ادراک کی حد میں ہے نہ محدودِ گماں ہے
محسوس کرے کوئی تو رگ رگ میں رواں ہے
ہاتھوں میں کسی کے تو عناصر کی عناں ہے
کیا خود ہی رواں قافلہء عمرِ رواں ہے
قائم ہے یہ پانی پہ زمیں کس کے سہارے
یہ زیرِ اثر کس کے جہانِ گزراں ہے
ہے کوہِ گراں کس کی جلالت کی نشانی
یہ جلوہء گل کس کی لطافت کا نشاں ہے
گردانئے دور اس کو تو دوری کی نہیں حد
نزدیک سمجھئے تو قریبِ رگِ جاں ہے
معلوم نہیں مجھ کو قضا کیا ہے قدر کیا
ہر سانس مرا تیرے اشارے پہ رواں ہے
کچھ تیرے سوا مجھ کو دکھائی نہیں دیتا
میں ہوں نہ زمیں ہے ، نہ زماں ہے نہ مکاں ہے