علامہ اعجاز فرخ کا مکتوب وصی بختیاری کے نام
نورِ چشم وصی بختیاری سلمہ!
خدا سلامت رکھے، بلاؤں سے محفوظ رکھے جونوشتہ جاں تم نے نوشتہ دیوار کر دیے، ان پر احباب کے تبصرے پڑھ کر آنکھ بھر آئی۔ کچھ یوں کہ اس دہرِ ناسپاس اور کوچہ کم نگراں میں اتنی چاہتیں، التفات، مہر ومحبت اور کچھ اس سے سوا تبصروں کی زبان، بیان، محاورہ، نکتہ شناسی، نکتہ رسی، نکتہ نوازی، بین السطور کا تجزیہ، عرق ریزی نے مجھے تحیّر کی لذت سے آشنا کیا۔ محبتوں اور عنایات نے شرابور کر دیا۔ سنتا رہتا ہوں کہ اردو زوال پذیر ہے۔ تمہارے احباب نے تبصروں میں جو فکری جولانیاں دکھلائی ہیں، باعث رشک ہیں۔ اردو سے ان کی والہانہ محبت کی مہک، ان کی زبان اور انتخاب الفاظ سے آشکار ہے۔ تم جانتے ہو کہ میں ٹھہرا زبان کا پھوہڑ، ہنرِ بے ہنری میں یکتائے روزگار، علمی نادار۔ یہ مجھ سے کبھی نہ ہو سکا کہ اپنے آپ طمانچہ مار کے منہ لال کئے جاؤ ں اور کہوں کہ جو میرے ہے سو راجہ کے نہیں۔ کیسے کیسے سریر آرائے سلطنت سخن گزرے، ان کے اقلیمِ ریاست میں ہزارہا الفاظ کی بستیاں۔ وہ تو خیر تھے ہی سخن ور، سخن گو، سخن شعار، سخن سنج، سخن نواز لیکن ان کے بیرون خانہ نوکر چاکر، چوبدار، حاجب، خدمت گار، فراش، شاگرد پیشہ، حقہ بردار، سقّہ، آب پاش، مصاحب، خادم، غلام سب کے سب بذلہ سنج، لہجہ شناس اور حفظِ مراتب آشنا۔ درونِ خانہ کا تذکرہ کیوں کر ہو کہ بیگم صاحبہ کی بیگماتی زبان کا تو پوچھنا کیا اور کہنا کیا۔ وہ تو عطر میں بسی، پھولوں میں گندھی، پنکھڑیوں جیسے لبوں سے ادا ہوئی، اس زبان کی خیرات، زکوٰۃ، صدقہ بخشش جو عطا ہوئی تو لونڈیوں، باندیوں، کنیزوں، ماماؤں، مغلانیوں، قلماقنیوں، جسولنیوں، پاپوش برداروں، مالنوں اور پھلارنوں بھی وہ گل کھلائے کہ اس زبان کے آگے سہرا، بدھی، گجرا، سر پیچ، ہار سب نے ہار مانی کہ آخر کو لب خنداں کی گفتگو ہے۔ گلاب لہجہ، نسترن آہنگ، سُمن کلامی، شبنم فشانی، دھنک رنگ، یہ تو ہوئی زبان کی ایک جھلک،لیکن جس نے پس پردہ ہلکی سی آہٹ کو سنا، اس پر حرف ہزار معنی کا گنجینہ کھلااور جس نے پس چلمن آنکھوں کی زبان سنی، اس نے خاموش تکلّم کے بھنور میں موسیقی کے سارے ہی راگ سنے اور راگنیوں کا سراپا آنکھوں آنکھوں میں سمیٹا۔ یہ جمال، سماعت دیدہ اور بصارت شنیدہ ہے، جسے آنکھوں سے سنا اور کانوں سے دیکھاجائے ہے۔ جو مستور ہو تو روبرو ہے اور سامنے ہو تو پردہ پوش ہے۔ فراق میں لذتِ وصل سے سرشار کرے ہے اور وصل میں اندیشہ ہجر بسمل کیا چاہے ہے۔
تمہیں تو خوب اندازہ ہے کہ تعلیم نسواں ہندوستان میں ایک صدی کے آس پاس کا واقعہ ہے، ورنہ تو ساری تعلیم توبۃ النصوح اور مراۃ العروس پر تمام تھی۔ یہ پردہ نشیں خواتین کسی جامعہ کی فارغ التحصیل نہیں تھیں۔ لغت سے زبان نہیں سیکھی جاتی۔ زبان تو اہلِ زبان سے سیکھی جاتی ہے۔ سارے ہی اہلِ زبان نے ان ہی خواتین کے آغوش میں پرورش پائی ہے۔ ان ہی سے زبان سیکھی ہے، کل بھی اور آج بھی زبان کا مدار و قرار ان ہی گھرانوں پر ہے۔ میرؔ، غالبؔ، آتشؔ، سوداؔ، ناسخؔ، انیسؔ، دبیرؔ، جوشؔ، فراقؔ، جگرؔ، یگانہؔ، مولوی نذیر احمد، رتن ناتھ سرشار، محمد حسین آزاد، کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ ان کی اپنی زبان ہے بلکہ سب نے یہی کہا کہ یہ ان کے گھر کی زبان ہے۔ تم تو اردو کے مدرس ہو، خوب سمجھتے ہو کہ ترویج اور ترقی کی کیا صورتیں رہی ہیں۔ ان تمام کے قطع نظر اتنا تو بتلاؤ دنیا میں مردوں اور خواتین کے لیے علیحدہ علیحدہ پیرایٗہ اظہار کن کن زبانوں میں پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے تم کو یا تمہارے احباب کو نسائی تہذیب اور نسائی لب و لہجہ پسند نہ ہو۔ پسند و ناپسند کی بات اور ہے لیکن اس کے وجود سے انکار محال ہے۔ مجھے تو علم نہیں ہے کسی نے گہوارے میں لوری باپ سے سنی ہویا جو بچپن میں ماں کے سینے سے لگے رہنے کی حرارت بڑھاپے تک نہ بھول پایا ہو۔ وہ اردو کو کیا بھلا پائے گا۔
میری طالب علمی کا تذکرہ ہے، ہمارے استاد مولوی فضل اللہ صاحب اردو کے معلّم تھے۔ میر ؔ، مومن ؔ، غالب ؔ، ان کے پسندیدہ شعراء تھے۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ انہوں نے ایک غزل ایک ساعت میں پڑھائی ہو۔ پہلے پانچ سات منٹ تو وہ خلا میں تکتے رہتے، کبھی مسکراتے، کبھی سنجیدگی کی پرچھائیاں چہرے پر لیے ساکت کھڑے رہتے، کبھی زیر لب اپنے آپ سے مخاطب رہتے اور پھر دو تین شعر پڑھاتے۔ پڑھاتے پڑھاتے کہیں کھو جاتے اور وقت ختم ہو جاتا۔ ایک دن غالب کی غزل پڑھا رہے تھے:
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا
کوئی دو تین دن بعد مقطع تک پہونچے تو فرمایا: ‘‘اب سنو! یہ ہے غالب!’’۔ یہ کہہ کر مقطع پڑھا:
بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!!
پہلے مصرعے کی تو انہوں نے دوچار منٹ میں تشریح فرما دی۔ دوسرے مصرعہ پر پہونچے تو ''عبارت کیا'' کئی زاویوں سے بیان کیا پھر جب ‘‘اشارت کیا’’ پر پہونچے، کئی انداز سے بیان فرماتے رہے۔ ہر انداز پہلے سے جداگانہ، سابق سے الگ۔ ایک عجیب سماں تھا۔ کبھی لگتا تھا وہ ہم سے مخاطب ہیں، کبھی محسوس ہوتا تھا نہ وہ ہمارے روبرو ہیں، نہ ہم ان کے سامنے ہیں۔ سارا وقت پل بھر سے زیادہ ٹھہر نہیں پاتا تھا۔ ایک سانس لینے کے لیے رکے، پھر ہم پر نگاہ کرتے ہوئے دیوار کی طرف دیکھ کر کہا: ‘‘اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھوں۔’’ ہمارے کلاس روم سے متصل چمن تھا، ہم نے اُدھر دیکھا، لیکن وہ تو دیوار سے مخاطب تھے، ان کی نظر دیوار سے ہٹی تو ہم سامنے تھے۔ پوچھا ''سمجھے تم لوگ؟''۔ ہم کیا کہتے، ہم چپ رہے۔ عبارت کیا، اشارت کیا، خیال آرائی یا انجمن آرائی سے فرصت ہوئی تو بڑی طرح اور ترنگ میں فرمایا: ''ادا کیا''۔ اس کے بعد پھر کھو گئے۔ پھر زیرِ لب دو تین بار کہا: ‘‘ادا کیا’’۔ اس دوران کبھی ہلکے سے مسکرائے، کبھی آنکھیں بند کر لیں جیسے عالمِ جذب میں ہوں، سب کچھ تو مجھے یاد نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ وہ آہستہ آہستہ کہہ رہے تھے:
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے!
