اپنی خامی
میرے دوست مجھے بتا رہے تھے کہ انہوں نے کس طرح دوسروں کی خرابیوں کے بجائے اپنے عیوب کو دیکھنا شروع کیا۔ وہ کہنے لگے کہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز پر میں نے ایک دفتر میں ملازمت کی۔ اس دفتر میں دوپہر کا کھانا میں دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ کھاتا تھا۔ کھانے کے وقت اکثر ہمارے ساتھ ایک چپراسی آکر بیٹھ جایا کرتا تھا۔ یہ ایک غریب آدمی تھا جس کی تنخواہ بمشکل 1500 روپے تھی۔دیگر لوگ تو اپنا کھانا گھر سے لاتے تھے، مگر یہ صاحب اپنے گھر سے صرف دو روٹی لے کر آتے۔ لوگ کھانے کے لیے بیٹھتے یہ دو روٹی لے کر آجاتے اور کسی کے بھی سالن سے یہ روٹیاں کھانے شروع کر دیتے۔ لوگ اکثر ان کے ساتھ بیٹھنے پر ناگواری کا اظہار کرتے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جب یہ کھانا کھاتے تو منہ سے چپ چپ کی آوازیں آتیں جو کھانا کھاتے وقت بہت گراں گزرتیں۔وہ اکثر میرے ہی ساتھ کھانے کھاتے کیونکہ میں نے چہرے پر کبھی ناگواری کے تاثرات کا اظہار نہیں کیا تھا، مگر دل میں مجھ پر بھی ان کا ساتھ بیٹھنا بہت ناگوار گزرتا تھا۔ حتیٰ کہ دفتر میں میرا کھانا کھانا دوبھر ہوگیا۔ لیکن ایک روز میرے ذہن میں ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے ایک خیال آیا۔ وہ خیال یہ تھا کہ اس وقت جتنی زیادہ کراہت مجھے ان کی اس آواز سے ہو رہی ہے، اس سے کہیں زیادہ کراہت اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک فرشتوں کو مجھ سے اس وقت محسوس ہوتی ہوگی جب میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں۔ لیکن کبھی اس نے مجھے رزق کی نعمت سے محروم کیا اور نہ نماز میں اپنی قربت سے دور کیا۔اس کے بعد مجھے کبھی ان کا ساتھ بیٹھنا برا نہیں لگا۔ پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ دنیا میں دوسروں کو برا سمجھنا بہت آسان ہے۔ اس لیے کہ ان کی خامیاں بغیر کوشش کے نظر آجاتی ہیں۔ مگر اپنی خامیوں کا احساس کرنے کے لیے ایک خاص نظر چاہیے۔ یہ نظر جس میں پیدا ہوگئی وہی خدا کا بندہ ہے۔ جس میں نہ ہوسکی وہ اپنی ذات کا بندہ ہے۔
معاشرتی برائیاں اور ہمارا رویہّ
مجھے ٹیلیوژن پر انٹرویو کے لیے براہِ راست (Live) اور ریکارڈ شدہ دونوں قسم کے پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ براہِ راست پروگراموں کے برعکس ریکارڈ شدہ پروگرام کو کبھی وقت پر شروع ہوتے میں نے نہیں دیکھا۔ بالخصوص پہلی دفعہ جب مجھے اس کا اندازہ نہ تھا تو بڑی کوفت اٹھانی پڑی۔ میں دیے ہوئے وقت پر جب اسٹوڈیو پہنچا تو معلوم ہوا کہ پروگرام کے پروڈیوسر، ڈائریکٹر، میزبان اور تکنیکی عملہ سب غائب ہیں۔ بعد میں پروگرام کے پروڈیوسر نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ہر مہمان دیے ہوئے وقت کے دو گھنٹے بعد آتا ہے۔ آپ چونکہ ‘بدقسمتی’ سے وقت پر آگئے اس لیے آپ کو زحمت ہوئی۔ پروڈیوسر صاحب نے جو کچھ فرمایا وہ غلط نہ تھا۔ یہ ہماری سوسائٹی کا عام رویہ ہے کہ اجتماعی تقریبات اور معاملات میں جو وقت دیا جاتا ہے اس کی پابندی کرنے والا بیوقوف بن کر رہ جاتا ہے۔ مثلاً کسی شادی کارڈ کو پڑھیے۔ اس پر تقریب کا وقت نو بجے لکھا ہوگا مگر مقامِ تقریب پر جاکر دیکھ لیجیے۔ دس بجے تک میزبانوں، گیارہ بجے تک مہمانوں اور بارہ بجے تک نکاح کے آثار نظر نہیں آئیں گے۔ انفرادی معاملات میں بھی ہمارا یہی رویہ ہے۔ ہم ملاقات کا ایک وقت طے کرتے ہیں اور بلا عذر اس سے گھنٹہ یا نصف آگے پیچھے کرنا ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ہم ایک کام کو جس وقت پر کرکے دینے کا وعدہ کرتے ہیں کبھی اسے پورا کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ہمارا یہ رویہ بلاشبہ ہمارے اخلاقی زوال کی ایک کھلی نشانی ہے۔ اس زوال کا سبب یہ ہے کہ جب کبھی ہم اصلاح کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد ہمیشہ دوسرے لوگ ہوتے ہیں۔ اپنی ذات کو ہم کبھی اس اصلاح کا نشانہ بنانے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اپنی بدعملیوں کی دسیوں توجیہات ہماری زبان کی نوک پر رکھی رہتی ہیں۔مثلاً کچھ عرصہ قبل میں نے ایک معاشرتی مسئلے ‘قطار نہ بنانے’ پر ایک مضمون لکھا۔ اس میں نماز کے حوالے سے یہ بیان کیا گیا تھا کہ منظم طریقے پر باجماعت نماز پڑھنے والوں کو قطار کی زیادہ پابندی کرنی چاہیے۔ جبکہ اس کے برعکس اہل مغرب اس معاملے میں زیادہ باشعور ثابت ہوتے ہیں۔ اس مضمون پر ایک صاحب نے یہ تبصرہ فرمایا کہ قطار بنانا یہودیوں کا طریقہ ہے۔ یہ تبصرہ اس منفی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو ہمارے معاشرے کے ایک عام آدمی کے دل و دماغ میں رچ بس گئی ہے۔ اس سوچ میں ہم اپنے غلط اعمال کی کوئی نہ کوئی تاویل اپنے پاس رکھتے ہیں۔ چاہے وہ تاویل انتہائی نامعقول ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وہ سوچ ہے جو پہلے مرحلے پر خیر و شر کا شعور ختم کرتی اور پھر خیر کو شر اور شر کو خیر بنا دیتی ہے۔تاہم جو لوگ کسی برائی کو برائی مانتے ہیں وہ بھی اپنے اندر اتنا حوصلہ پیدا نہیں کرتے کہ خرابی کے اس دھارے میں شامل ہونے کے بجائے اولین اصلاح کرنے والے بن جائیں۔ حالانکہ اگر کچھ لوگ ہمت کرکے آگے بڑھیں تو دوسروں کے لیے ایک اچھی مثال قائم ہوسکتی ہے۔ جس کے نتیجے میں مزید لوگ آگے بڑھیں گے۔ کیونکہ ایک عام انسان لفظوں کی نہیں مثالوں کی پیروی کرتا ہے۔مثلاً شادی کی تقریبات میں تاخیر سے ہر شریف آدمی نالاں ہے مگر کوئی آگے بڑھ کر اس معاملے کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ معمولی عذر کی آڑ لے کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ہمارے ایک عزیز دوست نے بڑی اچھی مثال قائم کی۔ انہوں نے اپنے بچوں کی شادی میں وقت کی پابندی کی یہ اعلیٰ مثال قائم کی ہے کہ کارڈ پر لکھے ہوئے وقت پر لازماً کھانا کھول دیا جاتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ مہمانوں کی تو خیر ہے مگر سسرال والوں کا آپ کیا کرتے ہیں۔ کہنے لگے کہ اگر وہ تاخیر سے آئیں گے تو میں انتظار کر کے ان کے ساتھ کھاؤں گا مگر ان کی وجہ سے وقت کی خلاف ورزی کر کے دوسروں کو تکلیف میں نہیں ڈالوں گا۔ یہ ایک مثال ہے جو بتاتی ہے کہ اگر اصلاح کے معاملے میں انسان یکسو ہو اور ہمت کر لے تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔ یہی وہ ہمت ہے جو ایک دفعہ کچھ لوگوں میں پیدا ہوجائے تو معاشرے میں خیر کا عنصر بڑھنا شروع ہوجائے گا۔ہمارا ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم اخلاقی معاملات کا مذہب سے کوئی تعلق محسوس نہیں
کرتے۔ بلکہ، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، اسے عیسائی یہودیوں کی کوئی بدعت سمجھتے ہیں۔ مذہب جو معاشرے اور مشکلات سے ٹکرانے کا سب سے بڑھ کر حوصلہ دیتا ہے ہمارے ہاں بے روح پوجا پاٹ اور بے معنی رسوم و رواج کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے۔ حالانکہ مذہب کی کُل تعلیم یا تو اخلاقی نوعیت کی ہے یا ان کے نتائج اخلاقی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی وقت کی پابندی کے مسئلے کو لے لیجیے۔ وقت کی پابندی کرنا ایفائے عہد کی ایک شکل ہے۔ اب دیکھیے دین کی تعلیمات اس بارے میں کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ‘‘اور عہد کو پورا کرو بے شک عہد کے متعلق پوچھ گچھ کی جائے گی۔’’
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘‘جس میں عہد کی پاسداری نہیں اس کا کوئی دین نہیں’’قرآن و حدیث کے یہ احکام بتاتے ہیں کہ ایک سچا مومن اخلاقی دنیا میں بھی اعلیٰ ترین انسان ثابت ہوتا ہے۔ اگر اخلاقی دنیا میں کسی کا رویہ درست نہیں تو وہ جان لے کہ اس کے پاس کوئی دین نہیں۔
