اردو دنیا کا ایک خاموش اور گوشہ نشین محسن ۳ جون ۲۰۱۸ کو اسی طرح خاموشی اوربے نیازی سے دنیا سے رخصت ہو گیا جس طرح تنہائی اور خلوت گزینی میں وہ جیتا رہا تھا۔مگر اس کی خلوت اور تنہائی کس قدر ثروت مند اور ثمر بار رہی تھی، اس کا اندازہ ان نشانیوں سے ہوتا ہے جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ ادیب اور افسانہ نگار، مترجم اور دانش ور، Annual of Urdu Studies جیسے منفرد اور وقیع مجلے کامدیر اور وسکانسن یونی ورسٹی، میں چالیس برس تک عربی اور اردو کی تدریس میں مصروف رہنے والا پروفیسر ایمیریطس۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ عربی کے عالم بے بدل عبد العزیز میمن کے سب سے چھوٹے فرزند محمد عمر میمن اپنی مثال آپ تھے اور ان کی کمی پوری کرنے والا کوئی دوسرا ہمارے گرد وپیش میں دکھائی نہیں دیتا۔
پروفیسر محمد عمر میمن ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے ہارورڈ یونی ورسٹی سے السنہ و ادبیاتِ مشرق قریب میں ایم اے اور کیلی فورنیا یونی ورسٹی، لاس اینجلس سے مطالعہ اسلام میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں اور پھر یونی ورسٹی آف وسکانسن سے وابستہ ہوگئے، جہاں اڑتیس برس تک تدریسی خدمات سر انجام دینے کے بعد ۲۰۱۰ میں ریٹائر ہوئے۔ وہ اسی یونی ورسٹی سے شائع ہونے والے بین الاقوامی معیار کے ادبی مجلے Annual of Urdu Studiesکے مدیر تھے۔ Annual of Urdu Studies اردو زبان و ادب کے متعلق امریکہ سے شائع ہونے والا انتہائی معتبر اور وقیع مجلہ تھا جس کا آغاز ۱۹۸۰ء میں شکاگو یونی ورسٹی میں پروفیسر سی۔ ایم۔ نعیم نے کیا مگر جلد ہی اس کی ادارت میمن صاحب نے سنبھال لی اور یونی ورسٹی آف وسکانسن، میڈیسن سے،مسلسل اس ذو لسانی مجلے کو سالانہ بنیاد پر، انتہائی باقاعدگی سے مرتب کرتے رہے۔اس کا انتیسواں اورآخری شمارہ ۲۰۱۴ میں شائع ہوالیکن بالآخر شدید مالی مشکلات اور دباؤ کے باعث اس نادر و وقیع مجلے کو بند کرنا پڑا۔ میمن صاحب نے امریکہ اور پاکستان میں رسالے کے بنیادی ناگزیر اخراجات جمع کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کی مگر پاکستان میں تو ادیب برادری رسالہ خرید کر پڑھنے کی قائل ہی نہیں ہے اور امریکہ میں شاید صاحب حیثیت لوگوں کو اردو اور اس کے ادب سے ایسی دلچسپی نہ تھی۔ بہرحال میمن صاحب نے بڑے بھاری دل سے، مایوسی کے عالم میں رسالہ بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ Annual of Urdu Studies کے علاوہ وہ ایک اور بین الاقوامی آن لائن جرنل، Words Without Bordersکے لیے بھی بطور مہمان مدیر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
