سوال، جواب

مصنف : منہاج القرآن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : دسمبر 2019

اس مسئلہ کی شرعاً دو صورتیں ہو سکتی ہیں:اگر مکینک گاہک کو پابند کرتا ہے کہ فلاں دوکان سے سامان خریدنا ہے’ چاہے مارکیٹ ریٹ سے مہنگا ہی ملے، اس کے علاوہ کسی دوکان کا سامان قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ اس صورت میں دوکاندار کا زائد قیمت وصول کرنا اور مکینک کا کمیشن لینا جائز نہیں۔دوسری صورت یہ ہے کہ مکینک دوکاندار کی صرف تشہیر کرتا ہے اور گاہک اپنی مرضی سے اس دوکاندار سے سامان خریدتے ہیں۔ اس صورت میں مکینک کا کمیشن لینا جائز ہے کیونکہ اس نے اپنے کمیشن کی لالچ میں گاہک کو مخصوص دوکاندار سے سامان خریدنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ صرف دوکاندار کی تشہیر کی ہے اور اسی کے عوض اسے کمیشن دیا گیا ہے۔
 

(مفتی محمد شبیر قادری)

الکحل پرفیوم لگاتے وقت ہوا میں اڑ جاتی ہے اور اس کا اثر باقی نہیں رہتا۔ لہذا ایسے پرفیوم کے ساتھ نماز جائز ہے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
 

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

کسی شخص سے کوئی چیز مقررہ کرائے پر لینا یا مقررہ اجرت پر کسی سے مزدوری کروانا اجارہ کہلاتا ہے۔ فقہائے کرام کے نزدیک اجارہ سے مراد ہے:‘‘عقدِ اجارہ ایک معاہدہ ہے جو کسی معاوضہ کے بدلے کسی منفعت پر کیا جائے۔’’
یعنی اجارہ سے مراد ایسا معاہدہ ہے جو مقررہ مال کے بدلے اپنی خدمات پیش کرنے پر عمل میں آتا ہے۔ مزدوری، ٹھیکہ، کرایہ اور ملازمت وغیرہ سب ہی اجارہ کی مختلف اقسام ہیں۔ آجر یا مستاجر اس شخص یا ادارے کو کہتے ہیں جو کسی سے اجرت پر کام لے رہا ہو اور اجیر وہ شخص ہے جو اجرت کے بدلے اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔
جو صورت آپ نے پیش کی ہے یہ بھی اجارہ ہی کی ایک شکل ہے جس میں معاوضہ یا اجرت کے بدلے اپنی خدمات اور معاونت پیش کرتے ہیں۔ اس لیے معاونت کے بدلے آپ کے لیے کمیشن لینا جائز ہے۔ لیکن ملازمت دلوانے کے لیے کسی کی حق تلفی کرنا جائز نہیں، اس لیے میرٹ کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ اگر کمیشن لینے کی لالچ میں میرٹ کی خلاف ورزی کی گئی اور غیرشرعی و غیرقانونی ذرائع کی مدد لی گئی تو پھر کمیشن لینا بھی جائز نہیں ہوگا۔ میرٹ کے مطابق، شرعی و قانونی تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے مدد کرنا اور اس کے بدلے کمیشن لینا جائز ہے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

