علیم ملزم کی جوڈیشل انکوائری کے بعد ایس ایس پی اعظم جوئیہ صاحب نے میری تعیناتی تھانہ کوٹ سبزل کر دی تھی تھانہ کوٹ سبزل پر میری یہ دوسری تعیناتی تھی سابقہ دور میں میں نے جو کام کیے تھے اُس کی وجہ سے تھانہ کے رہایشی عوام میری بُہت عزت کرتے تھے جرائم پیشہ افراد کو بھی میری تعیناتی کا علم ہو گیا تھا جرائم پیشہ افراد کی نفسیات بھی بڑی عجیب ہوتی ہے یہ کبھی اُس علاقہ میں واردات نہیں کرتے جہاں ایس ایچ او تگڑا ہو مگر کوٹ سبزل تھانہ میں واردات اکثر سندھ راجن پور یا بلوچستان سے آنے والے جرائم پیشہ افراد کرتے تھے جو اس اصول کو نہیں مانتے تھے اس لیے کوٹ سبزل لگنے والے ایس ایچ او کو جرائم روکنے میں ہر دفعہ اُتنی ہی محنت کرنی پڑتی تھی جتنی پہلی دفعہ کرنی پڑتی تھی۔
ڈی آئی جی ملک اشرف مرحوم نے چوہدری صادق گجر شہید کے قتل کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے بُہت محنت کی تھی میں اس بات کا برملا اعتراف کرتا ہوں کہ اگر ڈی آئی جی ملک اشرف صاحب نہ ہوتے تو انسپکٹر صادق گجر قتل کے ملزمان کبھی بھی گرفتار نہ ہوتے اُنہوں نے پوری رینج سے پولیس افسران کو اکٹھا کیا بار بار میٹنگز کیں آخر کار تمام ملزمان ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں گرفتار ہو گئے۔ ڈی آئی جی ملک اشرف صاحب میں جہاں یہ خوبیاں پائی جاتی تھیں وہاں اُن میں ایک خامی بھی تھی کہ ماتحت ملازمین سے اُن کا رویہ اچھا نہیں تھا ملازمین سے بداخلاقی سے پیش آنا اور اپنی خوشاب والی زبان میں گالیاں دینا اُن کا محبوب مشغلہ تھا کیونکہ موصوف کا تعلق خوشاب سے تھا اور وہ یہ گالیاں بلا تفریق عہدہ جو بھی سامنے آجائے دے دیا کرتے تھے۔ ملک اشرف کی اس عادت سے تمام ملازمین تنگ تھے مگر سب سے زیادہ گالیاں اُن کے پرسنل سٹاف کو پڑتی تھیں جو سارا دن اُن کے ساتھ ہوتا تھا۔
مورخہ 11 جون 1998 کو ملک اشرف ڈی آئی جی کونسپکشن اور میٹنگ کے لیے رحیم یار خان آنا تھا ایس ایس پی اعظم جوئیہ صاحب نے پورے ضلع کو ریڈ الرٹ رہنے کا حکم دیا ہوا تھا کہ سب ایس ایچ او اور ڈی ایس پی اپنی اپنی نوکری بچائیں۔ تھانہ کا ریکارڈ مکمل ہونا چاہیے کوئی غیر قانونی بندہ تھانہ پر نہ ہو کیونکہ ڈی آئی جی صاحب کسی بھی تھانہ میں چلے گئے تو اُس ایس ایچ او کی خیر نہیں ہوگی۔ ڈی آئی جی صاحب نے رات رحیم یار خان ٹھہرنا تھا اور اگلے روز ضلع کے ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پی صاحبان سے میٹنگ تھی۔ اس میٹنگ میں دو ایس ایچ او ایسے بھی تھے جن کی انکوائریاں اُن کے خلاف ہو چُکی تھیں اور ڈی آئی جی صاحب نے اُن کو ملازمت سے برخواست کرنا تھا یا سزا دینی تھی وہ کُچھ زیادہ خوفزدہ تھے۔
