انیسویں صدی میں عرب ممالک میں یہودیوں کی حالت
ماخوذ از تمدن عرب'' از گستاولی بان مترجم سید علی بلگرامی کا ایک حاشیہ
۱۸۵۵میں یہودیوں کی عرب ممالک میں حالت کیا تھی؟''اگرچہ عرب یہودیوں کے ساتھ اپنی قرابت کو قبول کرتے ہیں لیکن وہ اس قرابت کو اپنی بے عزتی بھی سمجھتے ہیں۔ میں نے اپنی سیاحت میں جرمنی، پولینڈ، گالیشیا اور روس و مشرق میں یہودیوں کو ذلیل حالت میں دیکھا ہے لیکن جو کچھ خواری اس قوم کی یورپ میں ہے وہ بمقابل اُس نفرت کے جو عرب ان سے کرتے ہیں کچھ بھی نہیں ہے۔ عربوں کی نظر میں یہودی ایک نجس جانور ہے جس کے ساتھ ہر قسم کی بدسلوکی جائز ہے۔ الخبرائر میں جب کوئی عرب کسی یہودی سے مخاطب ہوتا ہے تو اُسے الجیفہ ابن الجیفہ کے نام سے پکارتا ہے اور یہودی کسی بھیس میں کیوں نہ ہو عرب اُسے ہمیشہ پہچان لیتا ہے۔ مجھے الخبرائر میں ایسے وقت میں قیام کرنے کا اتفاق ہوا ہے جب کہ وہاں ایک جلسہ کی تقریب سے بہت سے اشخاص یورپ کے جمع ہوئے تھے لیکن بارہا عربوں نے بلا چُوکے ہوئے ایسے اشخاص کا یہود الأصل ہونا مجھے بتا دیا جن کی شکل و صورت میں خود مجھے کوئی خاص بات نہیں معلوم ہوتی تھی۔ اُن اسلامی ممالک میں جو یورپ کے دباؤ سے خارج ہیں یہودی کی مدارات میں مطلق قانون کی پابندی نہیں ہے۔ اور حیوانات سے بھی زیادہ اُس کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے۔ موسیوکات۱۸۵۵ میں مراکش کے یہودیوں کی حالت کو یوں بیان کرتے ہیں ''یہودی سیاہ کپڑے پہننے پر مجبور کئے گئے ہیں کیونکہ یہ رنگ ماتمی اور نا مبارک سمجھا جاتا ہے اُن کو گھوڑے پر سوار ہونے کی ممانعت ہے اگر وہ کسی مسجد یا عبادت گاہ یا درگاہ یا کسی مُلّا یا شریف کی سواری کے سامنے سے گُزریں تو اُن کے لیے ضروری ہے کہ اس مقام سے گزرنے تک جوتا اُتار کر ہاتھ میں لے لیں۔ اُن کو اسلامی قبرستانوں میں سے گزرنے کی اجازت نہیں ہے اور اُن کی عورتوں کو خفیف سے خفیف قصور پر محتسب اسلامی جو اس خاص کام کے لئے مقرر ہے عام مقامات میں تازیانے مارتا ہے اگر کوئی مسلمان کسی یہودی پر حملہ کرے تو اُس یہودی کو ممانعت ہے کہ بجز بھاگ جانے کے یا خوشامد و لجاجت کے اور کسی طرح اپنی حفاظت کرے اور اس کے خلاف عمل کرنے کی سزا قتل رکھی گئی ہے اکثر دیکھا گیا ہے کہ سات آٹھ سال کے چھوکرے بڑے بڑے قوی جوانوں کو پتھر مار رہے ہیں، لکڑیوں سے پیٹ رہے ہیں ،تھپڑ لگا رہے ہیں، دانتوں سے کاٹ رہے ہیں یا ناخنوں سے نوچ رہے ہیں اور یہ بیچارے جو یہودی ہیں جھک رہے ہیں پیچ و تاب کھا رہے ہیں اور ہزار صورتیں اپنے بچاؤ کی کر رہے ہیں لیکن ان کوششوں میں برابر خیال یہ ہے کہ طرفِ مقابل کو کسی قسم کی چوٹ یا ضرب نہ آجائے''
یہ حالت جو یہودیوں کی بیان کی گئی ہے مراکش کے اندرونی حصوں میں اس وقت تک موجود ہے لیکن البتہ ٹابخیر(جغرافیئین عرب کا طیخہ) میں جہاں کل ممالک یورپ کے بالیوس موجود ہیں اس قدر سختی نہیں ہے کیونکہ یہودی ان بالیوسوں کی حمائت میں سمجھے جاتے ہیں جس وقت میں اس عجیب و غریب شہر میں وارد ہوا تو مجھے بادشاہ سے ملنے کا اتفاق ہوا اور میرے ساتھ بلئیم کے قنصیلیہ کا مترجم تھا جو ایک نامی گرامی یہودی ہے اور اُس کی پوری طرح پذیرائی ہوئی۔