انٹر نیٹ پہ جہاں سب کو، سب طرح کی معلومات میسر ہیں، وہیں اسلام سے دل چسپی رکھنے والے احباب کو بھی مستند اور غیر مستند، ہر طرح کی معلومات بآسانی اور با افراط مل جاتی ہیں جس کے نتیجے میں ہر کس و ناکس‘ اسلامی سکالر’ او‘ ر مفتی’ بن چکاہے ۔ کسی بھی مسئلے میں جب کوئی حدیث کسی ویب سائٹ پہ نظر آجاتی ہے تو سب اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس سے مسائل کا استنباط کر کے انہیں ثواب سمجھ کر پھیلا نا شروع کر دیتے ہیں۔حالانکہ یہ استنباط عموماً جہالت در جہالت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس صورت حالات میں یہ سوال پید ا ہوتا ہے کہ کسی حدیث کو سمجھنے کے لیے کیامحض اس کے الفاظ اور ان کا ترجمہ جاننا کافی ہوتا ہے یا الفاظ کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر علوم ، لوازمات ،سیاق و سباق اور فن حدیث کے ماہرین کی آرا کا جاننا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں مجھے ایک بار پھر وہی واقعہ یا د آر ہا ہے جو آج سے کم و بیش تیس بتیس برس قبل پیش آیا تھا۔واقعہ کی تفصیلات میں تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے کہ ایک زمانہ بیت گیا لیکن جزیات سے قطع نظر اس کا مفہوم سنیے اور خود ہی فیصلہ کیجیے کہ ایک غیر عالم کے لیے محض حدیث کے الفاظ سن کر اس سے کوئی نتیجہ اخذ کر لینا کس حد تک درست عمل ہے۔جس سال کی یہ بات ہے ،اُس سال راقم ایک مسجد میں چند دیگر نوجوانوں کے ساتھ معتکف تھا ۔گرمیوں کا زمانہ تھا ،ایک نوجوان نے امام مسجد سے سوال پوچھا کہ جناب کیا حالت اعتکاف میں نہانا جائز ہے؟ امام مسجد ،جو پاکستان کے اکثر آئمہ مساجد کی طرح ایک دوسال لگا کر مدرسے سے بھاگے ہوئے تھے لیکن جبہ اور عمامہ کے زور پر عالم بنے ہوئے تھے ، نے فرمایا کہ جی جناب جائز ہے ۔ بات یہیں تک رہتی تو شاید ٹھیک ہوتی لیکن اپنی علمیت کا رعب جمانے کے لیے وہ اردو ترجمے والی بخاری شریف اٹھا لائے اوردلیل کے طور پر یہ حدیث پڑھی ‘‘وَکَانَ یُخْرِجُ رَأْسَہُ إِلَیَّ وَہُوَ مُعْتَکِفٌ فَأَغْسِلُہُ وَأَنَا حَائِضٌ''. (حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں ) ‘‘اور آپ ﷺ اپنا سر مبارک میری طرف کر دیتے۔ اس وقت آپ ﷺ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے ہوتے اور میں حیض کی حالت میں ہونے کے باوجود آپ ﷺ کا سر مبارک دھو دیتی۔’’ مولوی صاحب یہ حدیث پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک نوجوان نے بخار ی شریف مولوی صاحب کے ہاتھ سے پکڑ کر خود دیکھنا شروع کر دی اور اسی حدیث سے متصل حدیث کاترجمہ پڑھ ڈالا ۔ وہ حدیث یہ تھی۔‘‘عَنْ عَائِشَۃَقَالَتْ: کَانَتْ إِحْدَانَا إِذَا کَانَتْ حَائِضًا فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُبَاشِرَہَا أَمَرَہَا أَنْ تَتَّزِرَ فِی فَوْرِ حَیْضَتِہَا، ثُمَّ یُبَاشِرُہَا، قَالَتْ: وَأَیُّکُمْ یَمْلِکُ إِرْبَہُ کَمَا کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْلِکُ إِرْبَہُ۔’’