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے
گجر نے اعلان رُخصت کیا، وہ چونکے۔ سائنس کے معلم دروازے پر تھے۔ بقول ان ہی کے ‘‘ٹوپی اوڑھی’’ اور چلتے چلتے کہہ گئے: ‘‘یہ ''ادا کیا''، جب وقت آئے گا تم خود سمجھ لو گے۔’’ اس وقت میری عمر چودہ برس تھی، اب اٹھتّر بہار و خزاں سر پر سے گزر چکے۔ آج تک سوچتا ہوں کہ اس طلسم کدہ حسن و عشق میں اس ہزار شیوہ، ہزار رنگ و معنی لفظ‘‘ادا’’ کا مفہوم کہاں سے ڈھونڈ لاؤں؟۔ اسے شب کی تنہائیوں میں ڈھونڈ آیا۔ نمودارء سحر میں تلاش کیا۔ ڈوبتی شام کے رنگوں اور سسکیوں میں دیکھ آیا۔ اب اور کہاں تلاش کروں؟۔
تمہارے بعض احباب نے یہ خواہش کی ہے کہ تم مجھ سے خودنوشت سوانح لکھواؤ۔ یہ کوئی آسان کام نہیں۔کہنے کو دو نفس کا اختصار ہے ورنہ تو داستان ایک عمر کی ہے۔ کوئی پل صدیوں پر بھاری ہے۔ کبھی ایک مدت دراز پل بھر سے بھی کم ہے۔ ہزار ہزار چہرے دیکھے۔ ان پر لکھی داستانوں کو ورق ورق پڑھا۔ سطر سطر، لفظ لفظ، حرف حرف دیکھا۔ ہر لفظ نے ایک داستان بیان کی۔ ایک لفظ اور دوسرے لفظ کے درمیان خاموشی نے ذات کے اندر پوشیدہ نہاں خانوں کی سیر کروائی۔ ان کے نسب ناموں کے پوشیدہ راز آشکار کئے۔ وہ بے چہرہ لوگ بھی نظر سے گزرے جو نقاب اندر نقاب چھپے چھپے سے رہے۔ خود اپنا چہرہ زندگی میں نہ دیکھ پائے۔ کبھی ذات کے آئینے سے روبرو نہ ہوئے۔ یہ تو کچھ جوش ہی کا حق تھا کہ زہر کے جام نوش کر کے بھی جو کہنا تھا سو کہہ گزرے۔لوگ کہتے ہیں جوش کی یادوں کی بارات میں جھوٹ بھی شامل ہے۔ میں جانتا ہوں کہ سچ بس سچ ہے، نہ بڑھ سکتا ہے نہ گھٹ سکتا ہے۔ اور جھوٹ کی انتہاء نہیں ہوتی۔ لیکن مجھے اُن کایہ جھوٹ اچھا لگتا ہے۔ جوش نے اپنے حالات زندگی ہی کو سوانح نہیں سمجھا۔ یہ تو جوش کے اندر کے آدمی کی بھی سوانح ہے۔ آرزوؤں کی، خواہشوں کی، تمناؤں کی، نادمیدہ حسرتوں کی، آتش شوق میں سلگتے لمحوں کی، راکھ تلے دبی ہوئی چنگاریوں کی۔ویسے بھی کسی انسان کی اپنی کوئی سوانح نہیں ہوتی۔ اس کے اطراف کے کرداروں سے مل کر سوانح ترتیب پاتی ہے۔ زندگی تجربات حوادث سے معمور ہے لیکن تم یہ خواہش ایک ایسے دور میں کر رہے ہو جس میں اندھے رقص کی تعریف کرتے ہیں، بہرے موسیقی کی داد دے رہے ہیں، گونگے ایوانِ خطابت میں اپنی گفتار کا رس گھول رہے ہیں، بونے قد آوروں کا قد ناپ رہے ہیں، شخصی تشہیر کو ذریعہ عزت سمجھا جا رہا ہے،صنعتِ قد آوری کا موسم ہے، لوگ سفاکوں سے آئینِ وفا اور نفس گمراہ سے منزل کا پتہ پوچھیں ہیں۔ سب کچھ تمہارے سامنے ہے۔