ادبی میدان میں محمد عمر میمن کی شخصیت کا سب سے نمایاں گوشہ ترجمے سے ان کا شیفتگی کی حد کو پہنچا ہوا لگاؤ تھا۔ ہمارے نابالغ معاشرے میں ترجمے کو قدرے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ا س فن کی مشکلات، باریکیوں اور نزاکتوں کو محسوس کرنے کا رواج ابھی عام نہیں ہوا۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ادب زندگی کا آئینہ ہے تو مترجم اس آئینے کا آئینہ ہے۔ آئینے کی صفت یہ ہے کہ وہ خود دکھائی نہیں دیتا بلکہ موجود ہوتے ہوئے بھی غیر موجود ہونے کا تاثر قائم کرتا ہے۔ یہ ایک اورطرح کی مابعد الطبیعیات ہے؛ ایک اور راہِ سلوک، جس میں سالک خود اپنی نفی کرتا اور اسی نفی کی گہرائیوں سے اپنے وجود کا اثبات کرتا ہے۔ مترجم تخلیق کا عمل مکمل ہونے کے بعد اس کی بازیافت کرتا اور اسے ایک نیا قالب پہناتا ہے۔ یہ ایک ایسی بخیہ گری ہے جس میں ایک تیار خلعت کو ازسرِ نو تیار کرنے کی ذمہ داری آن پڑتی ہے۔ مترجم کاکام تخلیق کاری سے بھی زیادہ کٹھن ہے۔اگر تخلیق صحرا کا سفر ہے تو ترجمہ کاری بلندی میں جھولتی ہوئی تار پر چلنے کے مترادف ہے۔ایک قدم بھی ادھر سے ادھر ہو، تو کام تمام ہو جاتا ہے۔محمد عمر میمن نے ایک عمر اس تار پر چلنے میں گزاری ہے۔ محمد عمر میمن اس تار پر چلنے سے پہلے ایک تخلیق کار تھے۔ کوئی ایسے ویسے تخلیق کار نہیں،باقاعدہ، تسلیم شدہ، جانے پہچانے تخلیق کار۔‘تاریک گلی’ کے نام سے ان کی کہانیوں کا انتخاب بھی شائع ہوا اور ان کہانیوں نے محمد حسن عسکری (۱۹۱۹۔ ۱۹۷۸) جیسے نابغوں کو بھی چونکا دیا تھا۔ مگر پھر نجانے کیا ہوا۔ دنیا بھر کا فکشن پڑھتے پڑھتے انھیں ترجمے کی دشوار گزار گھاٹیوں سے کوئی پراسرار بلاوا آیا اور وہ اس سمت ہو لیے۔ شاید ایک زندگی میں ہزاروں زندگیوں کے دکھ بھوگنے کی لذت انھیں لے اڑی، شاید دنیا میں ہر طرف بکھری ہوئی بے شمار کہانیوں میں انھیں اپنی ہستی کے منتشر اجزا دکھائی دیتے رہے، شاید زبان کے الٹ پھیر سے معنی کی نازائیدہ صورتیں جنم دینے کی لت پڑگئی، یا پھر کوئی اور پر اسرار عمل ہوا۔ ہم نے تو صرف یہ دیکھا کہ اردو زبان وادب کی ناؤ کو محمد عمر میمن کے روپ میں ایک ایسا پتوار میسر آگیاجس نے اسے سمندر پار، مغرب کی گھاٹ جا اتارا۔
یہ محمد عمر میمن کی ان تھک محنت اور بے لوث ریاضت ہے جس کی بدولت مغرب کے افق پر اردو ادب کاستارہ نمودار ہونے لگا۔ انھوں نے اردو فکشن، تنقید، اسلامی فلسفے، تصوف اور فکری تاریخ کے مختلف پہلوؤں کو انگریزی زبان کا ایسا لباس پہنایا کہ انگریزی سمجھنے والے قاری کونہ صرف اردو ادب و فلسفہ تک رسائی حاصل ہو گئی بلکہ اردو اور اردو بولنے والوں کی پوری تہذیبی روایت، اپنے فکری پس منظر اور ثقافتی بے تعصبی سمیت، مغرب کے قاری پر روشن ہوتی چلی گئی۔ وہDoYou Suppose It‘s the East Wind کی پاکستانی کہانیاں ہوں، نیر مسعود (۱۹۳۶۔ ۲۰۱۷)کے افسانوں کے تراجم پر مشتمل Essence of Camphor ہو یا انتظار حسین(۱۹۲۳=۲۰۱۶) کیThe Seventh Door and Other Stories، میمن صاحب نے اپنے تراجم میں ایک طرف اردو زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں کو مجروح ہونے سے حتی الامکان بچائے رکھا اور دوسری طرف اس کے تہذیبی مزاج اور روایت کے تسلسل کو پوری ایمان داری اور فنی خلوص سے مغربی قارئین پر آشکار کرنے کی سعی کی۔یہی نہیں بلکہ ان کے تراجم کی ایک نمایاں اور منفرد خصوصیت ان کے اپنے تحریر کردہ حواشی ہیں جو متعلقہ معلومات کا ایسا ذخیرہ فراہم کر دیتے ہیں کہ ترجمے کو تحقیق سے جا ملاتے ہیں۔ ایسے مبسوط، جامع اور محققانہ حواشی لکھنے کی ادا کا ثواب ضرور مغرب کو ملے گا کیوں کہ ہمارے ہاں ابھی یہ روایت عام نہیں ہوئی بلکہ اسے ایک فالتواور غیر اہم شے، یہاں تک کہ تحریر کی مطالعیت میں حارج سمجھا جاتا ہے۔
