آخر خالصہ راج کرنے لگا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جگہ جگہ نئی سکھ بستیاں بسائیں۔ انہی میں سے ایک کہوٹہ کے قریب تھوہا خالصہ تھی۔ بظاہر تھوہا چھوٹا سا گاؤں تھا لیکن اس کا رقبہ کافی بڑا تھا۔ زمیندارسکھ اور ہندو تھے، جب کہ کاشتکار مسلمان تھے۔ سکھ زیادہ تر سنار تھے۔ یہاں کا صرافہ بازار کشمیر تک مشہور تھا۔ خالصہ کے فروغ کے لیے جن مقامات کا انتخاب ہوا، تھوہا خالصہ ان میں سے ایک تھا۔ تھوہا میں ایک گردوارہ ’’دکھ پھج نی‘‘ پون صدی پہلے سنت اوتار سنگھ نے قائم کیا تھا اور یہ سکھ پنتھ کے پھیلاؤ میں رات دن سرگرمِ عمل تھا۔ سکھوں کی یہ مشنری سرگرمیاں تحصیل کہوٹہ کے مسلمانوں کے لیے باعثِ اضطراب تھیں اور دونوں قوموں کے درمیان کچھاؤ بڑھنے لگا تھا۔
1946 میں کہوٹہ شہر کے قلعہ نما گردوارہ میں ہونے والی سکھ کانفرنس میں اورنگ زیب عالمگیر پر کڑی تنقید کی گئی جس سے حالات کشیدہ ہو گئے۔ جواباً اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں علامہ سید انور شاہ، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر علی خان اور ہندوستان کے چوٹی کے علما نے شرکت کی۔ مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں نواب ممدوٹ، ممتاز دولتانہ کی سطح کے لیگی لیڈروں نے شرکت کی۔ جامع مسجد کہوٹہ کے تعمیراتی کام نے زور پکٹر لیا تھا۔ ان تمام معاملات میں اس مسجد کے امام مولوی شیخ غلام رسول پیش پیش تھے جو کہوٹہ مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔
1947 کے تیسرے مہینے کا آغاز ہو چکا تھا۔ تھوہا خالصہ میں بیساکھی کے میلے کی تیاریاں ہو رہی تھیں جس میں کاشی تک سے یاتری ’’دکھ پھج نی‘‘ آتے۔ سکھوں کے لیے بیساکھی خوشی کا موقع ہے۔ سترہویں صدی کے آخر میں اس دن خالصہ منظم ہوا۔ ذات پات کا تصورمٹا، پنج پیارے منتخب ہوئے اور پنج ککھ (کنگا، کاچھا، کڑا، کیس اور کرپان) سکھ پنتھ کی پہچان بنے۔
تھوہا کے صرافہ بازار میں خوب رونق لگی ہوئی تھی کیونکہ فصل کی کٹائی کے بعد شادیوں کا موسم تھا۔ صرافہ بازار کے قریبی محلے کی ایک ہندو لڑکی سے ایک مسلمان نوجوان شادی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ان کے بیچ دھرم کی فولادی دیوارحائل تھی۔
6 مارچ 1947 کورات کی تاریکی میں مسلمانوں نے اچانک تھوہا پر حملہ کر دیا۔ کہا گیا کہ اسلام قبول کر لیں، مذکورہ لڑکی حوالے کر دیں یا پھر تیار ہو جائیں۔ کلمہ و نکاح پڑھانے اور کیس کٹوانے کے لیے حجام اور نکاح خوان ساتھ تھے۔ شرائط خالصہ کی غیرت نے گوارہ نہیں کیں۔ تین دن دلیرانہ مقابلہ ہوا۔ دوسوسکھ جاں بحق ہوگئے۔ بالآخر گلاب سنگھ کی حویلی پر سفید جھنڈا لہرا دیا گیا۔ دس ہزار روپے فوری تاوان ادا کیا گیا۔ حلفیہ بیان لیا گیا کہ اب حملہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگلے دن پھر حملہ ہوا اور مزید سکھ مارے گئے۔ خالصہ کو اپنے مرنے والوں کا اتنا دکھ نہیں تھا، جتنا ہندو لڑکی کے جانے کا تھا۔
گلاب سنگھ کی حویلی میں بیر بہادر سنگھ اور بڑے بھائی اوتار سنگھ نے اپنے خاندان کی دس سے چالیس سال کے درمیان کی 26 عورتوں کو اکٹھا کیا اور ان کے والد سنت راجہ سنگھ نے دو دھاری تلوار سے انہیں ایک ایک کر کے قتل کر دیا۔ انہیں ڈر تھا کہ انہیں جبراً مسلمان بنایا جائے گا اور ان کا زبردستی نکاح کر دیا جائے گا۔ بقیہ عورتیں ایک کمرے میں بند کر دی تھیں۔ لوگوں نے حویلی کو گھیرے میں لے لیا۔ مسلمانوں نے تھوہا پر قبضہ کر لیا اور سنت راجہ سنگھ کو قتل کر دیا۔