ہم سب دل ہی دل میں دعا مانگ رہے تھے کہ اللہ کرے ڈی آئی جی صاحب کا یہ وزٹ منسوخ ہو جائے شام کو پانچ بجے سب کو اطلاع مل گئی کہ ڈی آئی جی صاحب بہاولپور سے رحیم یار خان کے لیے روانہ ہو گئے ہیں اب ہم سب یہ دعا کر رہے تھے کہ کل میٹنگ خیریت سے گزر جائے۔ اُن دنوں لیاقت پور ڈی ایس پی محمد طفیل وٹو صاحب تعینات تھے جنہوں نے ڈی آئی جی صاحب کا اپنے علاقہ سے استقبال کرنا تھا۔ احمد پور شرقیہ میں راؤ سلیم اختر صاحب ڈی ایس پی تعینات تھے۔ ڈی آئی جی صاحب کی عادت تھی کہ وہ جس ڈی ایس پی کے علاقہ سے گزرتے تھے اُسے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا لیتے تھے اور اہم مقدمات کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیتے تھے۔ ڈی آئی جی صاحب کی روانگی کے بعد اُن کی کسی کو کوئی اطلاع نہیں مل رہی تھی اور نہ ہی کوئی وائرلس کال اُن کی گاڑی سے ہوئی تھی۔ ڈی ایس پی احمد پور راؤ سلیم صاحب بھی تیار بیٹھے تھے اور طفیل وٹو صاحب بھی چیک پوسٹ چنی گوٹھ پر تیار تھے کہ جونہی ڈی آئی جی صاحب کی کال آئے گی وہ اُن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر اپنا علاقہ کراس کروائیں گے۔ ابھی یہ اور ہم سب انتظار کر رہے تھے کہ تقریباً آٹھ بجے اچانک وائرلس آپریٹر نے مجھے اطلاع دی کہ ڈی آئی جی صاحب نے اپنا دورہ منسوخ کر دیا ہے اور وہ کسی ایمرجنسی میں چنی گوٹھ سے واپس بہاول پور چلے گئے ہیں اس اطلاع سے پورے ضلع کے پولیس ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی میں نے بھی خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ ڈی آئی جی صاحب تھانہ صدر کے علیم کے نہر میں ڈوب کر مرنے والے کیس اور تھانہ کوٹ سمابہ کے ایم پی اے خسرو بختیار کی شکایت کی وجہ سے مجھ پر ناراض تھے۔ میں تھانہ کے دیگر کاموں میں مصروف ہوگیا۔ تقریباً ساڑھے نو بجے ابھی میں تھانہ پر موجود تھا کہ وائرلس آپریٹر دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور مجھے بتایا کہ ڈی آئی جی ملک اشرف اور ڈی ایس پی عبدالرحمان بھٹی اے ڈی آئی جی کو ڈرائیور احمد حسن نے قتل کر دیا ہے اور اب وہ تھانہ کینٹ جا رہا ہے اُس نے دھمکی دی ہے اگر کوئی میرے پاس آیا تو وہ اُنہیں بھی قتل کر دے گا۔ ڈی آئی جی صاحب کے قتل کی خبر سُن کر سکتہ میں آگیا احمد حسن انتہائی تابعدار اور شریف ڈرائیور تھا۔ 1992 میں اسے بہاولپور سے کوٹ سبزل ڈیوٹی کے لیے بھجوایا گیا تھا یہ تقریباً نو ماہ میرے پاس ڈیوٹی کرتا رہا کبھی بھی اس کی شکایت نہیں آئی تھی تو پھر اُس نے ایسا سنگین جرم کیوں کیے؟؟؟