حدیث پاک سے خلافت عثمانی میں سیدنا حذیفہ بن الیمان فتح ارمینیہ و آذر بیجان کے زمانہ میں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ اس زمانہ میں اہل عراق و شام کے ہمراہ شریک جہاد تھے۔ آپ نے لوگوں میں قرأتِ قرآن کریم کے بارے میں جو اختلاف پایا جاتا تھا، اس پر اظہار پریشانی کیا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کی، امیر المومنین!اس سے پہلے کہ امت کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے جیسے یہود ونصاریٰ نے کیا۔ اس کو سنبھال لیجئے۔اس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ام المومنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ قرآن کریم کا نسخہ (مصحف) ہمیں بھیج دیں تاکہ اسے کئی مصاحف میں ہم نقل کر لیں، پھر آپ کو یہ نسخہ واپس کر دیں گے، سو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ نسخہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا زید بن ثابت، سیدنا عبداللہ بن الزبیر، سیدنا سعید بن العاص، سیدنا عبدالرحمن بن الحارث بن ھشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا۔ ان حضرات نے متعدد مصاحف میں اسے نقل فرمایا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان میں سے تین قریشیوں سے فرمایا۔ جب کسی لفظ قرآن میں تم اور زید بن ثابت میں اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان میں لکھنا۔ کہ قرآن انہی کی زبان میں اترا ہے سو ان حضرات نے ایسا ہی کیا۔ یہاں تک کہ جب مصاحف کے نسخے تیار ہوگئے تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ نسخہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس کر دیا اور لکھے گئے نسخوں میں سے ہر علاقے میں ایک نسخہ بھیج کر ساتھ ہی یہ حکم دیدیا کہ اس کے علاوہ کسی بھی صحیفے یا مصحف میں لکھا ہوا قرآن جلا دیا جائے۔صحیح بخاری، 2:746
ہمارے فقہائے کرام نے لکھا ہے۔
‘‘جب قرآن کریم پرانا ہو جائے اور پڑھا نہ جائے اور ضائع ہونے کا ڈر ہو تو اسے پاکیزہ کپڑے میں باندھ کر دفن کر دیا جائے اور دفن کرنا اس سے بہتر ہے کہ کسی ایسی جگہ رکھ دیا جائے جہاں اس پر نجاست وغیرہ پڑنے کا ڈر ہو اور دفنانے کے لئے لحد کھودے کیونکہ اگر سیدھا گڑھا کھودا اور اس میں بوسیدہ قرآن دفن کردیا تو اوپر مٹی ڈالنے کی ضرورت پڑے گی اور اس میں ایک طرح کی بے ادبی ہے۔ ہاں اگر اوپر چھت ڈال دے کہ قرآن کریم تک مٹی نہ پہنچے تو یہ بھی اچھا ہے۔ قرآن کریم جب بوسیدہ ہو جائے اور اس سے قرأت مشکل ہو جائے توآگ میں نہ جلایا جائے۔
فتاویٰ عالمگیری، ۵:۳2۳ طبع ترکی
لہذا بہتر یہی ہے کہ بوسیدہ اوراق قرآن کریم کے ہوں یا حدیث پاک کے یا کسی دینی کتاب کے جن میں قرآن و حدیث کے حوالے نقل کئے گئے ہوں ان کو جلایا نہ جائے اور مذکورہ بالا طریقہ سے ان کو دفنا دیا جائے۔ مگر اس خیال سے کہ آج کل دفنانے کیلئے محفوظ زمین کا ملنا مشکل ہے بالخصوص شہروں میں نیز جہاں محفوظ جگہ سمجھ کر ان اوراق کو دفنایا گیا ہے، عین ممکن ہے کہ کوئی انسان لاعلمی میں اس جگہ پر پیشاب کرے اور گندے اثرات ان اوراق مبارکہ تک پہنچ جائیں۔ دریا برد کرنے میں بھی بے ادبی کا آج کل بہت امکان ہے جبکہ اختلاف و انتشار امت سے بچنے اور فتنہ و فساد کے امکانات ختم کرنے کی خاطر صحابہ کرام کی موجودگی میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کے نسخوں کو جلوا دیا اور کسی صحابی نے اس پر انکار نہ کیا۔ پس جلانے کا جواز موجود ہے۔ جبکہ نیت قرآنی تقدس کی حفاظت کرنا ہو۔ صحابہ کرام کا اجماع ہو چکا ہے۔ اسی لئے فقہائے کرام نے بہت نرم لہجے میں جلانے سے منع فرمایا مگر جلانے پر کوئی سخت حکم نہ لگایا، کہ اس کے جواز کی بنیاد موجود تھی۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ایک واقعہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ بنو اسد کے ایک شخص ابن التیبہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے عامل بنایا، جب وہ (زکوٰۃ وصول کر کے) آئے تو انہوں نے کہا یہ آپ کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ‘‘ان عاملوں کا کیا حال ہے کہ میں ان کو (زکوٰۃ وصول کرنے) بھیجتا ہوں اور یہ آ کر کہتے ہیں:یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ (تحفہ) کیا گیا ہے۔ یہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں بیٹھا ہوتا پھر ہم دیکھتے کہ اس کو کوئی چیز ہدیہ کی جاتی ہے یا نہیں..! قسم اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے! تم میں سے جو شخص بھی ان اموال میں سے کوئی چیز لے گا قیامت کے دن وہ مال اس کی گردن پر سوار ہو گا (کسی شخص کی گردن پر) اونٹ بڑبڑا رہا ہو گا، یا گائے ڈکرا رہی ہو گی یا بکری منمنا رہی ہو گی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ اتنے بلند کیے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: اے اللہ میں نے تبلیغ کر دی ہے۔’’
اس حدیثِ پاک سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے تحائف وصول کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی ہے کیونکہ کسی عہدہ پر متمکن شخص کو تحائف کی صورت میں رشوت دے کر لوگ غلط کام کرواتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عُمال و افسران کو دورانِ خدمات ہدیہ وصول کرنے پر تنبیہ فرمائی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں عُمال اور صاحبانِ اختیار کو دیئے جانے والے تحائف پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ دورِ حاضر میں دواساز کمپنیوں کی طرف سے میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف کو دیے جانے والے تحائف بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ فقہائے فتاویٰ ہندیہ کے مطابق اگر کسی صاحبِ اختیار (جیسے زیرِبحث معاملے میں ڈاکٹر یا اس کا سٹاف) کو محض دوستی و تعلق کی بناء پر کوئی تحفہ دیا جائے تو لینے والے کے لیے تحفہ لینا اور دینے والے کے لیے تحفہ دینا’ دونوں جائز ہیں۔ اس معاملے کی دیگر صورتوں پر فتاویٰ ہندیہ درج ذیل الفاظ میں بحث کی گئی ہے:
اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی کو اس غرض سے ہدیہ (تحفہ) دینا کہ اس کے اور سلطان (یعنی صاحبِ اختیار) کے درمیان معاملہ ٹھیک رہے اور بوقتِ ضرورت مدد کرے، تو اس کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اگر کوئی حرام حاجت پوری کروانے کے لیے تحفہ دیا گیا ہے تو تحفہ دینا اور لینا دونوں ناجائز ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تحفہ کسی مباح (ناقابل اعتراض) کام کے لیے دیا جائے تو اس کی بھی مزید دو صورتیں ہیں: اگر تحفہ کسی کام میں مدد کرنے کی شرط کے ساتھ دیا گیا تو اس کا لینا جائز نہیں، البتہ دینے کے جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تحفہ دیتے ہوئے اگرچہ کوئی شرط نہیں لگائی گئی تاہم مقصد یہی ہے کہ صاحبِ اختیار میری مدد کرے’ اس صورت میں بھی جواز و عدمِ جواز کا اختلاف ہے، تاہم عامہ مشائخ کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں۔اور اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص صاحبِ اختیار کو کسی (عہدہ و منصب کے حصول جیسے) قضاء وغیرہ کے لیے تحفہ دے تو دینے والے کے لیے دینا اور لینے والے کے لیے لینا’ دونوں جائز نہیں ہے۔’’
درج بالا تصریحات کو زیرِ بحث معاملے پر منطبق کرنے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اگر دواساز کمپنیوں کے نمائندے اپنی ادویات متعارف کروانے کے لیے ڈاکٹر حضرات سے ملتے ہیں اور بغیر کسی شرط کے’ محض وقت دینے پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کوئی تحفہ دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اپنی مصنوعات متعارف کروانے کے لیے دیا گیا تحفہ بھی وصول کرنے میں کوئی ممانعت نہیں۔لیکن اگر یہ تحائف، مالی منفعت، کھانے یا دیگر سہولیات اس شرط کے ساتھ دی جاتی ہیں کہ مریضوں کو مخصوص کمپنی کی ادویات تجویز کی جائیں گی یا طبی معائنہ (Medical Test) کسی مخصوص لیبارٹری کا ہی قبول کیا جائے گا یا اس طرح کی دیگر شرائط کے ساتھ تحائف دینا اور لینا سراسر حرام ہے۔ اسی طرح غیر شرعی یا غیرقانونی امور کی انجام دہی کے لیے دیئے تحائف وصول کرنا بھی ممنوع ہے۔

