جواب:آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
اگر معاہدے میں طے کیا گیا ہے کہ فلاں دن کے بعد زید مذکورہ پراپرٹی کا مالک بن جائے گا’ خواہ بقیہ رقم ادا کرے یا نہ کرے تو زید کو عبید سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں، مقررہ مدت کے بعد ملکیت منتقل ہو جائے گی اور زید اس پراپرٹی کو جیسے چاہے استعمال میں لاسکتا ہے اور فروخت بھی کر سکتا ہے۔ لیکن اگر صورتحال اس کے برعکس ہے کہ ملکیت کی منتقلی کے لیے تمام قیمت ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے تو پھر زید اس پراپرٹی کو عبید کی اجازت کے بغیر فروخت نہیں کرسکتا۔اگر پلاٹ کے بارے میں ضروری معلومات(جیسے: پلاٹ کس شہر / ٹاؤن میں ہے، اس کی پیمائش، قیمت وغیرہ کیا ہے) فائل میں درج ہیں تو فائلز خرید سکتے ہیں۔ پراپرٹی ڈیلرز اگر ہاؤسنگ کے بارے میں حقائق بیان کر کے اس کی فائلز سیل کریں تو ان کے لیے کمیشن لینا جائز ہے۔ اس کے برعکس جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ فراڈ سے لوگوں کو پھنسانا حرام ہے۔
اگر پراپرٹی کا مالک ڈیلر کو اجازت دے کہ میری یہ پراپرٹی فلاں قیمت پر بیچ دو تو ڈیلر خریدنے والے سے زیادہ قیمت پر طے کر کے بیچ دے تو اضافی رقم اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔(مفتی: محمد شبیر قادری)
جواب :اشتہارات سے ہونے والی آمدن کی حلت و حرمت کا انحصار اس بات پر ہے کہ اشتہار کس شے کا ہے؟ جس شے کی تشہیر کی جا رہی ہے حلت و حرمت کے حوالے سے اس کی اپنی حیثیت کیا ہے؟ اگر اشتہارات ایسی مصنوعات کے ہیں جن کا استعمال اسلام میں جائز ہے تو اس سے ہونے والی آمدن بھی جائز اور حلال ہے، اور اگر اشتہارات ممنوعہ اشیاء کے ہیں جیسے: شراب، سور کا گوشت یا فحش فلمیں وغیرہ یا پھر فحش و بیہودہ اشتہارات ہیں تو ان سے حاصل کی جانے والی آمدن بھی جائز نہیں۔
جواب:آپ نے واضح نہیں کیا کہ آپ لوگ شادی کے بعد پہلا بچہ ہی چار سال تک پیدا نہیں کرنا چاہتے یا ایک بچے کی پیدائش کے بعد چار سال کا وقفہ کرنا چاہتے ہیں؟ اگر شادی کے بعد بلاوجہ پہلا بچہ چار سال تک پیدا نہیں کرنا چاہتے تو یہ نہ صرف شرعی نقطہ نظر سے ناجائز ہے بلکہ کسی طور بھی فائدہ مند نہیں ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ آپ ایک بچے کی پیدائش کے بعد دوسرا بچہ چار سال بعد پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہ نہ صرف شرعی نقطہ نظر سے جائز ہے بلکہ ماں اور بچے کی صحت کے لیے ضروری بھی ہے۔ اس سے پہلا بچہ مدت رضاعت پوری کر کے چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے گا اور آنے والا بچہ بھی صحت مند ہوگا۔مانع حمل کا جوطریقہ بھی مستند ڈاکٹر تجویز کرے اپنایا جاسکتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ طبی نقطہ نظر نقصان دہ نہ ہو۔
(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)
جواب:ختنہ کروانا سنت مؤکدہ ہے اور یہ سب انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے ختنہ کروانا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر کوئی نہیں کرواتا تو وہ تارک سنت ہو گا۔ادھیڑ عمر مرد اگر مسلمان ہو جائے تو اس کے لئے بہتر ہے کہ وہ ختنہ کروائے اگر نہیں کروائے گا تو اس کے مسلمان ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ وہ بہرصورت مسلمان ہو گا۔
جن ممالک میں خواتین کے ختنے کئے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، علماء کے درمیان اس معاملے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک ختنہ کرنا جائز اور بعض کے نزدیک ناجائز ہے۔ ختنہ کا مقصد عورتوں سے شہوت کم کرنا ہے۔ لہذا ہمارے نزدیک بھی عورتوں کا ختنہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ شہوت کا ہونا ان کا بھی حق ہے۔ لہذا اگر کوئی کرواتا ہے تب بھی ٹھیک اور اگر کوئی ختنے نہیں کرواتا تب بھی ٹھیک ہے۔
