ظالم ڈاکٹر ز اور بے حس میڈیکل سسٹم کی اندوہناک کہانی
ڈاکٹر حافظ سلمان علی لاہور کے نوجوان سرجن تھے’ ان کی چھوٹی آنت پھٹ گئی اور پیٹ میں زہر پھیلنا شروع ہو گیا۔ یہ خود سرجن تھے’یہ جانتے تھے اگر سرجری کر کے ان کی آنت مرمت کر دی جائے تو یہ ایک ہفتے میں صحت یاب ہوسکتے ہیں۔ یہ اپنی رپورٹس لے کر سروسز ہسپتال پہنچ گئے’ ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹرز نے ان کی بات سننے کے بجائے انہیں کورونا کا مریض ڈکلیئر کر دیا اور اس کے بعد ان کی زندگی ٹریجڈی بن کر رہ گئی۔یہ ہسپتال میں منتیں کرتے رہ گئے لیکن سرجن کورونا کے خوف سے ان کے قریب نہیں جاتے تھے یوں ایک لائق ڈاکٹر ڈاکٹروں کی بے حسی کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو گیا۔ یہ ایک خوف ناک داستان ہے’ یہ داستان بتاتی ہے ہمارا ہیلتھ سسٹم کس قدر ظالم اور سنگ دل ہے۔ آپ ڈاکٹر سلمان کی داستان ان کے بھائی حسان علی کے منہ سے سنیے۔
‘‘میرے بھائی ڈاکٹر حافظ سلمان علی کو2 جون کو بخار اور کمر کے نچلے حصے میں درد ہوا’ ہم اسے فاروق ہسپتال ویسٹ ووڈ برانچ لے گئے۔ سلمان شام کے وقت وہاں پرائیویٹ پریکٹس کرتا تھا۔ اس کو ڈرپس لگائی گئیں’ اس کا درد ختم ہو گیا۔ہم اسے گھر لے آئے’ اگلے دن شام 5 بجے اس کی کمر اور پیٹ میں پھر ہلکا ہلکا درد شروع ہو گیا۔ ہم اسے فوراً النور ڈائیگناسک سنٹر لے کر گئے’ پیٹ کا دو گھنٹے معائنہ ہوا’ پتا چلا ڈاکٹر سلمان کی چھوٹی آنت میں سوراخ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے آنت کا مواد پیٹ میں جمع ہو رہا ہے لہٰذا اس کا فوری طور آپریشن ہونا چاہیے ۔لیبارٹری نے ہمیں رپورٹ اور پیٹ سے نکلنے والا مواد بطورسیمپل ساتھ دے دیا۔ہم نے سلمان سے پوچھا’ اس نے بتایا’ گھبرانے کی کوئی بات نہیں’ میں دن میں اس طرح کے کئی آپریشن کرتا ہوں’ یہ معمولی سا آپریشن ہے’میں چند گھنٹوں میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔ڈاکٹر سلمان نے سروسز ہسپتال سے ہاؤس جاب کی تھی’ اس کا خیال تھا وہاں ڈاکٹرزاسے جانتے ہیں چناں چہ ہم اس کی خواہش پر اسے سروسز ہسپتال کے سرجیکل ایمرجنسی یونٹ ون میں لے گئے۔
وہ گاڑی سے اتر کر خود چل کر اندر گیا تھا اور وہ بالکل ہوش و حواس میں تھا۔سلمان نے ڈیوٹی پر موجودسینئرڈاکٹر کاشف ملک اور افضال آفتاب خان کو اپنا تعارف کروایا’ اپنے مرض کی تفصیلات بتائیں’لیبارٹری کی رپورٹ اورسیمپل دکھائے اور فوری سرجری کی ریکویسٹ کی لیکن ڈاکٹرز نے سلمان کی بات غور سے سنی اور نہ رپورٹس اورسیمپل پر دھیان دیا۔ڈاکٹرز نے اس کے پیٹ کا تھوڑا سا معائنہ کرنے کے بعد فوراً یہ کہہ دیا آپ کو کورونا ہے جس کی وجہ سے پیٹ میں پانی پڑ گیا ہے۔ میرے بھائی ڈاکٹر سلمان نے ڈاکٹرز کو بتایا‘‘میں جناح ہسپتال میں جنرل سرجن ہوں اور میرا دو دن پہلے کورونا کا ٹیسٹ نیگیٹوآیا تھا اور رپورٹ ہسپتال میں ہے’’ لیکن ڈاکٹرز نہیں مانے۔