ماورا فکر و تخیل سے ہے پیکر تیرا
کیسے اک جھیل میں اترے گا سمندر تیرا
تیری عظمت کے نشانات ہیں کتنے روشن
تابعِ حکم ہے خورشیدِ منور تیرا
آمدِ صبح کا جب دیتی ہے پیغام صبا
ذکر ہوتا ہے گلی کوچہ میں گھر گھر تیرا
ثبت ہے جس پہ ابراہیم کی مہرِ تعمیر
ہم نے سجدوں سے بسایا ہے وہ محور تیرا
مدح خواں تیرے ہیں پیغمبر مکی مدنی
کیوں نہ لیں نام وضو کر کے سخنور تیرا
صحنِ کعبہ میں کہیں نصب مجھے بھی کر دے
سنگِ اسود بھی تِرا میں بھی ہوں پتھر تیرا
پھر شرف تجھ کو ملا دیدِ حرم کا راسخ
اوجِ گردوں پہ چمکتا ہے مقدر تیرا