‘‘(حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ) آپ نے فرمایا ہم ازواج میں سے کوئی جب حائضہ ہوتی، اس حالت میں رسول اللہ ﷺ اگر مباشرت کا ارادہ کرتے تو آپ ﷺ ازار باندھنے کا حکم دے دیتے باوجود حیض کی زیادتی کے۔ پھر مباشرت کرتے، آپ نے کہا تم میں ایسا کون ہے جو نبی کریم ﷺ کی طرح اپنی شہوت پر قابو رکھتا ہو۔’’یہ ترجمہ پڑھ کر وہ نوجوان حیرا ن سا رہ گیا کیونکہ اردو ترجمے میں لکھا ہوا تھا کہ حضور ﷺ مباشرت کرتے جبکہ (حضرت عائشہ ) حالت حیض میں ہوتیں۔ نوجوان نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ جناب کیا حالت حیض میں بیوی سے مباشرت جائز ہے ؟ مولوی صاحب نے بھی ترجمہ دیکھا تو ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ، تھوڑا توقف کیا اور کہنے لگے کہ ہاں نبی کے لیے جائز ہے میں نے عرض کیا کہ جناب آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ قرآن مجید میں اس کی واضح ممانعت موجود ہے ( فاعتزلوا النسافی المحیض فلا تقربوھن حتی یطھرن)۔ کیا نبی اکرم ﷺ قرآن کے خلاف کرتے تھے (معاذاللہ ) تو مولوی صاحب، بجائے اس کے کہ اپنی بات پر غور کرتے یا نظر ثانی کرتے ، کہنے لگے تم کالج میں پڑھنے والوں کو کیا معلوم ۔۔۔۔اس مولوی صاحب کا کیا ہوا یہ الگ کہانی ہے ۔ یہاں یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو اخذ کرنے یا بیان کرنے کے لیے صرف ایک حدیث کے الفاظ یا ترجمہ کافی نہیں ہوتابلکہ اور بھی بہت سی چیزوں کا دیکھنا ضروری ہوتا ہے ۔
ان میں سے پہلی چیزتو خود عربی الفاظ کو ویسے جاننا ضروری ہوتا ہے جیسے وہ عربی زبان میں مروج ہیں۔مثلا ً یہی مباشرت کا لفظ عربی زبان میں بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ مگر اردو میں عام طو ر پر ایک ہی معنی مستعمل ہیں یعنی میاں بیوی کا جنسی تعلق۔ اسی حدیث میں یہ لفظ لمس اور چھونے کے معنی میں ہے اور خود حدیث کے اند ر اس کا بڑا واضح قرینہ موجود ہے۔ اسی طرح یہ لفظ ملنے ، چپکنے اور سرایت کرنے کے معنی میں بھی ہو تاہے جس طرح ایک حدیث کے الفاظ ہیں اللہم انی أسألک ایماناتباشر بہ قلبی اے اللہ میں تجھ سے ایسے ایما ن کا سوال کرتا ہوں جو میرے دل میں گھر کر جائے یا چپک جائے یا سرایت کرجائے آج کل کی جدید عربی میں یہی لفظ لائیو ٹیلی کاسٹ کے معنی میں بھی مستعمل ہے جو پروگرام لائیو آ رہا ہو اس پہ لکھا ہوتا ہے مباشر۔
دوسری اہم چیز یہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر محض ایک حدیث سے کسی مسئلے کا استنبا ط نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس موضوع سے متعلقہ تمام یا اکثر احادیث پیش نظر نہ ہوں۔مثلاً ہمارے ہاں عمومی طو ر پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ موسیقی ناجائز ہے ۔ اس بات میں کتنی حقیقت ہے یہ تب معلوم ہوئی جب راقم نے زمانہ طالب علمی میں موسیقی کے جائز یا ناجائز ہونے پہ ماسڑز ڈگری کے لیے ایک مقالہ لکھا۔ اُس وقت جب اس موضوع پر تمام احادیث جمع کیں تو معلوم ہوا کہ موسیقی کے عدم جواز کی نسبت جواز کی احادیث زیادہ مستند اور واضح ہیں۔