ڈاکٹر سلمان ہر ڈاکٹر سے درخواست کرتا رہا میرا کورونا ٹیسٹ منفی ہے لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔ ہم سلمان کو 9 بجے ایمرجنسی لے کر گئے تھے’ ڈاکٹرز نے اس کوڈرپس بھی لگادی تھیں اور پیشاب کی نالی اور ناک میں این جی بھی ڈال دی تھی لیکن جب ڈاکٹر کاشف ملک نے کورونا کا نام لیا تو تمام ڈاکٹرز خوف زدہ ہو گئے اور سلمان اور ہم سے کترانے لگے۔سلمان اور ہم ان ڈاکٹرز کی منتیں کرتے رہے انہیں النور ہسپتال کی رپورٹ اور سیمپل دکھاتے رہے لیکن کوئی ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ایک بجے کے قریب سلمان کاایکسرے کروایا گیا۔آپ ڈاکٹرز کی جہالت کی انتہا دیکھیے’یہ ایکسرے دیکھ کر مزید بضد ہو گئے اس کوکورونا ہے۔ ڈاکٹر سلمان اور ہم سب گھر والے ڈاکٹرز کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے اس کی آنت کا مسئلہ ہے اور اس کو فوری سرجری کی ضرورت ہے لیکن ڈاکٹراپنی جہالت پر بضد رہے۔ کہنے لگے رپورٹس غلط بھی ہوتی ہیں’ ڈاکٹر حافظ سلمان بھی بار بار جاہل ڈاکٹرز کو سمجھاتا رہا سر ‘‘یہ اکیوٹ ایبڈومن کا کیس ہے’ اس کا واحد حل سرجری ہے’ وقت ضائع نہ کریں’’ لیکن ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز کے سر پرکوروناکا بھوت سوار تھا’ وہ آپریشن سے کترا رہے تھے’ اسی دوران ڈاکٹر سلمان کی ناک سے این جی لائین نکل گئی۔
سینئر ڈاکٹر نے کورونا کے خوف سے جونیئرڈاکٹر بھیج دیاوہ نا تجربہ کار تھا’ اس نے چار باراین جی لائین ناک میں ڈالنے کا دردناک تجربہ کیا۔این جی لائین صحیح نہ ڈالنے کی وجہ سے اس کے تھوک میں خون آنے لگ گیا۔ وہ ہر پانچ منٹ بعد پانی کی کلی کرتا تھا۔ یہ سارا کھیل جونیئر اور سینئر ڈاکٹرز کے سامنے ہور ہا تھا۔
میں اور میرے والدین ڈاکٹرز کی منتیں کرتے رہے سلمان تمہارا کولیگ ہے’پلیز اس پر رحم کریں اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر ہمیں اجازت دے دیں ہم اس کو کسی دوسرے ہسپتال لے جائیں جب کہ وہ لوگ جواب میں کہتے تھے آپ اگر اس کو لے گئے تو کوئی دوسرا ہسپتال اسے داخل نہیں کرے گادوسرا راستے میں اگر اس کابلڈ پریشر ڈاؤن ہو گیا تو یہ انتقال کر جائے گا’ سوچیے! اس وقت ہمارے لیے بے بسی کا کیاعالم ہو گا؟۔
ہمارے بار بار احتجاج پر ڈاکٹروں نے میرے بھائی کو میڈیکل ایمرجنسی میں شفٹ کر دیا۔میڈیکل ایمرجنسی میں بھی ایک گھنٹہ کسی نے اس کو نہیں پوچھا کیوں کہ ڈاکٹر کاشف نے سلمان کی فائل میں لکھ دیا تھا ہمیں شک ہے کہ اس کو کورونا ہے لہٰذا میڈیکل ایمرجنسی کا عملہ بھی ڈر گیا اور وہ کہنے لگا یہ ہمارا نہیں یہ سرجری کا کیس ہے تاہم ہماری منتوں کے بعد انہوں نے اس کو ڈرپ لگا دی۔ڈاکٹر سلمان بار بارڈاکٹرز کی منتیں کرتے رہے مگر کوئی ڈاکٹر ان کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا’ وہ ساری رات تڑپتے رہے’ اگلی صبح 9 بجے میڈیکل ایمرجنسی کاسینئر ڈاکٹر آیا’ اس نے مریض کی حالت دیکھی تو فوراً سرجری کا حکم دے دیا لیکن ہسپتال کی انتظامیہ ابھی تک اپنی بات پر بضد تھی’ یہ کورونا سے دائیں بائیں نہیں ہو رہے تھے۔