میمن صاحب کی ترجمہ کاری یک طرفہ نہیں ہے۔ انھوں نے ایک طرف تو اردو ادب کو مغربی دنیا سے متعار ف کرایا تو دوسری طرف عالمی ادب کے اردو تراجم پیش کر کے اردو ادب کو فن، تکنیک، اسلوب اور موضوعات کی رنگا رنگی سے مالا مال کردیا۔اور تو اورماریو برگس یوسا (Mario Vargas Llosa:1935)کی ایک چھوٹی سی کتاب کے ترجمے کے ذریعے انھوں نے اردو قاری کو فکشن کے فہم، تنقیدی اصول اور تخلیقی عمل کی تجزیہ نگاری کا ایک پیمانہ فراہم کر دیا ہے۔ ترکی، انگریزی، فرانسیسی، عربی اورہسپانوی ادب کے اردو تراجم کے ذریعے انھوں نے اردو دنیاکو نئے آفاق کی وسعتوں سے ہم کنار کیاہے۔ ان کے دیگر انگریزی ادبی تراجم میں Domains of Fear and Desire، (ٹورنٹو، دہلی)، The Tale of the Old Fisherman, Modern Urdu Short Stories، (واشنگٹن، لاہور، دہلی)، The Colour of Nothingness, Contemporary Urdu Short Stories، (دہلی، کراچی)، An Unwritten Epic and Other Stories، (لاہور)شامل ہیں جب کہ دیگر زبانوں سے اردو میں ترجمے کی ذیل میں مغربی فکشن کے تراجم پر مشمل کتاب ‘گم شدہ خطوط’، البرٹ کامیو کا ناول ‘زوال’، اوحان پامک کا ‘سفید قلعہ’، شندور مرائی کا ‘انگارے’، میلان کنڈیرا کا ‘پہچان’، گبرئیل گارسیا مارکیز کا ‘اپنی سوگوار بیسواؤں کی یادیں’، لیلی للعلمی کا ‘امید اور دیگر خطرناک مشاغل’ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کئی مضامین اور ناول بھی اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں۔
تراجم کے علاوہ انھوں نے کئی کتابیں بھی مرتب کیں اور متعدد مقالات بھی تحریر کیے۔ میمن صاحب کو اردو ادب سے جو گہرا لگاؤ تھا وہ محض جذباتی اور منھ دیکھے کی محبت نہیں تھی۔ انھوں نے مغربی دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اردو ادب اپنی نہاد میں بے تعصبی، روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی ایسی شاندار روایت کا امین رہا ہے جس کی مثال دوسری زبانوں کے ادب میں ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گی۔ شاعری ہو یا نثر، اردو ادب کے مزاج میں جو ایک فراخ دلی، ایک کشادگیِ قلب ونظر کا رنگ نمایاں ہے، وہ اہلِ مغرب کے لیے ایک نیا منظر پیش کرتا ہے۔ میمن صاحب دنیا کو اردو اور اردو بولنے والوں کی تہذیب کا یہی رنگ دکھانا چاہتے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ ہم عصر سیاسی صورتِ حال میں اردو بولنے والوں کے تہذیبی ماحول کو جس انتہا پسندی سے جوڑنے کی منظم کوشش کی جارہی ہے، اس کا توڑ یہی ہے کہ مغرب کو اردو کی ادبی روایت سے آگاہ کیا جائے اور اس تہذیبی رچاؤ سے روشناس کیا جائے جو ارد ادب کی رگ رگ میں رواں ہے۔