احادیث اصل میں اللہ کے رسول ﷺ کے عموماً وہ اقوال ہیں(اگرچہ اس میں اعمال اور تقریر بھی شامل ہے) جو صحابہ نے آپ سے سن کر جمع کیے اس لیے ایک ہی موضو ع پر آپ نے جو جو ،جس جس سے بھی فرمایا یا عمل کیا ہو،اس سب کو جمع کیا جائے گا تو پھر ہی مجموعی صورت حال واضح ہو گی ۔ محض ایک قول سامنے ہو تو اس موضوع کے بارے میں غلط مفہوم کا اخذ کیا جانا عین ممکن ہے جیسے کوئی ایک حدیث پڑھ کر کھڑے ہو کر پیشاب کرنا شروع کردے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر یہ حدیث اس کے سامنے آ گئی ہے تو وہ اس موضوع پر باقی احادیث کوبھی جانے یا کم از کم اہل علم سے پوچھ لے تو تب ہی اسے معلوم ہو گا کہ نبی ﷺ نے کھڑ ے ہو کر کب پیشا ب کیا اور کیوں کیا۔اہل علم ہی بتائیں گے کہ یہ استثنائی امر ہے یا عمومی۔
تیسری اہم چیز یہ ہے کہ کسی بھی بات کا مفہوم سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ معلوم ہو کہ یہ بات کس نے کہی ،کیوں کہی، کب کہی ، کس کو کہی ،الگ کہی یا محفل میں کہی ، کس طرح کہی ، کس موڈ میں کہی وغیرہ ۔ یہ ساری چیزیں اس بات کا صحیح مفہوم متعین کرنے کے لیے از حد ضروری ہیں جس طرح ایک لفظ اپنا صحیح مطلب جملے میں ادا کرتا ہے اسی طرح ایک جملہ اپنا صحیح مفہو م پیراگراف میں ادا کرتا ہے ۔ اس لیے سیاق وسباق کا جاننا جملے کا مفہو م متعین کرنے کے لیے لازمی شرط ہے ۔
چوتھی اہم چیز یہ ہے کہ کسی حدیث کامفہوم جاننے کے لیے اہل علم خصوصا ً محدثین کی رائے جاننا از حد ضروری ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہم میڈیکل میں ڈاکٹروں اور سائنس میں سائنس دانوں کی رائے کے محتاج ہوتے ہیں۔ احادیث کا مطلب اور مفہوم متعین کرنے میں محدثین کی رائے ہی مانی جائے گی نہ کہ میری اور آپ کی ۔اور پانچویں اہم بات رسول اللہ ﷺ کے زمانے کی تہذیب و تمدن ، کلچر ، تاریخ، ماحول اور معاشرت سے واقف ہونا بھی اہم ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ ایک ہی بات کا میرے کلچر اور زمانے میں اور مفہوم ہو جب کہ اُس زمانے اور کلچر میں اس کا مطلب کچھ اور ہو۔
اگرچہ اس موضوع پر اور بھی بہت سا کلام کیا جا سکتا ہے لیکن فیس بکی دانشور اور مذہبی ماہرین اگر صرف ان پانچ شرائط کو ہی پیش نظر رکھ لیں تو شاید احادیث پہ اس بے باکی سے کلام نہ کریں اور آخر ی عرض یہ ہے کہ کسی حدیث کو محض ضعیف کہہ کر ر د نہ کیجیے کیونکہ ضعیف ایک اصلطلا ح ہے جس کا مطلب من گھڑت یا موضوع ہر گز نہیں۔ خدارا کسی بھی حدیث پر اپنی رائے بیان کرنے سے پہلے اہل علم سے ضرور رجوع کیجیے کیونکہ نبی ﷺ کی طرف بات کو منسوب کرنا یا نبی ﷺ کی بات کے مفہوم کو بغیر علم کے بیان کرنا بڑی جرأت اور بے باکی کاکام ہے اور عین ممکن ہے کہ اس کے بارے میں آخرت میں پرسش ہو جائے۔ہاں البتہ ہر وہ حدیث جس کے بارے میں اہل علم کی آرا کی روشنی میں یہ ثابت ہو جائے کہ یہ قرآن کے خلاف ہے تو اس امر کو بیا ن کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ قرآن مجید بہر حال فرقان، میزان ، حکم اور مھیمن ہے ہاں البتہ اس کے علاوہ کوئی حدیث ضعیف ہی کیوں نہ ہو اس کے بارے میں سکوت اختیار کرنا ہی ایک مومنانہ اور محبانہ رویہ ہے ۔