کسی بزرگ کا مزار تھا جو گول ستونوں پر سنگ مرمر کی چٹان کے سہارے کھڑا تھا اور اِس پر تراشے ہوئے پتھر سے بنی ایک محراب بھی تھی لیکن جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ تھی کہ ہر پیر اور بدھ کو پہاڑی کے دامن میں ایک غار سے ایک شیر یہاں آتا تھا اور اپنی دم سے اس کی سیڑھیوں کی صفائی کرتا تھا۔‘اس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا بلکہ اس کے راستے میں آنے والے بچے اور عورتیں بھی اس سے محفوظ تھیں۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ مزار مقدس جگہ تھی لیکن ہمارے آرٹلری کے ایک افسر کے ساتھ جو کچھ یہاں پر ہوا اس کے بعد یہاں کے لوگوں کا اس جگہ پر اعتقاد یقیناً اور بڑھ گیا ہو گا۔ تجسس اس افسر کو مزار تک کھینچ لایا تھا۔ اس نے مقامی لوگوں کے اس مزار اور اس میں دفن بزرگ کے بارے میں اعتقاد کو توہم پرستی سے تعبیر کیا اور ان کا مذاق بھی اڑایا۔‘کپتان نے کسی کی پرواہ کیے بغیر مزار کی سیڑھیوں پر پیشاب کر دیا۔ واپسی کے لیے ابھی وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا ہی تھا کہ کسی ان دیکھی قوت نے اسے جکڑ لیا اور وہ زمین پر آ گیا جہاں وہ کچھ دیر بے حرکت لیٹا رہا۔ اسے پالکی پر مونگ ہیر پہنچایا گیا لیکن وہ زیادہ دیر نہ جی سکا اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔‘اس واقعے میں ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو اپنی تنگ نظری کی وجہ سے اپنے ہی جیسے انسانوں کے عقائد کا صرف اس لیے مذاق اڑاتے ہیں کہ ان کی عبادت کا طریقہ مختلف ہے۔’
دریا کے بیچ میں فقیر کا گھر اور دعوت
دین محمد لکھتے ہیں ‘یہ سن 1771 کی بات ہے۔ ہم مونگ ہیر سے 30 میل دور تھے جب ہمیں گنگا کے بیچ بڑی سی چٹان پر بنا ہوا ایک گھر نظر آیا۔ ہم نے شام کو اس جگہ سے کچھ دور پڑاؤ ڈالا۔اگلے روز ہم سب شکار کھیلنے گئے۔ دوپہر کے وقت شکار سے فارغ ہو کر ہم گنگا کے بیچ میں گھر دیکھنے کے لیے دریا کے کنارے کی طرف گئے اور کشتی پر وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ گھوڑے نوکروں کے حوالے کر کے ہم مچھیروں کی کشتیوں میں دریا کے بیچ میں خشکی کی طرف بڑھنے لگے۔چٹان پر بنا یہ مکان ایک فقیر کا گھر تھا جو ہمیں آتا دیکھ کر استقبال کے لیے آگے بڑھا۔ اس نے لمبا نارنگی رنگ کا چوغا پہنا ہوا تھا اور سر پر سفید کپڑا تھا۔ سینے تک بڑھی ہوئی داڑھی کی وجہ سے اس کی شخصیت میں بزرگی کا تاثر تھا۔ اس کے کندھوں تک لمبے بالوں سے چاندی جھلک رہی تھی۔ وہ ایک صحت مند اور ہشاش بشاش انسان تھا جس میں ٹھہراؤ اور سکون صاف نظر آ رہا تھا۔اس کے چھوٹے سے گھر میں اس وقت کھانے کے لیے جو تھا وہ اس نے ہمارے سامنے رکھ دیا۔ بات کرتے ہوئے وہ مسلسل اپنی کلائی سے لٹکتی لمبی سی مالا کے دانے پھیرتا رہا اور اس کی آنکھیں ہر تھوڑی دیر بعد آسمان کی طرف اٹھتی تھیں۔میں نے اتنے صاف ستھرے گھر کم ہی دیکھے تھے۔ اس کا سائز پانچ مربع گز سے زیادہ نہیں تھا۔ چھت اونچی اور ہموار تھی اور اوپر جانے کے لیے ایک سیڑھی بھی وہاں موجود تھی۔ وہاں کسی جانور کی کھال بھی بچھی ہوئی تھیں جس پر لیٹ کر وہ پڑھائی کرتا تھا۔ مکان کے ایک کونے میں تین اینٹوں کا چولہا جل رہا تھا۔ اس کی خوراک زیادہ تر چاول اور اس کے اپنے باغیچے کے پھلوں پر مشتمل تھی۔ مہمانوں کے لیے اس نے باہر بڑی آگ پر کھانا تیار کیا تھا۔ ہم اس کے مکان کا اچھی طرح معائنہ کر چکے تو اس نے ہمیں آم اور دیگر پھل پیش کیے۔ روانہ ہوتے ہوئے ہم نے اسے چھوٹا سا نذرانہ دیا اور اس کے گھر اور باغیچے کی تعریف کی۔ واپسی کے لیے ہم نے اس فقیر کی ہی کشتی استعمال کی۔
ناک اور کان کاٹنے والا انصاف
