایت ہی جامع و مانع اصطلاح شریعت میں واضح کردی گئی کہ:لَعَلَّکمْ تَتَّقُوْنَ یہ اس لئے ہے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو! 'تقویٰ 'بچنے اور پرہیز کرنے کو کہتے ہیں۔ قرآنِ حکیم کی اصطلاح میں اس سے مقصود تمام برائیوں اور رذالتوں سے بچنا اور پرہیز کرنا ہے۔
پس روزہ وہ ہے جو ہمیں پرہیزگاری کا سبق دے، روزہ وہ ہے جو ہمارے اندر تقویٰ اور طہارت پیدا کرے۔ روزہ وہ ہے جو ہمیں صبر اور تحمل شدائد و تکالیف کا عادی بنائے۔ روزہ وہ ہے جو ہماری تمام بہیمی قوتوں اور غضبی خواہشوں کے اندر اعتدال پیدا کرے ، روزہ وہ ہے جس سے ہمارے اندر نیکیوں کا جوش، صداقتوں کا عشق، راست بازی کی شیفتگی، اور برائیوں سے اجتناب کی قوت پیدا ہو۔ یہی چیز روزہ کا اصل مقصود ہے اورباقی سب کچھ بمنزلہ رسائل و ذرائع کے ہے۔ اگر یہ فضیلتیں ہمارے اندر پیدا نہ ہوئیں تو پھر روزہ ،روزہ نہیں ہے بلکہ محض بھوک کا عذاب او رپیاس کا دکھ ہے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ احادیث ِنبویہ میں روزہ کی برکتوں کے لئے 'احتساب' کی بھی شرط قرار دی گئی۔
‘‘من صام رمضان إیمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ’’رواہ البخاری
''جس شخص نے رمضان کے روزے احتساب ِنفس کے ساتھ رکھے سو اللہ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردے گا''
پھر کتنے ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ایک سچے صائم کی پاک اور ستھری زندگی بھی انہیں نصیب ہے۔ آہ، میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو ایک طرف تو نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں۔ دوسری طرف لوگوں کا مال کھاتے، بندوں کے حقوق غصب کرتے، ان کو دکھ اور تکلیف پہنچاتے، طرح طرح کے مکروفریب کو کام میں لاتے، اور جبکہ ان کے جسم کا پیٹ بھوکا ہوتا ہے تواپنے دل کے شکم کو گناہوں کی کثافت سے آسودہ اور سیر رکھتے ہیں۔ کیا یہی وہ روزہ دار نہیں جن کی نسبت فرمایا کہ:
‘‘کم من صائم لیس لہ من صومہ إلا الجوع والعطش’’رواہ النسائی و ابن ماجہ
''کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں ان کے روزے سے سوا بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا''
وہ راتوں کو تراویح میں قرآن سنتے ہیں اور صبح کو اس کی منزلیں ختم کرتے ہیں، لیکن اس کی نہ تو ہدایتیں ان کے سامعہ سے آگے جاتی ہیں اور نہ اس کی صدائیں حلق سے نیچے اترتی ہیں:
‘‘وربّ قائم لیس لہ من قیامہ إلا السہر’’رواہ ابن ماجہ
''اور کتنے راتوں کو ذکر و تلاوت کا قیام کرنے والے ہیں کہ انہیں اس سے سوائے شب بیداری کے اور کچھ فائدہ نہیں''
نیز فرمایا کہ ربّ تال للقرآن والقرآن یلعنہ بہت سے قرآن تلاوت کرنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت بھیجتا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی بدکرداریوں اور بے عملیوں سے قرآن کی تلاوت وسماعت کو لہوولعب بنا رکھا ہے۔