جواب:جی ہاں غیر اسلامی ملک میں روزگار کے لیے جانے کی شرعی اجازت ہے۔ اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، ساری روئے زمین اللہ رب العزت کی ہے اور اس میں موجود خزانے اللہ تعالی نے اپنے انسانوں کے لیے پیدا کیے ہیں۔ غیر اسلامی ممالک کی دو اقسام ہیں۔دار الکفر،دار الحرب
دار الکفر۔ایسے ممالک جہاں پر حکومت کفار و مشرکین اور غیر مسلموں کی ہو جیسے، امریکہ، یورپ کے سب ممالک، برطانیہ وغیرہ، ان ممالک میں اگرچہ حکومت غیر مسلموں کی ہے لیکن وہاں پر اسلامی تعلیمات پر چلنے کی اجازت ہے۔ ان ممالک میں مسلمان پوری آزادی کے ساتھ اللہ کی عبادت کر سکتے ہیں،اور جمیع اسلامی تعلیمات پر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ ایسے ممالک میں روزگار کے لیے جانے پر شرعی اجازت ہے کسی قسم کا کوئی حرج نہیں۔
دار الحرب ۔ایسا ملک جہاں پر غیر مسلموں کی حکومت ہو ان کا نظام ہو اور وہاں پر اسلامی تعلیمات پر چلنے کی اجازت نہ ہو۔ عبادت کرنے، مساجد کی تعمیر کرنے پر پابندی ہو۔ وہاں مسلمانوں کے خلاف ظلم ہو رہا ہو، انہیں قتل کیا جا رہا ہو۔ یعنی مسلمانوں کے لئے مشکل ہو کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کر سکیں تو ایسے ممالک میں روزگار کے لئے جانا جائز نہیں ہے، فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ وہاں پر رہنے والے لوگوں کو چاہیے کہ وہ بھی ایسے ممالک سے ہجرت کر کے کسی ایسے ملک میں جائیں جہاں اسلام کی مطابق اپنی زندگیاں بسر کر سکیں۔ جب ان کو حکم ہے کہ وہ ہجرت کریں تو پھر دوسرے ملک سے دار الحرب جانا مسلمانوں کے لئے بدرجہ اولی ممنوع اور ناجائز ہے۔
جواب:اگر یہ عمل بار بار نہ ہو بلکہ ایک یا دو بار ایسا کر لیا تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یہ عمل قلیل ہے۔ اس کے برعکس اگر اس نے بار بار ایسا کیا تو عمل کثیر کی بنا پر نماز فاسد ہو جائے گی۔موبائل سامنے رکھے ہونے کی صورت میں نمازی نے دورانِ نماز اگر ایک آدھ مرتبہ موبائل پر آنے والے فون کا نمبر دیکھ کر زبان سے تکلم کیے بغیر اسے بند کر دیا تو اس سے بھی نماز فاسد نہیں ہوگی۔‘‘نمازی نے (دورانِ نماز) ارادتاً یا غیر ارادی طور پر کسی تحریر کی طرف دیکھا اور اسے سمجھ لیا خواہ وہ قرآن یا اس کے علاوہ کوئی تحریر ہے تو ادب کے خلاف ہے لیکن نطقِ کلام نہ پائے جانے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔’’
جواب:چاند گرہن اور سورج گرہن کے حاملہ عورت پر کوئی اثرات واقع نہیں ہوتے۔ یہ احمقانہ اور جہالت پر مبنی باتیں ہیں جو ہمارے معاشرے کے اندر رواج پا گئی ہیں۔
(حافط محمد اشتیاق الازہری)
جواب:اگر نمازی کم ہیں اور گرمی کی شدت زیادہ ہے تو آدھے پہلی صف میں اور آدھے دوسری صف میں برابر برابر کھڑے ہو جائیں اور اگر نمازی زیادہ ہیں مثلاً زیادہ صفیں ہوں تو ایسی صورت میں پہلے پہلی صف مکمل کریں پھر دوسری اور اس طرح باقی صفیں۔ نمازی تھوڑے ہونے کی صورت میں جائز ہے اور زیادہ کی صورت میں پہلی صف کو مکمل کیے بغیر جائز نہیں ہے۔
جواب:اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ڈرامہ، دھوکہ اور فراڈ ہے۔ سادہ لوح لوگوں سے جاہل عاملوں کا پیسے بٹورنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ سب جہالت اور سادگی ہے اور عاملوں کا دھوکہ اور فراڈ ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
(حافط محمد اشتیاق الازہری)
جواب:چونکہ آپ نے جان بوجھ کر خون کی شیشی جیب میں رکھ کر نماز نہیں پڑھی اس لیے آپ کی نماز ہو گئی ہے آئندہ اس سے پرہیز کریں۔ دانستہ خون کی شیشی جیب میں رکھ کر نماز ادا کرنے سے نماز نہیں ہوتی۔
جواب:فرض نماز کی ادائیگی اس کے وقت میں ہی درست ہے، چاہے اذان کے بعد ادا کی جائے یا اذان سے پہلے’ نماز کا وقت شروع ہونے سے پہلے ادا کی گئی نماز درست نہیں۔اذان’ نماز کا وقت شروع ہونے کا اعلان نہیں ہوتا بلکہ نماز کا وقت اس سے پہلے ہی شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ اذان کا مقصد جماعت کے لیے لوگوں کو اکھٹا کرنا ہوتا ہے اس لیے اذان نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد دی جاتی ہے۔ اگر آپ نے بھی فجر کے وقت میں نمازِ فجر ادا کی ہے تو نماز ہوگئی، قضاء پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر نماز کا وقت ہی شروع نہیں ہوا تھا تو نماز لوٹانا ضروری ہے۔