صرف ادب یا فکشن ہی نہیں، ان کے تراجم اور دلچسپیوں کا دائرہ کارشاعری، تنقید، تصوف، اسلامی فلسفے اور جنوبی ایشیا کے مذاہب کے مطالعے تک پھیلاہواہے۔ ابن تیمیہ (۱۲۶۳۔۱۳۲۸)پر پی ایچ ڈی کے مقالے سے لے کر تشہیکو ازتسو (Tushihiko Izzatsu: 1914-1993) کے مقالات کے تراجم تک اس کی کئی جہات ہیں۔ تفکر، تعقل اور تحقق کے ساتھ ساتھ ایک گہری تخلیقی قوت اور متخیلہ کو نہ صرف فعال رکھنا بل کہ اسے اپنے بال و پر کی پرورش کا سامان بھی مہیا کیے رکھنا ہما شما کا کام نہیں ہوتا۔ عام طور پر یہی ہوتا ہے یا کم از کم یہ سمجھا ضرور جاتا ہے کہ علمی اور تحقیقی مشاغل، ادبی و تخلیقی فعالیت کو ختم نہ بھی کریں، متاثر ضرور کرتے ہیں۔ تخلیقی عمل میں وہ جوایک مابعد الطبیعیاتی بُعد، ایک پر اسرار دیوانگی، ایک تیسری، ساتویں، یا ہزارویں جہت کی ناقابلِ تجزیہ کارفرمائی رونما ہوتی ہے، اسے تحقیقی تجسس کی خردہ گیری، مو شگافی اور ژرف بینی عموماً دیکھ یا سمجھ نہیں پاتی اور اس لیے اس سے گریزاں رہتی ہے۔ میمن صاحب نے حیرت انگیز طور پر ان دونوں ابعاد کو اپنی ذات میں زندہ اور روشن رکھا۔ وہ بیک وقت ایک سنجیدہ اور سخت گیر محقق بھی تھے اور ناممکن کو دائرہ امکان کا مرکز مان کر اس کے محیط کو نت نئی وسعتیں عطا کرنے والے خواب گر بھی۔ انھوں نے اپنی تمام تر تخلیقی اور تحقیقی توانائیوں کو قابلِ رشک طریقے سے مجتمع کر رکھا تھا۔
مجھے خیال آتا ہے کہ اگر وہ پاکستان یا ہندوستان میں ہوتے تو بھی کیا اسی طرح
ان تھک کام کرسکتے یا کرتے رہتے؟ کیا یوں ہی، دن رات اپنے گوشہ خلوت میں پناہ گزیں ہو کر، مشقت کے تکلے پراردو اور انگریزی کا‘تارِ حریرِ دو رنگ’ بنا کرتے اور پھر اس سے خود اپنی زبان، اردو کے لیے خلعتِ فاخرہ تیار کرتے؟
انھیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ ان کا یوں ان تھک کام میں ڈوب جانا اس تنہائی کا فیض تھا جو معاشرے کے سب نازک دلوں اور بہترین دماغوں کے نصیب میں لکھی جاتی ہے۔ شاید یہ تنہائی،فطرت کے کسی ‘پیداوار بڑھاؤ، فصل اگاؤ’ پروگرام کے تحت باضابطہ طور پر ان کے منشورِ حیات کا حصّہ بنائی گئی تھی تاکہ ان کے اس ریاضت سے بھاگ نکلنے کی کوئی صورت ہی پیدا نہ ہو سکے۔ وطن سے، جو انسان کا قدرتی اور فطری مسکن (Natural Habitat) ہوتا ہے، دورہو جانا،خواہ اس میں کسی جبر کا شائبہ تک نہ ہو، جلا وطنی کے کرب ناک احساس کو ضرور جنم دیتا ہے۔ یہ کرب کسی خاص زمین و زمانے اور مخصوص حالات و کوائف سے مخصوص نہیں۔ یہ اس آگہی کی عطاہے جو خود کو اور اپنے گردوپیش کو شناخت کے قابل بناتی ہے اور بیک وقت مانوسیت اور غیریت کے احساسا ت سے آشنا کرتی ہے۔ وہ سب چیزیں جو رفتہ رفتہ اپنی ہو جاتی ہیں، اپنی نہاد میں کہیں ایک گہری بیگانگی کی تاثیر لیے رہتی ہیں اور وہ متروک فضائیں، جن کا گرم سرد بھی بھول جاتا ہے، انسان کے اندر کہیں ایک بجھے ہوئے الاؤ کی اداسی بن کر سلگتی رہتی ہیں۔ انسان چاہے لاکھ آتش و آب و باد کی صفات رکھے، اپنے وجود میں گندھی ہوئی مٹی کی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ شایدمحمد عمر میمن بھی ایک عمر سے وجودی سطح پر اسی روحانی جلاوطنی کا شکار رہے تھے اور اس کا تدارک انھوں نے یہ کیا تھا کہ خود کو اس مانوس دنیا میں محسوس کرنے کے لیے اردو زبان و ادب کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔
محمد عمر میمن صاحب کی شخصیت کا ایک پہلو ایسا بھی تھا، جس کا شکوہ ان کے مداحوں بلکہ قریبی اور عزیز دوستوں کو بھی رہا۔ انسانی معاشروں میں اخلاق و شائستگی کی ایک نمایاں جہت یہ بھی رہی ہے کہ ایک دوسرے سے خوش خلقی سے پیش آیا جائے اور دل شکنی سے گریز کیا جائے لیکن بد قسمتی سے اس عمدہ صفت کا غلط استعمال بھی عام
ہو چکا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خوش خلقی کے نام پر خوشامد، جھوٹ، منافقت اور فریب کاری کا چلن مقبول ہوتا جا رہا ہے اور صاف گوئی، حقیقت بیانی اور سچ کو بھاری پتھر سمجھ کر چوم لینا کافی سمجھاجاتا ہے۔ میمن صاحب کوبہاؤ کے خلاف تیرنے کاشوق تھا اور وہ اس دور ناپرساں میں بھی سچ کا کڑوا گھونٹ پینے کا شوق رکھتے تھے۔ سچ کے راستے میں بھی کئی نازک مقام پڑتے ہیں، بہت سے لوگ صرف سچ بولنا پسند کرتے ہیں، سننا نہیں اوربعض لوگ سچ کے صرف گیت گاتے ہیں، بولتے نہیں۔ میمن صاحب سچ بولتے بھی تھے اور سچ سننے کی ہمت بھی رکھتے تھے۔ مشرقی معاشروں میں ، جہاں یہ صفت نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے اور دروغ گوئی اور منافقت معاشرتی زندگی کا اصل اصول بنتی جا رہی ہے؛ میمن صاحب جیسے بے لاگ رائے دینے والے، سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہنے والے لوگ یادگارِ زمانہ ہی کہے جا سکتے ہیں جن کا دل قومی دردمندی اور خلوص سے اس قدر معمور ہو کہ دوسروں سے تو وہ اپنی قوم کا مقدمہ لڑتے رہیں اور خود اپنی قوم کو، ان کی نااہلی اور غفلت پر ملامت سے بھی باز نہ آئیں۔ چنانچہ اکثر اپنے بھی ان سے خفا رہے اور بیگانے بھی ناخوش ررہے۔لیکن ایسا بھی نہیں کہ ان کے ادبی و علمی مرتبے سے لوگ بے خبر رہے ہوں۔ ان کی علمی سرگرمیوں اور بالخصوص اردو زبان و ادب کی خدمات کا اعتراف ان کے رخصت ہونے کے بعد مختلف اخبارات اور جرائد میں شائع ہونے والے کالموں اور مضامین میں دل کھول کر کیا گیا ہے۔پا کستان اور بھارت کے ثقہ اور معتبر علمی و ادبی حلقے میمن صاحب کی کاوشوں کے معترف ہیں۔بلاشبہ یہ قابل رشک بات ہے کہ اشتہار بازی اور تجارتی ہتھکنڈوں سے لیس اس عہد میں ان کا تعلق اس محدود فرقے سے تھا جو ستائش کی تمنا اور صلے کی خواہش سے بے پروا ہو کر، اپنے گوشہ تنہائی میں سمٹے ہوے کسی حال مست فقیر کی طرح، صرف، صرف اور صرف کام کیے چلے جاتے ہیں۔پھر بھی مشرق و مغرب میں اردو زبان و ادب سے رشتہ رکھنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کو نظر انداز کر دینا ناممکن ہے۔میمن صاحب نے جتنا کام کیا ہے اور جو کچھ لکھ ڈالا ہے، اس کا ایک اندازہ ان کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ان کی تصانیف کی طویل اور متنوع فہرست سے ہوجاتا ہے جسے نقل کرنے کے لیے کئی صفحات درکار ہیں۔
ان کی علمی و ادبی دلچسپیوں کی طرح ان کی زندگی بھی رنگا رنگ تجربات سے معمور تھی۔ ان کی وفات کے بعد کی آخری رسوم میڈیسن،امریکہ میں ان کی جاپانی بیوی ناکاکو اور ان کے دو نوں بیٹوں عاصم اور انیس نے شہر کی مسلمان کمیونٹی کی مدد سے ادا کیں اور وہ بالآخر اسی مٹی میں ہمیشہ کے لیے سلا دیے گئے جس کی کیاریوں میں وہ گلاب کی نادر اقسام اگایا کرتے تھے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را