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

مچھر، مکھی اور دیگر حشرات الارض جو انسانی جان کے لیے نقصان دہ ہوں ان کو مارنے کا حکم ہے، اور مارنے میں احسان کی تلقین کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان فرض کیا ہے اس لیے جب تم لوگ کسی جانور کو مارو تو اچھے طریقے سے (ایک ہی وار میں) مارو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔اسی بنا پر مچھروں اور دیگر حشرات کو مروجہ برقی مشین (Electric Insect Killers) سے مارنا جائز ہے۔
مچھر برقی مشین میں جل کر نہیں بلکہ بجلی کے جھٹکے سے مرتا ہے’ اِسے آگ میں جلانا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ برقی مشین میں کرنٹ ہوتا ہے’ آگ نہیں۔ اس پر اگر کاغذ یا کپڑا رکھا جائے تو وہ جلتا نہیں ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشین میں آگ نہیں ہوتی اور اس سے لگ کر مرنے والے جاندار جل کر نہیں بلکہ برقی جھٹکے سے مرتے ہیں۔ یہ موذی جانور کو مارنے کا کم تکلیف دہ طریقہ ہے جس کی شریعت میں ترغیب دلائی گئی ہے۔ اس لیے برقی کیڑے مار (Electric Insect Killers) مشین کا استعمال جائز ہے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

اللہ عربی زبان میں خالق کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ فارسی اور اردو زبانوں میں خالق کے لیے خدا اور پروردگار کے الفاظ بھی ادا کیئے جاتے ہیں۔ کھواری زبان میں اللہ کے لیے خدائی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح انگریزی میں عربی زبان کے اللہ کا متبادل لفظ گاڈ (God) ہے۔ لفظ اللہ کا استعمال صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ اور دیگر اسلامی ممالک میں رہنے والے عیسائی، یہودی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی خالق یا پروردگار کے لیے یہی لفظ استعمال کرتے ہیں۔ بائبل کے عربی ترجمہ میں بھی گاڈ (God) کا ترجمہ اللہ ہی کیا جاتا ہے۔
 

(مفتی محمد شبیر قادری)

اگر شوہر ہوش و حواس میں طلاق دے تو واقع ہو جاتی ہے، خواہ زبانی دی جائے’ کاغذ پر لکھ کر دے یا ایس ایم ایس کے ذریعے ارسال کرے۔ ایس ایم ایس کے ذریعے دی گئی طلاق بھی اسی طرح معتبر ہے جس طرح زبانی دی گئی طلاق ہے۔ 
 

(مفتی محمد شبیر قادری)

بلاشک و شبہ مسواک کے بارے میں اتنی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں جو مسواک کی فضیلت اور اس کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ مسواک کا معنی ہے، صاف کرنے والا آلہ۔ یعنی وہ چیز جس سے منہ کو صاف کیا جاتا ہے۔ اسلام میں مسواک کی اتنی اہمیت اور فضیلت جو بیان کی گئی اس کا مقصد ہی صفائی ہے، جو کسی بھی چیز سے حاصل ہو سکتا ہے، تو یہی مقصد ٹوتھ پیسٹ سے حاصل ہو جاتا ہے۔ لہذا ٹوتھ پیسٹ مسواک کے ہی قائم مقام ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مسواک ہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
 