(مفتی محمد شبیر قادری)
جواب:مسلمان سونے کا کام کرنے والا ہو یا لوہے کا اس سے اگر کوئی عیسائی صلیب بنوائے تو اس کی روزی حرام نہیں ہو گی۔ باقی رہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے والے عیسائی کو صلیب اتارنے کے لیے کہنا، تو یہ صاف ظاہر ہے جب کوئی عیسائی مسلمان ہونے کے لیے آئے گا پھر اس کو صلیب اتارنے کا ہی حکم دیا جائے گا۔
جواب:موسیقی فی نفسہ ممنوع نہیں ہے۔ تاہم جب اس کے ساتھ فحش کلام اور عریاں رقص کو شامل کر لیا جائے تو اس کی خرید و فروخت کر کے اسے فروغ دینا قطعاً حرام ہو جاتا ہے۔ اگر اپنی ویب سائٹ پر آپ فحش گانے اور عریاں ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں تو اس کی آمدنی ناجائز ہے، ورنہ نہیں۔
جواب:کھڑے ہو کر کھانا پینا شرعاً جائز ہے
‘‘حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پانی پیش کیا گیا جبکہ وہ حویلی کے دروازے کے پاس تھے تو انہوں نے کھڑے کھڑے پانی نوش فرمایا اور ارشاد ہوا کہ اگر کوئی آدمی کھڑا ہو کر پانی پیئے تو کچھ لوگ اسے مکروہ جانتے ہیں حالانکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے جس طرح تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا ہے’’۔(بخاری الصحیح، 5: 2130، باب الشرب قائما، رقم: 5292، دار ابن کثیر الیمامۃ بیروت)
‘‘عبد الملک بن میسرہ کا بیان ہے کہ میں نے نزال بن سبرہ سے سنا کہ انہوں نے نمازِ ظہر پڑھی، پھر لوگوں کی حاجت روائی کرنے کے لئے کوفہ کی جامع مسجد کے سامنے والے چبوترے پر بیٹھ گئے، یہاں تک کہ نمازِ عصر کا وقت ہوگیا۔ پھر آپ کی خدمت میں پانی پیش کیا گیا تو آپ نے نوش فرمایا اور اپنے منہ ہاتھ دھوئے۔ شعبہ راوی نے سر اور پیروں کا بھی ذکر کیا ہے پھر آپ کھڑے ہوئے اور کھڑے کھڑے بچا ہوا پانی نوش فرمایا۔ پھر فرمایا کہ بعض لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ جانتے ہیں حالانکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح کیا جیسے میں نے کیا ہے۔’’
بخاری، الصحیح، 5: 2130، رقم: 5293
‘‘جان لیجئے کہ کھڑے ہو کر پینے کی حدیثیں بھی آئی ہیں اور منع کی بھی جواز کی حدیثوں میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں امام بخاری نے یہاں روایت کیا ہے اور حدیث ابن عمر جسے ترمذی نے نافع سے ذکر کیا ہے اور کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں چلتے پھرتے کھانا کھاتے تھے اور کھڑے ہو کر پیتے تھے۔
پھر ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسے ابن ماجہ اور ابن حبان نے ذکر کیا ہے۔ اور حدیث سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جسے ترمذی نے شمائل میں ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر پیتے تھے، اس کی سند حسن ہے اور حدیث سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جسے امام نسائی نے مسروق کے حوالہ سے ان سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھے ہوئے پیتے دیکھا ہے اور حدیث انس رضی اللہ عنہ جسے امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں ذکر فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، مشکیزہ لٹک رہا تھا، سرکار نے اس کے منہ سے کھڑے ہو کر پانی پیا اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث، جسے ہم نے اپنے شیخ زین الدین رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے، جسے انہوں نے فوائد ابوبکر شافعی کے دسویں جزء میں زیاد بن المنذر عن بشیر بن غالب عن حسین بن علی کی روایت سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھڑے ہو کر پانی پیتے دیکھا ہے اور خباب بن الارت کی حدیث جسے ہم نے اپنے شیخ اور وہ حضرت مجاہد سے طبرانی کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا ہمیں سخت پیاس لگی، ہمارے پاس پانی نہ تھا ہم میں سے ایک صاحب کی اونٹنی بیٹھی ہوئی تھی دیکھتے کیا ہیں کہ اس کے پاؤں کے درمیان مشکیزے کی طرح دودھ سے بھرا ہوا ہے تو ہم نے اس کا دودھ پیا۔ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں یہ فعل صحابہ کرام کا ہے جو مرفوع کے حکم میں ہے اور معجم صغیر طبرانی حضرت سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پانی کھڑے ہو کر پیتے دیکھا ہے اور ام سلیم کی حدیث مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے گھر میں مشکیزہ لٹک رہا تھا آپ سرکار نے اس سے کھڑے ہو کر پانی پیا اور حدیث کبشہ جسے ترمذی اور ابن ماجہ نے ان سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے مشکیزہ سے کھڑے کھڑے پانی پیا اور حدیث کلثم جسے ابو موسیٰ المدینی نے اپنی کتاب معرفۃ الصحابہ میں ان سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور لٹکے ہوئے مشکیزے سے کھڑے کھڑے پانی نوش فرمایا اور عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث جسے امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھڑے اور بیٹھے پانی پیتے دیکھا ہے اور عبد اللہ بن سائب بن خباب عن ابیہ عن جدہ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ نے مشکیزہ سے کھڑے ہو کر پانی پیا۔ اسے محمد بن ابی حاتم الرازی نے سند صحیح سے روایت کیا ہے’’۔(بدر الدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، 21: 193، دار احیاء التراث العربی بیروت)
منع کی روایت:
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہے:
‘‘اگر کھڑے ہو کر پینے والے کو معلوم ہو تو قے کر دے’’۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر ہرگز نہ پئے بھول ہو جائے تو قے کر دے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے ڈانٹا ہے یونہی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے ڈانٹا ہے۔ ترمذی نے جارود بن المعلی سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا ہے اور کہا ہے یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اہل ظاہر نے ان احادیث سے کھڑے ہو کر پینے کو حرام کہا ہے۔
تطبیق:
1۔ نہی محمول ہے مکروہ تنزیہی پر تحریمی پر نہیں۔ اسی قول کی طرف وہ آئمہ گئے ہیں جو حدیث و فقہ میں مطابقت کرتے ہیں جیسے الخطابی، ابو محمد بغوی، ابو عبد اللہ المازری، قاضی عیاض، ابو العباس القرطبی، ابو زکریا النووی رحمھم اللہ تعالٰی۔
2۔ یہاں کھڑے ہو کر پینے والے سے مراد چلتے پھرتے پینے والا ہے ۔
3۔ یہ ارشاد اس صورت پر محمول ہے کہ آدمی اپنے ساتھیوں کیلئے مشروب لائے اور کھڑے کھڑے پہلے خود پینا شروع کر دے یہ معنی ابو الولید الباجی اور المازری نے ذکر کیا ہے۔
4۔ کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کی حدیثیں ضعیف ہیں یہ قول مالکیہ کی ایک جماعت نے کیا ہے جن میں علامہ ابو عمر ابن عبد البر بھی شامل ہیں اور اس قول میں گفتگو کی گنجائش ہے۔
5۔ منع کی حدیثیں منسوخ ہیں یہ بات ابو حفض بن شاھین اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں کہی ہے۔
6۔ ابن حزم ظاہری نے کہا منع کی حدیثیں کھڑے ہو کر پینے کی روایات کی ناسخ ہیں۔
7۔ امام نووی نے شرح مسلم میں فرمایا صحیح تر بات یہ ہے کہ یہ ممانعت مکروہ تنزیہی کو ثابت کرتی ہے رہا سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کھڑے ہو کر پینا تو یہ بیان جواز کیلئے ہے۔ لہٰذا کوئی اشکال و تعارض نہیں ۔
علامہ بدر الدین عینی، عمدۃ القاری، شرح بخاری، 21: 193
فقہائے اسلام:
‘‘کھڑے ہو کر پینے میں کوئی حرج نہیں ہے چلتا پھرتا نہ پیئے مسافروں کے لیے اسکی رخصت ہے اور ایک سانس میں نہ پیئے’’۔
(الشیخ نظام و جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، 5: 341، دار الفکر)
خلاصہ کلام:
خلاصہ ان تصریحات شرعیہ کا یہ ہے کہ معذور افراد کیلئے تو ویسے ہی ہر قانون میں رعایت و استثناء موجود ہے وہ نماز، روزہ، حج اور کھانے پینے میں اس شرعی رعایت سے فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن کھڑے ہو کر کھانے پینے میں غیر معذور افراد کو بھی گناہ گار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولیٰ کہہ سکتے ہیں۔