کمرے میں بند عورتیں باہر نکل آئیں۔ سردارنی بسنت کور نے عورتوں سے مشورہ کیا اور سب عورتیں بچوں کو لے کر دکھ پچھنی کی طرف جذباتی سرشاری کے ساتھ روانہ ہو گئیں۔ جہاں ماتا لاجونتی پہلے سے موجود تھیں۔ اور پھر ستی اور جوہر کی قدیم رسم کا اعادہ ہوا۔ عورتوں نے کنویں میں چھلانگیں لگانا شروع کر دیں۔ کنواں لاشوں سے بھر گیا۔ سردارنی بسنت کور نے لاشوں کے اوپر چھلانگ لگائی لیکن پانی اتنا نہیں تھا۔93 عورتیں قربان ہو گئیں۔
سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کے جنرل شاہ نواز (مٹور) نے تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن نفرت نے اعتبار کی دیوار گرا دی تھی۔ 12 مارچ کو آرمی آئی اور انہیں ٹرکوں میں ڈال کر لے گئی۔ ایک بھگونت کور بچی جس کا ایک مسلمان سے نکاح ہو چکا تھا۔
14 مارچ کو عبوری حکومت کے نو منتخب نائب وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے دکھ پھج نی کا دورہ کیا۔ سٹاف فوٹوگرافر نے کنویں کے اندر کی تصویر کشی کی تو کنویں میں ابھی انسانی اعضا تیر رہے تھے۔ چوبیس مارچ کو لارڈ ماونٹ بیٹن نے چارج سنبھالا۔ 8 اپریل کو علاقے کا وزٹ کیا اور کہا کہ اب بٹوارہ ناگزیر ہو گیا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اس واقعہ کی مذمت کی اور کہا کہ پاکستان میں ایسا کوئی بھی واقعہ نہیں ہو گا لیکن کسی مسلم لیگی رہنما نے گردوارے کا دورہ نہیں کیا۔
ھوہا خالصہ ے شمال میں تین کلومیٹرکے فاصلے پر گردوارہ ’’دکھ پھج نی‘‘ ہے۔ محکمہ اوقاف کی جانب سے رہنمائی کے لیے کوئی بورڈ آویزاں نہیں ہے۔ لگائیں بھی تو کیسے؟ اور لکھیں بھی تو کیا؟ آئینہ بینی اتنی بھی آسان نہیں۔ کنوؤں، آم کے درختوں، کھنڈرات، ویرانی، افسردگی، سناٹا اور خوف کے علاوہ یہاں امرتا پریتم کا نوحہ سنائی دیتا ہے۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی تْوں لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن
اْٹھ دردمنداں دیاں دردیا تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
میں کافی دیر کھنڈرات میں کسی کتبے، لوح یا سنگی تحریر کی تلاش میں رہا۔ لیکن کھوجیوں کی اندھی ہوس نے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ جو چار اینٹیں بچ گئی ہیں کل وہ بھی نہیں رہیں گی۔ تھوڑا عرصہ پہلے محکمہ اوقاف نے ’’دکھ پھج نی‘‘ کا وسیع رقبہ سبزیوں کی کاشت کے لیے ٹھیکے پر دے دیا تھا۔ اس غم زدہ زمین پر سبزیاں تو کیا ہونی تھیں، ’’دکھ پھج نی‘‘ کی رہی سہی فصلیں بھی روٹھ گئیں۔
سنتالیس انسانی تاریخ کا ایک خون آشام سال ہے۔ یہ ایک ’’دکھ پھج نی‘‘ کا ماتم نہیں۔ ایسے ہزاروں مقامات ہیں جہاں انسانیت رسوا ہوئی۔ جواباً جو کچھ مسلمان مہاجرین خصوصاً عورتوں کے ساتھ ہوا وہ
اس سے بھی زیادہ اذیت ناک ہے۔ سعادت حسن منٹو نے ان فسادات کی نذر ہونے والوں کے بارے میں کہا تھا کہ کوئی سکھ، مسلم اور ہندو نہیں مرا ، انسان مرا۔ اس سے ایک قدم پیچھے ہٹیں گے تو کھوپڑیوں کے مینار، خون سے سیراب کھیت، لاشوں سے بھرے کنویں اور لہو سے لت پت ٹرینیں ملیں گی۔***