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ڈرامہ، دھوکہ اور فراڈ ہے۔ سادہ لوح لوگوں سے جاہل عاملوں کا پیسے بٹورنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ سب جہالت اور سادگی ہے اور عاملوں کا دھوکہ اور فراڈ ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
 

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

غسل کے فرائض تین ہیں: (1) کلی کرنا، (2) ناک میں پانی ڈالنا، (3) پورے بدن پر پانی بہانا۔
شاور، ٹوٹی، نل اور ٹب وغیرہ کے ذریعے غسل کرنے کے لیے اگر اچھی طرح کلی کر لی گئی اور ناک میں نرم ہڈی تک پانی ڈال لیا گیا اور پھر پورے بدن پر کم از کم ایک مرتبہ اس طرح پانی بہا لیا گیا کہ بدن کا کوئی حصہ بال برابر بھی خشک نہ رہا تو غسل کے واجبات ادا ہو جائیں گے۔ غسلِ واجب کی صورت میں جسم پر لگی ہوئی نجاست کو پہلے دھونا سنت ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

نماز میں اگر وضو ٹوٹ جائے تو ساری نماز نہ دہرائی جائے بلکہ جس رکعت میں وضو ٹوٹا ہو تو وضو کر کے اسی سے شروع کر کے نماز مکمل کرے۔ اس عمل کو بنا کرنا کہتے ہیں، البتہ نماز دہرانا زیادہ افضل ہے۔حدیث مبارکہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
‘‘جسے نماز میں قے، نکسیر، یا مذی آجائے وہ لوٹ کر وضو کرے اور جہاں نماز کو چھوڑا تھا وہیں سے شروع کر دے لیکن اس دوران کلام نہ کرے۔’’

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

اگر کسی کو دعائے قنوت یاد نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دعا کو یاد کرے اور جب تک دعائے قنوت یاد نہ ہو تو اس کی جگہ یہ پڑھ لے:رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo
اور اگر یہ دعا بھی نہ یاد ہو تو تین مرتبہ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا پڑھ لے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

یہ بھی حقیقی بہنوں کی طرح ہی بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ ایک مر جائے یا اس کو طلاق دے دی جائے تو اس کی عدت پوری ہو جانے کے بعد دوسری سے نکاح ہو سکتا ہے ورنہ جائز نہیں ہے، بلکہ نکاح ہی قائم نہیں ہوگا۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

ایک مسلمان کے لیے غیرمسلم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا ، غیرمسلم کے ہاتھ سے منگوایا ہوا اور پکویا ہوا کھانا بھی جائز ہے، بشرطیکہ کھانا شرعاً حلال ہو۔ اس میں غیرمسلم کتابی (یہودی اور مسیحی) یا غیرکتابی (ہندو، سکھ، بدھ، جین اور دھریے وغیرہ) کا کوئی فرق نہیں۔ البتہ ایسے غیرمسلم جو اہلِ کتاب میں سے نہ ہو اس کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں ہے۔کیونکہ غیراہلِ کتاب ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتے اس لیے ان کا ذبیحہ حرام ہے۔کسی بھی غیرمسلم کے استعمال شدہ برتن دُھلنے کے بعد مسلمان کے لیے قابلِ استعمال ہوتے ہیں۔ غیرمسلم کا جوٹھا کھانے کی مختلف صورتیں ہیں: ایک صورت یہ ہے کہ حرام کھانے جن کو کھانا ہمارے لیے جائز نہیں، وہ کسی بھی صورت میں نہیں کھائے جائیں گے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر غیرمسلم حلال کھانا کھا رہا ہو تو باوقار طریقے سے اس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)