خدا خیر کرے اس وبا نے کیسے کیسے منظر دکھلائے ہیں۔ مسجد نمازیوں سے خالی، منبر پر نہ واعظ، نہ عالم، نہ خطیب، نہ محتسب۔ محراب میں خاموشی۔ خدا ان کو جزائے خیر دے جنہوں نے اپنا دستِ پُر عطا یوں دراز کیا کہ نہ دامنوں کو خبر ہوئی نہ آستینوں کو۔ خدا ان کو بھی اعمال کی جزاء دے جنہوں نے غریبوں کو یوں رسوا کیا کہ جو بھوک سے نہ مرا ہو سو شرم سے مر جائے۔ دنیا میں صرف دو ہی معاشی طبقات ہیں: یا غریب ہے یا امیر۔ متوسط طبقے کی اصطلاح تو ہم نے اپنی سفید ہوشی کے بھرم کے لیے تراش رکھی ہے۔
عالم پناہ تو عالم پناہ ہیں، انہیں تو بس فرمان صادر کرنا ہے، انہیں نہ اس سے غرض ہے کہ ''مفلسی پاسِ شرافت نہیں رہنے دیتی''، یہ ہوا، پیڑ سلامت نہیں رہنے دیتی۔’’ پیٹ میں بھوک سے بل پڑنے لگیں تو کیسی دھوپ اور کیسا سورج؟۔ سب سے بڑھ کر پیٹ کی آگ!۔ وہ تو یہ بھی نہ جانے ہیں کہ رہ نوردانِ شوق نے کوئے یار تک کی مسافت طے کرنے تک پاؤں کے چھالوں میں کچھ نہ کچھ رنگ حنا کا بھی اہتمام کر رکھا ہے۔ مہاماری کا تو حساب ہے لیکن بھوک ماری کا شمار نہیں۔ غربت نصیبوں کا تو مداوا ہوا، سفید پوشی نے تو دست طلب بھی نہ دراز کرنے دیا۔ سب کچھ ختم ہو گیا۔ فاقے کا دوسرا دن بھی تمام ہونے کے قریب ہوا۔ بچوں کو بلکنے کی بھی تاب نہ رہی تو بیوی نے شوہر کی طرف دیکھا۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کے خاموش ہو گئے، سفید پوشی دست طلب دراز کرنے میں مانع تھی۔ وہ اٹھی، برقعہ پہنا، شوہر اوربچوں کو ایک نظر دیکھا اور نکل پڑی۔ جہاں اناج تقسیم ہو رہا تھا قطار میں جا کھڑی ہوئی۔ ہاتھ پاؤں میں لرزش بھی تھی اور ہونٹوں پر دعا بھی۔ پروردگار تو غریبوں کا محافظ ہے، میری لاج رکھ لیجو۔ اس نے لاج رکھ لی۔ یہ منظر تم نے بھی دیکھا ہوگا۔ یہ منظر بھی دیکھو۔
کوئی ستر برس پہلے جب انضمامِ حیدرآباد ہوا، جن ڈیوڑھیوں پر نوبت نقارے تھے، وہاں سناٹوں کا راج تھا۔ لاکھ کے گھر خاک ہوئے۔ جو کچھ بک سکتا تھا، بک چکا۔ جن
ہاتھوں نے ہزاروں کو خیرات دی تھی، ان سے کوئی ہاتھ ملانے تک کا روادار نہ تھا۔ جو زبان نعمتوں کے ذائقے سے آشناتھی وہ فاقوں کے ذائقے سے آشنا ہوئی اور ایسے ہوئی کہ تیسرے دن پانی بھی پیٹ کی آگ کے آگے ہار گیا۔ ماں باپ دونوں فاقوں سے بے سدھ تھے۔ بیٹی نے پہلی بار گھر کے باہر قدم رکھا۔ رات دیر گئے لوٹ کر آئی۔ چولہا جلا، جب روٹیاں سامنے آئیں تو کسی نے کچھ کہا نہیں، بس رو پڑے۔
مسجدیں خالی ہیں، منبر خاموش ہے، محراب سونا ہے، در میخانہ کھلا ہے، ساقی صراحی بدوش ہے، میخوار جام بکف ہیں، شہر نغمہ سرا ہے۔ غریب کے لب پر مناجات ہے۔ میں کیا عید کروں؟۔
عالم پناہ تو عالم پناہ ہیں۔ جب تک مگرمچھ کے ہاتھ میں تعویز ہے دریا کی تہہ میں ڈھانچے تو نظر آئیں گے ہی۔
تمام رات وہی ہے فضاء میں گریہء میر
کسے خبر پسِ دیوار کیا گزری؟
پروردگار تمہاری عبادتوں کو قبول کرے، تمہاری سعی مشکور ہو، سوائے اپنے کسی اور کا محتاج نہ کرے، سرکارِ دوعالم کی شفاعت تمہارا مقدر ہو۔
والسلام!
ہمیشہ تمہارا اپنا
اعجاز فرخ عفی عنہ