اگلے دن تک کُچھ صورت حال واضح ہوئی وہ اس طرح تھی کہ ڈی ایس پی عبدالرحمان بھٹی صاحب نے جو بطور ADIG کام کر رہے تھے ڈی آئی جی صاحب کو بتایا کہ شکایت ملی ہے ڈرائیور احمد حسن اور اسلم گن مین سرکاری گاڑی کا تیل چوری کرکے بیچ دیتے ہیں اس بات پر ڈی آئی جی ملک اشرف احمد حسن اور اسلم پر ناراض ہو ئے اوراس کی انکوائیری ADIG صاحب کو دے دی۔ ملازمین کو عادت کے مطابق گالیاں دیں اور دھمکی دی کہ اگر یہ انکوائری سچ ثابت ہوئی تو تُم دونوں کو جیل بجھوا دوں گا۔ اسی طرح پچھلے دورہ پر ڈی آئی جی صاحب نے SHO لیاقت پور شیخ عزیز سے احمد حسن ڈرائیور کو پیسے لیتے کار کے شیشہ سے دیکھ لیا تھا اب وہ احمد حسن کو دھمکی دے رہے تھے کہ تمہیں لیاقت پور تھانہ کی حوالات میں بند کروں گا۔
بروز وقوع شام کو ڈی آئی جی ملک اشرف اپنی سرکاری گاڑی میں رحیم یار خان روانہ ہوئے تو احمد حسن ان کو قتل کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا مگر اسلم گن مین کو اس کے بارے میں کُچھ نہ بتایا تھا۔ روانگی کی کال کے بعد جب یہ مسافر خانہ کے قریب پہنچے تو احمد حسن نے گاڑی روک دی اور گاڑی کے ٹائر کی ہوا چیک کرنے کا بہانہ بنایا۔ ڈی آئی جی ملک اشرف نے حسب معمول احمد حسن کو گالی دی مگر احمد حسن گاڑی سے اُترا اور ٹائر کی ہوا چیک کرنے کے بہانے پیچھے آنے والی حفاظتی گاڑی کے ڈرائیور کے پاس گیا اور بولا آپ کی گاڑی کا وائرلس سیٹ خراب ہے میں آپ کو کال کر رہا ہوں پر آپ نہیں سُن رہے واپس بہاولپور جائیں اور وائرلس سیٹ بنوا کو ہمارے پیچھے آجائیں ۔احمد حسن واپس آیا اور دوبارہ رحیم یار خان کی طرف روانہ ہوگئے ڈی آئی جی صاحب فائلیں پڑھنے میں مصروف تھے اُنہوں نے اس بات کا نوٹس ہی نہیں لیا کہ حفاظتی گاڑی پیچھے نہیں آرہی گاڑی چوک ڈیرہ نواب صاحب کراس کر گئی مگر ڈی آئی جی صاحب کو خیال نہ آیا کہ ڈی ایس پی احمد پور شرقیہ کو ساتھ بیٹھانا تھا وہ فائلیں پڑھنے میں مصروف رہے۔ چنی گوٹھ احمد پو شرقیہ سے تقریباً 25 کلو میٹر دور ہے احمد حسن کو اب اپنا کام چنی گوٹھ سے پہلے کرنا تھا کیونکہ چنی گوٹھ ایک تو پولیس چیک پوسٹ تھی اور ڈی ایس پی لیاقت پور نے ڈی آئی جی صاحب کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنا تھا ضلع بہاولپور اور رحیم یار خان کے تمام افسران پریشان تھے کہ ڈی آئی جی صاحب اپنی پوزیشن کیوں نہیں بتارہے مگر سب وائرلیس چینلز ڈر کے مارے خاموش تھے کہ اگر پوزیشن پوچھ لی تو وہ ناراض نہ ہوجائیں ۔جب احمد حسن ڈرائیور کو چنی گوٹھ سے پہلے آنے والی ایک نہر نظر آئی تو اُس نے کار ایک مرتبہ پھر روک دی اب اُس نے پیشاب کرنے کا بہانہ بنایا۔ ڈی آئی جی صاحب نے احمد حسن کو پھر گالیاں دینا شروع کر دیں وہ کار سے اُتر کر ساتھ ایک درخت کے پیچھے چلا گیا محمد اسلم گن مین اُتر کر کار کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ احمد حسن نے اپنے سرکاری ریوالور کو چیک کیا واپس آیا اور کار کا پچھلا دروازہ کھولا ڈی آئی جی صاحب نے اُس کی طرف دیکھا اُن کی سرکاری کلاشنکوف بھی ساتھ پڑی ہوئی تھی جو وہ ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے مگر احمد حسن نے اُنہیں موقع دیے بغیر ریوالور کی چھ گولیاں اُن کے سینے میں اُتار دیں ڈی آئی جی صاحب موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے محمد اسلم گن مین دیکھتا رہا مگر اُسے سمجھ ہی نہ آئی کہ وہ کیا کرے اب احمد حسن نے اسلم کو کہا تم میری مدد کرو میں سارا الزام اپنے پر لے لوں گا۔ اسلم کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا دونوں کار میں بیٹھے اور کار نہر کی پٹڑی کے ساتھ لے گئے تھوڑی دور جاکر ریلوے لائن کی پٹڑی کے پاس کار روک دی ۔ڈی آئی جی صاحب کی لاش کو دونوں نے مل کر اُٹھایا اور کار کی ڈگی میں ڈال دیا کار واپس بہاولپور کی طرف موڑ کر اسلم کو سڑک پر اُتار دیا اور وائرلیس پر پیغام دیا ڈی آئی جی صاحب نے اسلم گن مین کو ناراض ہو کر گاڑی سے اُتار دیا ہے۔ رحیم یار خان کا پروگرام کینسل ہو گیا ہے اس لیے ڈی آئی جی صاحب واپس بہاولپور جارہے ہیں۔ وائرلس میسج رحیم یار خان اور بہاولپور کے تمام چینلز نے یہ میسج سُنا مگر کسی کے وہم گمان میں ہی نہ تھا کہ کوئی ڈی آئی جی صاحب کو قتل بھی کر سکتا ہے۔نور پو نورنگا کے قریب پہنچ کر احمد حسن اب ایک اور خطرناک پلاننگ کر چُکا تھا اب اُس نے ایس ایس پی بہاولپور احمد مبارک ایس ایس پی RIB شاہ حُسین اور ڈی ایس پی عبدالرحمان بھٹی ADIG اور PA چوہدری منیر کو بھی قتل کرنے کا پروگرام بنا لیا تھا کیونکہ احمد حسن کے خیال میں ان کا رویہ ماتحت ملازمین سے اچھا نہیں تھا اور ADIG بھٹی صاحب نے اُس کی شکایت ڈی آئی جی کو کی تھی اب احمد حسن نے ایک اور وائرلس میسج کیا کہ قاسم صاحب (ڈی آئی جی کا وائرلیس نام) نے حُکم دیا ہے ایس ایس پی احمد مبارک، ایس ایس پی شاہ حُسین اور ڈی ایس پی بھٹی صاحب فوری قاسم صاحب کے دفتر پہنچیں قاسم صاحب نے میٹنگ کرنی ہے جب کہ ایس پی CIA احمد خان بارکزائی اور ڈی ایس پی سٹی اقبال نون کو تھانہ بغداد پہنچنے کی ہدایت کی۔
تقریباً ساڑھے آٹھ پونے نو بجے احمد حسن ڈی آئی جی آفس پہنچ گیا۔ ملک اشرف صاحب کی لاش ڈگی میں تھی کا ر کے شیشے کالے تھے ڈیوٹی پر موجود کانسٹیبل نے دروازہ کھول دیا ۔احمد حسن کار اندر لے گیا ڈی آئی جی صاحب کی کلاشنکوف اب اُس کے پاس تھی عبدالرحمان بھٹی ADIG دفترپہنچ چکے تھے وہ جلدی سے کار کا دروازہ کھولنے کے لیے برآمدہ سے نیچے اُترے تو احمد حسن نے کلاشنکوف کا برسٹ مارا اور وہ وہیں گر پڑے اور جان بحق ہو گئے احمد حسن DIG کے دفتر میں داخل ہوا مگر خوش قسمتی سے احمد مبارک ایس ایس پی علاج کے لیے ہسپتال گئے ہوئے تھے اور شاہ حسین ایس ایس پی لیٹ ہو گئے تھے احمد حسن چوہدری منیر PA کے کمرہ میں اُسے مارنے کے لیے داخل ہوا مگر وہ میز کے نیچے چھپ گئے اور اس طرح اُن کی جان بچ گئی۔