اس سفرنامے میں دین محمد نے دورانِ سفر پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ‘ابھی ہمیں فلوہیریا میں ایک رات ہی گزری تھی کہ قریبی دیہات سے کچھ لوگوں نے ہمارے خیموں میں لوٹ مار کی واردات کر ڈالی۔ وہ ہمارے افسروں اور سپاہیوں کی سبھی قیمتی اشیا چرا کر لے گئے۔اتفاق سے جب وہ میجر بیکر کی مارکی کے ساتھ والے سٹور میں داخل ہوئے تو میں وہیں پالکی پر لیٹا سو رہا تھا۔ حملہ کرنے والے دیہاتی میرے خیمے میں داخل ہوئے اور مجھ سمیت میری پالکی کو لے کر چلتے بنے اور ڈیڑھ میل دور جا کر رکے۔ انہوں نے تیزی سے پالکی سے جڑا ہوا قیمتی سامان اتارا اور میری جیب سے بھی پیسے نکال لیے۔وہ اتنے ظالم تھے کہ ایک بار تو انھوں نے میرے قتل کا بھی ارادہ باندھ لیا کہ کہیں میری وجہ سے وہ پکڑے نہ جائیں لیکن پھر ان میں سے کچھ نرم دل افراد نے میری عمر کا لحاظ کرتے ہوئے مجھے جانے دیا۔ میں ہوا کے گھوڑے پر سوار واپس پہنچا اور سیدھا میجر بیکر کے خیمے میں گیا۔ انھیں میرے بارے میں بہت تشویش تھی اور جب میں انہیں سنایا کہ کس طرح میری جان بخشی کی گئی ہے تو وہ بھی حیران رہ گئے۔محافظوں نے کچھ لٹیرے جو اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گئے تھے دیکھ لیے اور پیچھا کرنے کے بعد انھیں پکڑ لیا۔ اس کے بعد ان کے کچھ دیگر ساتھی بھی پکڑے گئے۔ ان کو اپنے کیے کی وہ سزا ملی جو ان کا حق تھا۔ انھیں کوڑے مارتے ہوئے کیمپ میں لایا گیا اور ناک اور کان کاٹ دیے گئے۔ اس واردات کی وجہ سے ہمیں فلوہیریا میں پروگرام سے زیادہ رکنا پڑ گیا تھا۔
گیدڑوں کا حملہ ۔ابھی ہم ان سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ رات کو گیدڑوں کے حملے نے ہمارا سکون برباد کر دیا جو اس علاقے میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یہ گیدڑ یورپی لومڑیوں کے برعکس انتہائی خونخوار جانور ہیں۔گیدڑ آدھی رات کو خاموشی سے ہمارے کیمپ میں داخل ہوئے اور مرغیوں کی بڑی ختم تعداد ختم کرنے کے علاوہ چھوٹے بچے بھی جو وہ اٹھا لے جا سکتے تھے لے گئے۔ ان کا پیچھا کرنا بیکار تھا ہمارے پاس صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
پہاڑی لٹیرے
بھاگل پور سے سکل گری کے سفر کے دوران دین محمد کے قافلے کو پہاڑی علاقے کے لٹیروں نے بھی نشانہ بنایا۔‘ہمارا قافلہ بہت بڑا تھا اور اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہاڑی لٹیرے پیچھے چلنے والے تاجروں پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے لوٹنے کے علاوہ بہت سے تاجروں کو نیزوں اور تیروں سے زخمی بھی کر دیا۔ان حملہ آوروں میں سے کئی ایک حفاظتی دستوں کا نشانہ بنے جبکہ تیس، چالیس گرفتار کر لیے گئے۔ اس سے اگلے روز جب ہمارے قافلے میں شامل گھاس کاٹنے والے اور بازار کے کچھ لوگ ہاتھیوں اور گھوڑوں کا چارہ اور کیمپ کے لیے ایندھن لینے پہاڑوں پر گئے تو ان کا نشانہ بن گئے اور سات آٹھ افراد انتہائی بیدردی سے قتل کر دیے گئے۔ حملہ آور کئی ہاتھی، گھوڑے اور دیگر جانوروں کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔حملے کی شکایت ملنے پر ہمارے کمانڈنگ افسر نے حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے دو کمپنیاں روانہ کیں۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ کچھ حملہ آور انہیں کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے مل گئے جبکہ باقی ان کی مدد کے لیے پہاڑی پر جمع ہو رہے تھے۔ ہمارے سپاہیوں نے پوزیشن سنبھال کر ان پر فائر کیے۔ کچھ جنگلی وہیں پر ڈھیر ہو گئے اور کچھ زخمی ہوئے۔ان میں سے زیادہ تر نے کچھ دیر تلواروں، نیزوں اور تیروں سے مزاحمت کی لیکن ہمارے اسلحے کے سامنے بے بس ہو کر پہاڑوں میں بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ ہمیں پیچھا کرنے سے روکنے کے لیے وہ بھاگتے ہوئے جگہ جگہ آگ لگا گئے لیکن پھر بھی ان میں سے 200 کو گرفتار کر لیا گیا۔پکڑے جانے والوں کو ان کے جرائم کی کڑی سزا دی گئی۔ کچھ کے ناک اور کان کاٹ دیے گئے اور کچھ کو سولی پر لٹکنا نصیب ہوا۔ بعد میں فتح کی پریڈ میں ان سے پکڑے گئے اسلحے کی نمائش کی گئی جس میں تیروں اور نیزوں کے علاوہ ان کی پندرہ پندرہ پاؤنڈ وزنی تلواریں بھی شامل تھیں۔کچھ دیر کے بعد ہمیں اپنے دو ساتھی انتہائی بری حالت میں ملے جن کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ وہ مارے جا چکے ہیں۔ ان کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ انتہائی بری حالت میں رینگ کر کیمپ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ہمارے بہت سے جانور ہمیں اپنے ہی خون میں نہائے ہوئے ملے۔ ان میں گھوڑوں اور ہاتھیوں کے پیروں میں میخیں ٹھکی ہوئی تھیں۔ زخمی جانوروں کو بڑی مشکل سے کیمپ تک لایا گیا لیکن ان میں سے کچھ ہی زندہ بچ سکے۔٭٭٭
بشکریہ : ترجمہ ، اسد علی