خواہشات اور گناہ
خواہش گناہ کی طرف لے جانے والے عوامل میں سب سے بڑا عامل ہے۔ انسان کی تخلیق جس ڈھنگ پر ہوئی ہے اس میں انسان کے اندر بہت سی جبلتیں رکھ دی گئی ہیں۔ مثلاً کھانے پینے، تحفظ اورجنسی تعلق قائم کرنے کی جبلتیں وغیرہ۔ یہ اور ان جیسی دیگر جبلتوں سے انسان کی ضروریات پیدا ہوتی ہیں۔ جبلتوں کے ساتھ انسان کو ایک ذوقِ جمال بھی عطا کیا گیا ہے۔ وہ ضرورت سے آگے بڑھ کر لذت، خوب صورتی اور کشش جیسے تصورات سے نہ صرف واقف ہے بلکہ ان کی طرف لپکتا ہے یہ ضروریات اور جمالیات جب اپنا ظہور کرتے ہیں تو خواہشات جنم لیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں چونکہ انسان کو امتحان کے تحت پیدا کیا ہے اس لیے خواہشات کی تسکین کے لیے اسے کھلی چھوٹ نہیں دی ہے۔ بلکہ اس کی ضروریات اور خواہشات کو ایک خاص دائرے کا پابند بنایا ہے۔ مگرانسان اپنے امتحان کو سمجھنے کے بجائے خواہشات کے گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیتا ہے۔ جس کے بعد حلال حرام، جائز ناجائز اور صحیح و غلط کی بحث اس کے لیے غیر متعلق ہوجاتی ہے۔ اور رب کی نافرمانی انسان کی زندگی کا معمول بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے تمام پاکیزہ اشیا کا کھانا پینا حلال قرار دیا ہے۔ مگر اکثر انسانی معاشروں میں خنزیر کا گوشت اور شراب معمول کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے تعلق کو انسانوں کے لیے جائز قرار دیا ہے۔ مگر بہت سے انسان اس دائرے سے باہر نکل کر زنا کی وادیوں میں اپنی خواہشات کی تسکین ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زیب و زینت کو جائز قرار دیا ہے۔ مگر انسانی معاشروں میں زیب و زینت اکثر فحاشی، عریانی اور خواتین کی نمائش کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔یہ اور ان جیسی متعدد مثالیں یہ بتاتی ہیں کہ ضروریات کی تکمیل اور جمالیات کی تسکین کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے جائز قرار دیا ہے، مگر انسانوں کی اکثریت ان چیزوں کے پیچھے چلتے چلتے رب کی نافرمانی کی منزل تک جاپہنچتی ہے وہ خواہش کے لیے خدا کی اطاعت کا راستہ چھوڑ کر شیطان کی پیروی کا طریقہ اختیار کر لیتی ہے۔ وہ شیطان جواللہ تعالیٰ کا مجرم ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کو یہ چیلنج دیا تھا کہ وہ انسانوں کو اپنا شکر گزار نہیں پائیں گے۔ بدقسمتی سے شیطان کے اس چیلنج کو انسان خواہشات کی پیروی میں درست ثابت کر دیتے ہیں۔ایسے میں بندہ مؤمن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے معاملے میں ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ شیطان خواہش کے دروازے سے اس کے دل میں داخل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ وہ خواہش کے اس دروازے پر تقویٰ اور پرہیزگاری کی چوکی قائم کرے وہ ضمیر کے پہرے دار کو اس چوکی پر نگران مقرر کرے۔ وہ مسلسل یہ جائزہ لیتا رہے کہ کہیں خواہش کے دروازے سے ضروریات اور جمالیات کے ساتھ گناہ اور نافرمانی تو اس کے حرمِ دل میں داخل نہیں ہورہے۔ کہیں اس کی نگاہ، اس کی زبان، اس کا پیٹ اور دیگر اعضائے جسمانی حرام کی آماجگاہ تو نہیں بن رہے۔ کبھی ایسا ہو تو اُسے چاہیے کہ فوراً اپنے رب کی طرف رجوع کرے۔ اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔ توبہ اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرے۔ وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کو غفور و رحیم پائے گا۔ وگرنہ اس معاملے میں غفلت کا رویہ دل کو سیاہ کر دیتا ہے اور انسان خدا کو چھوڑ کر آخر کار خواہشِ نفسانی کو اپنا معبود بنا لیتا ہے،(الفرقان43:)‘‘اورجو شخص یہ کام کرے گا وہ عنقریب اپنے گناہوں کا انجام جہنم کی آگ کی شکل میں بھگت لے گا۔’’٭٭٭