اس دوران سلمان کا بی پی ڈاؤن ہو گیا’ ہم سلمان کا علاج ہاتھ میں لے کر پھر رہے تھے لیکن کوئی اس کی طرف دھیان دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بی پی ڈاؤن ہونے کے بعد ڈاکٹر سلمان خود ڈاکٹرز کی منتیں کرتا رہا’ مجھے بی پی سپورٹ دے دیں لیکن ناتجربہ کار ینگ ڈاکٹرز کو شریان ہی نہ ملی پھر ڈاکٹر سلمان کے دو ہم جماعتوں (ڈاکٹر سعد اور ڈاکٹر بہار) کو پتا چلا تو انہوں نے آکر اپنے طور پر سپورٹ چلانے کے لیے چھوٹا سا آپریشن کیا۔میں نے ڈاکٹرز کوکورونا کی منفی رپورٹ بھی لاکر دکھا دی مگراس کے باوجود کسی نے نہ سنی ۔ڈاکٹر سعد بھی اپنے سرجیکل یونٹ ون کے سینئر ڈاکٹرز کی منتیں کرتے رہے’ اس دوران ڈاکٹر سلمان کے کلاس فیلوز نے خون کابندوبست کیا اور سینئر ڈاکٹرز پر پریشر ڈالنا شروع کر دیا’ ڈاکٹرز نے آپریشن کا فیصلہ کر لیا لیکن مریض کو آپریشن تھیٹر لے جانے کی بجائے اسے سی ٹی سکین روم میں لے گئے۔
ہم نے پوچھا تو بتایا گیا اینس تھیزیا کی ٹیم بضد تھی جب تک ہمیں پوری طرح یقین نہیں ہو جائے گا اس کوکورونانہیں ہم اس وقت تک آپریشن میں حصہ نہیں لیں گے’ ہم اس وقت تک تمام ڈاکٹرز کو کورونا ٹیسٹ کی منفی رپورٹ دکھا چکے تھے۔ سی ٹی سکین روم میں جاتے ہی سلمان اونچی آواز میں دہائیاں دینے لگا خدا کے لیے اب تو میرا آپریشن کر دو’ وہ بار بار والد کو کہتا تھا ‘‘ابو یہ مجھے مار دیں گے’ مجھے ان سے بچا لیں’’۔
اتنے میں ایک ڈاکٹر آیا اور اس کو بے ہوشی کا ٹیکا لگا دیا اور بے ہوشی کی ہی حالت میں سی ٹی سکین کیا گیا’ اس دوران ڈاکٹر سلمان کا سانس رکنا شروع ہو گیا’ ڈاکٹرز فوراً اسے سرجیکل ایمرجنسی میں لے گئے اور اس کی سانس بحال کرنے لگے’ اتنے میں جاہل ڈاکٹر کاشف ملک ہمارے پاس آیا اور مجھے اور میرے ابو کو سی ٹی سکین روم لے گیا اور کمپیوٹر پر سکین دکھا کر کہنے لگا ‘‘میں نہ کہتا تھا اس کو سو فیصد کورونا ہی ہے’ آپ میری بات پر یقین نہیں کر رہے تھے’’۔
اندر میرا بھائی زندگی اور موت سے لڑ رہا تھا اور یہاں جاہل ڈاکٹرز کوروناکی منفی رپورٹ دیکھنے کے باوجوداپنی بات پر ڈٹے ہوئے تھے ۔آپ ستم پر ستم ملاحظہ کیجیے’ ڈاکٹر سلمان کو آپریشن تھیٹر شفٹ کرنے کے باوجود اس کا آپریشن نہیں کیا گیا’ سینئر ڈاکٹرز اس کابی پی نارمل ہونے کا انتظار کرتے رہے’اس دوران بات سوشل میڈیا پر پھیل گئی تو ڈاکٹرز کوسات بجے یاد آیا اس کا آپریشن بھی کرنا تھا اوریوں سات بجے اسی بی پی ریٹ پر جو دو بجے تھا آپریشن شروع کر دیا گیا۔