احمد حسن نے وہاں پر موجود ملازمین کو دھمکی دی کہ اگر کوئی قریب آیا تو وہ اُن کو جان سے مار دے گا اب وہ دوبارہ کار میں بیٹھا کار دفتر سے باہر نکالی اور ایک وائرلس میسج کیا’’آج میں نے (گالی دیتے ہوئے) ڈی آئی جی ملک اشرف اور ADIG کو قتل کر دیا ہے جو ماتحت ملازمین کو گالیاں دیتے تھے آج کے بعد کوئی بھی افسر ماتحت ملازم کو گالی نہیں دے گا اُس کو روکنے کی کوشش نہ کی جائے اگر کوشش کی گئی تو جو بھی آیا اُسے برسٹ مار دوں گا۔‘‘احمد حسن کا یہ میسج ایس پی احمد خان بارکزائی، اقبال نون ڈی ایس پی کے علاوہ کمشنر بہاولپور و دیگر افسران نے بھی سُنا۔ احمد خان ایس پی CIA بُہت سمجھدار آفسر تھے فوری وائرلس سیٹ پر آگئے اور احمد حسن کو سمجھایا کہ جو ہونا ہے ہو گیا ہے اب خود کو پولیس کے حوالے کر دے ۔احمد حسن کافی بحث کے بعد اس بات پر آمادہ ہو گیا کہ وہ تھانہ کینٹ جارہا ہے آپ بھی وہاں آجائیں۔ ایس پی احمد خان بھی فوری تھانہ کینٹ بہاولپورپہنچ گئے ۔احمد حسن سے پیار سے ریوالور سرکاری اور کلاشنکوف لے لی۔ کار کی ڈگی سے ڈی آئی جی ملک اشرف صاحب کی لاش برآمد کر کے ہسپتال بھجوائی۔ اس مقدمہ کی تفتیش اور تحقیق کے لیے آئی جی جہانزیب برکی صاحب نے ڈی آئی جی ڈیرہ غازی خان محمد اقبال صاحب ایس ایس پی احمد خان چدھڑ،ایس پی مسعود عزیز،راؤ محمد سلیم ڈی ایس پی احمد پور کی ٹیم بنا دی ۔ڈی آئی جی ملک اشرف کے قتل کا مقدمہ تھانہ چنی گوٹھ احمد خان ایس پی کی مدعیت میں درج ہوا اور ڈی ایس پی عبدالرحمان بھٹی صاحب کے قتل کا مقدمہ تھانہ کینٹ درج کیا گیا اس کا مدعی اُن کے بیٹے کو بنایا گیا۔ محمد اسلم گن مین اور ایلیٹ کے جوان جو کہ واپس ہو گئے تھے کو بھی حراست میں لے لیا گیا ۔ایلیٹ کے جوان بے گناہ ثابت ہوئے جبکہ محمد اسلم کو ڈی آئی جی صاحب کے قتل میں چالان کیا گیا۔ احمد حسن ڈرائیور کو ڈی آئی جی ملک اشرف اور عبدالرحمان بھٹی صاحب کے قتل میں چالان کیا گیا۔
احمد حسن کو عدالت نے سزائے موت اور محمد اسلم کو عمر قید سُنائی کیونکہ دونوں نے مجسٹریٹ کے سامنے 164 ض ف کا اقبالی بیان قلمبند کروا دیا تھا یہ اپنی نوعیت کی پہلی ایف آئی آر تھی جس کے موقع کا کوئی چشم دید گواہ نہ تھا مگر پھر بھی ماتحت پولیس ملازم
ایک کو سزائے موت اور دوسرا عمر قید ہوا تھا کیونکہ اُن کے پاس کوئی اچھا وکیل کرنے کے پیسے بھی نہیں تھے۔اس سارے واقعہ کے بعد کافی عرصہ تک افسران نے ماتحت ملازمین کو گالیاں دینا اور اُن سے زیادتی کرنا بند کر دی تھی مگر سُنا ہے آجکل پھر یہ سب کُچھ ہو رہا ہے عبرت کا مقام یہ تھا کہ کار پر شاہانہ انداز سے جانے والے افسر کی واپسی کا سفر کار کی ڈگی میں تھا۔
اللہ پاک سب کی حفاظت فرمائے اور ان افسران کو ہدایت دے جو ماتحت ملازمین سے بد سلوکی کرتے اور گالیاں دیتے ہیں۔
٭٭٭