آپ نے کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کا ذکر سن لیا ہوگا۔ یہ بھی سن لیا ہوگا کہ مغربی ممالک بھی اس کو پوری طرح کنٹرول نہیں کر پارہے۔ یہ بھی سن لیا ہوگا کہ بیرون ملک سے آنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد جسے بغیر اسکریننگ کے ملک کے اندر آنے دیا گیا، وہ پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ یہ لوگ جس طرح ملک بھر میں کرونا کے وائرس کو پھیلائیں گے اور ہمارے محدود وسائل کے نتیجے میں جو ہولناک منظر نامہ جنم لے گا، وہ بھی صاحبان علم کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔یہ سارے حقائق اپنی جگہ ہیں۔ مگر کچھ اور چیزیں بھی حقیقت ہیں، ان کو بھی جان لینا ضروری ہے۔ یہ کہ تادم تحریر اللہ تعالیٰ ہی دنیا کا نظام چلا رہے ہیں اور اس کا کوئی امکان نہیں کہ مستقبل میں ان کی جگہ کوئی اور لے سکے۔ یہ کہ وہ زندہ اور ہر دوسری چیز کی زندگی اور موت کے مالک ہیں۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے بغیر یہاں کوئی ذرہ اپنی جگہ سے ہلتا ہے نہ پتہ درخت سے گرتا ہے۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو نیند آتی ہے نہ کبھی اونگھ اسے اپنی مخلوق سے غافل کرتی ہے۔ یہ کہ اس کا اقتدار آسمان و زمین کی ہر چیز پر محیط ہے۔ یہ کہ کوئی ستارہ ہو، کوئی انسان ہو یا پھر کوئی وائرس ہو، کوئی اس کی مرضی کے بغیر اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا۔
یہ سارے حقائق بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک بے حد و حساب طاقتور ہستی ہیں، مگر اس کے ساتھ کچھ اور حقائق بھی ہیں۔ اپنی ذات میں وہ اصلاً ایک رحیم و کریم ہستی ہیں جن کی رحمت ان کی ہر دوسری صفت پر غالب رہتی ہے۔ گرچہ وہ ظلم و سرکشی کو ہرگز پسند نہیں کرتے، تکبر اور غفلت میں مبتلا لوگ انھیں سخت ناپسند ہیں، شرک، الحاد، بدعت، فرقہ واریت کو وہ صراط مستقیم سے انحراف سمجھتے ہیں، مگر ان کا کرم، ان کا رحم، ان کا حلم، ان کا تحمل تمام انسانیت کی برائی سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔
ایسے میں شرک و الحاد کے بدترین مظاہرے کے باوجود، سرکشی و غفلت کے انتہائی رویے کے باوجود کچھ لوگ اگر ان کی طرف رجوع کرنے پر تیار ہوجائیں تو پھر وہ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوتے ہیں۔ ان خالص اہل ایمان کی بنا پر اللہ تعالیٰ کروڑوں اربوں مجرموں کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔
اس لیے اگر انھوں نے کرونا کے وائرس کے ذریعے سے لاکھوں لوگوں کی ہلاکت کا فیصلہ کر بھی لیا ہو، اگر انھوں نے انسانیت کو اس کی سرکشی پر پکڑنے کا فیصلہ کر بھی لیا ہو تب بھی وہ اپنے ہر فیصلے کو واپس کرسکتے ہیں۔ ان کی نگاہ کا ایک اشارہ ہوگا اور ہر چیز ٹھیک ہوجائے گی۔ نااہل اور ناکارہ حکمرانوں کو صحیح فیصلوں کی توفیق دے دی جائے گی۔ عوام کو حماقتوں کے ارتکاب سے روک دیا جائے گا۔مرض کا علاج دریافت ہوجائے گا۔ وائرس کا پھیلاؤ رک جائے گا۔ موت کا سیل رواں تھم جائے گا۔
مگر اس کا طریقہ کوئی وظیفے پڑھنا نہیں ہے بلا سوچے سمجھے رٹے رٹائے الفاظ دہرانا نہیں ہے۔ اس کا طریقہ مذہب کے نام پر فضول ٹوٹکے اختیار کرنا نہیں ہے۔ اس کا طریقہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ خود بتا چکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اے نبی جب تم سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو میں ان سے قریب ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں۔خدا کو براہ راست پکارنا ہی کرنے کا اصل کام ہے۔ جب بندے اپنے آپ کو رب کے قدموں میں ڈال دیتے ہیں تو وہ سنتا ہے۔ جب وہ سچی توبہ کرتے ہیں تو وہ سنتا ہے۔ جب وہ تعصب، خواہش اور غفلت سے پاک قلب سلیم لے کر حاضر ہوتے ہیں تو وہ سنتا ہے۔ خدا آسمان پر اسی پکار کا منتظر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ زمین پر کون اسے اس طرح پکارتا ہے۔ جو سچے دل سے براہ راست پکارے گا وہ جواب بھی سن لے گا۔ آزمائش شرط ہے کہ خدا زمیں سے گیا نہیں ہے۔٭٭٭