آپریشن ہوا تو جاہل اور ان پڑھ ڈاکٹرز کو پتا چلا اس کی آنت میں واقعی لیکیج تھی اور اس کوکورونا نہیں تھا’ڈاکٹرز آپریشن سے پہلے تک کہتے رہے وینٹی لیٹر کا انتظام نہیں ہو رہالیکن جب سوشل میڈیا پر بات چلی تو ڈاکٹرز نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے فوراً وینٹی لیٹر کا انتظام بھی کروا دیا’ آپریشن کے بعد میرا بھائی سلمان میڈیکل آئی سی یو میں تین دن زندہ رہا پھر وہ وفات پا گیا۔اگر میرے بھائی کا آپریشن بروقت ہو جاتا تو وہ یقینا آج زندہ ہوتا لیکن وہ اپنا علاج اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے کولیگز کی منتیں کرتا رہا مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی یوں ڈاکٹرز کی کاہلی اور بے حسی کی وجہ سے ایک شان دار سرجن انتقال کر گیا اور میرے والدین ایک ہیرے جیسے بیٹے اور قوم مستقبل کے بڑے سرجن سے محروم ہو گئی۔
ہمارے دلوں پر جو بیتی اور جو بیت رہی ہے میں وہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا تاہم میری آپ اور اس قوم سے التجا ہے ہمارے نقصان کا بدلہ اور انصاف اس دنیا میں ممکن نہیں’اس کا فیصلہ روز قیامت ہو گا لیکن ریاست کو کم از کم ڈیوٹی پر موجود تمام ڈاکٹرز کے لائسنس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کینسل کر دینے چاہییں تا کہ یہ دوسرے تمام ڈاکٹرز کے لئے نشان عبرت بن سکیں اور کسی دوسرے سلمان کے ساتھ ایسا نہ ہو۔میری حکومت پنجاب سے بھی اپیل ہے اس واقعے کا حل کمیٹیاں نہیں ہیں۔ڈاکٹرز کبھی اپنے ڈاکٹرز کے خلاف فیصلہ نہیں کریں گے’ کمیٹیوں کے بجائے اس کا حل اس سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے اور عبرت کے طور پر ڈیوٹی پر موجود تمام ڈاکٹرز خصوصاً ڈاکٹر کاشف ملک اور ڈاکٹر افضال آفتاب خان کو فوری سزا دی جائے اور آئندہ کے لیے ایسا سسٹم بنایا جائے کہ پھر کبھی کسی ماں کے پیارے بیٹے کے ساتھ ایسا نہ ہو۔
میرا بھائی اس دنیا سے چلا گیا لیکن پاکستان کے ہیلتھ سسٹم پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا’ یہ آج بھی کہہ رہا ہے‘‘میں تو ایک ڈاکٹر تھا’ میرے ساتھ یہ سلوک کیا گیا تو عام انسانوں کے ساتھ یہ جاہل اور گنوار ڈاکٹرز کیا کرتے ہوں گے’’۔ہم کس ملک میں رہ رہے ہیں آپ ذرا تصور کیجیے’ ایک ایسا ملک جس میں ڈاکٹرز کو بھی ہسپتال میں علاج نہیں ملتا’ یہ ہے ہمارا ہیلتھ سسٹم۔
کیا ہم اس سسٹم کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں؟ میں یہ سوال وزیراعظم’ مشیر صحت اور پنجاب کی وزیرصحت کے لیے چھوڑ رہا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں آپ اللہ سے روز صحت کی دعا کیا کریں’ کیوں؟ کیوں کہ آپ نے اگر خدانخواستہ ایک بار کسی ہسپتال کی سیڑھیوں پر قدم رکھ دیا تو پھر آپ یاد رکھیں وہاں سے ڈاکٹر سلمان کی طرح آپ کا تابوت ہی واپس آئے گا۔