پھر کتنے ہی روزہ دار ہیں جن کا روزہ برکت و رحمت ہونے کی جگہ بندگانِ الٰہی کے لئے ایک آفت و مصیبت ہے، اور بہتر تھا کہ وہ روزہ نہ رکھتے۔ دن بھر بھوکا رہ کر اور رات کو تراویح پڑھ کر وہ ایسے مغرور و بدنفس ہو جاتے ہیں گویا انہوں نے اللہ پر، اس کے تمام ملائکہ پر، اور اس کے تمام بندوں پر ایک احسانِ عظیم کردیا ہے۔ اور اس کے معاوضہ میں انہیں کبریائی اور خود پرستی کی دائمی سند مل گئی ہے۔ اب اگر وہ انسانوں کو قتل بھی کرڈالیں، جب بھی ان سے کوئی پرسش نہیں۔ وہ تمام دن درندوں اور بھیڑیوں کی طرح لوگوں کو چیرتے پھاڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم روزہ دار ہیں۔ سو ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ زمین اور آسمان کا خداوند ان کے فاقہ کرنے کا محتاج نہیں ہے۔ اور ان کے اس روزہ رکھنے سے اس عاجز و درماندہ اور اپنی خطاؤں کا اعتراف کرنے والے گناہگار کا روزہ نہ رکھنا ہزار درجہ افضل ہے جو گو اللہ کا روزہ نہیں رکھتا مگر اس کے بندوں کو بھی نقصان نہیں پہنچاتا۔
روزہ کا مقصود نفس کا انکسار اور دل کی شکستگی تھی۔ پھر اے شریر انسان! تو روٹی او رپانی کا روزہ رکھ کر خون اور گوشت کو کھانا کیوں پسند کرتا ہے: أَیُحِبُّ أَحَدُکُم أَن یَأکُلَ لَحمَ أَخیہِ مَیتًا فَکَرِہتُموہُ (سورۃ الحجرات)''آیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے''
‘‘من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی أن یدع طعامہ وشرابہ’’
''جس شخص نے مکروفریب نہ چھوڑا اور اتقائے صیام پر عمل نہ کیا سو اللہ کو کوئی حاجت نہیں کہ اس کے کھانے اورپینے کو چھڑا دے اور اسے بھوکا رکھے'' (رواہ البخاری) اللہ فرماتا ہے کہلَن یَنالَ اللَّہَ لُحومُہا وَلا دِماؤُہا وَلٰکِن یَنالُہُ التَّقویٰ مِنکُم (سورۃ الحج) ''اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ ان کا خون، لیکن تمہارا تقویٰ اور تمہاری نیت پہنچتی ہے''
اگر قربانی کا گو شت اللہ تک نہیں پہنچتا، تو اے مغرورِ عبادت اور مردم آزار صائم! تیری بھوک اور پیاس بھی اللہ تک نہیں پہنچتی، بلکہ وہ چیز پہنچتی ہے جو تیرے دل اور تیری نیت میں ہے۔ اگر تجھے وہ نعمت حاصل نہیں تو تجھے معلوم ہو کہ تیری ساری ریاضت اِکارت اور تیری ساری مشقت بیکار ہے۔
پس وہ لوگ جنہوں نے روزہ نہ رکھا اور اللہ کا حکم توڑا، اور وہ جنہوں نے رکھا، پر اس کی حقیقت حاصل نہ کی، ان دونوں کی مثال ان دو لڑکوں کی سی ہے جن میں سے ایک تو
مدرسہ جانے کی جگہ گھر میں پڑا رہتا ہے، اور دوسرا مدرسہ میں تو حاضر ہوتا ہے لیکن پڑھنے کی جگہ دن بھر کھیلتا ہے۔ پہلا لڑکا مدرسہ نہ گیا اور علم سے محروم رہا۔ دوسرا گیا اور پھر بھی محروم رہا۔ البتہ جانے والے کو نہ جانے والے پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے، لیکن اگر وہ مدرسے جاکر لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہے تو بہتر تھا کہ وہ نہ جاتا۔
پھر خدارا غور کرو کہ ہمارا ماتم کیساشدید اور ہماری بربادی کیسی المناک ہے؟ کس طرح حقیقت ناپید اور صحیح عمل مفقود ہوگیا ہے۔ اس سے بڑھ کر شریعت کی غربت اور احکامِ الٰہیہ کی بے کسی کیاہوگی کہ مسلمانوں نے یا تو اسے چھوڑ دیا ہے یا لباس لے لیا ہے،اصل صورت چھوڑ دی ہے! آہ، یہ کیسی رُلا دینے والی بدبختی اور دیوانہ بنا دینے والا ماتم ہے کہ یا تو تم اس کے حکموں پر عمل نہیں کرتے یا کرتے ہو تو اس طرح کرتے ہو گویا اللہ سے ٹھٹھا اور تمسخر کرتے ہو۔ ''فوا أسفا، واحسرتا وامصیبتا'' جب حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے تو تنزل کا شکوہ کیوں اور تباہی ملت کی شکایت کیا؟ فہل من مدکر؟؟
(تحریر: مولانا ابو الکلام آزاد... ہفت روزہ 'الہلال' کلکتہ۲ ۱/ اگست ۱۹۱۴ء)