سعودی عرب کے ممتازعالم دین الحمیدی عبیسان نے موسیقی، اختلاط مرد و زن اور خاتون کے چہرے کو نقاب سے ڈھانپنے کے عدم وجوب سے متعلق اپنے خیالات کا دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ موسیقی اورمرد وعورت کے مخلوط شکل میں رہنے کو حرام اور خاتون کے چہرے پر نقاب اوڑھنے کو لازمی قرار دیا جاسکے۔
العربیہ نیوز چینل کے فلیگ شپ پروگرام"اضاء ت" میں گفتگو کرتے ہوئے سعودی عالم دین کا کہنا تھا کہ "ان کے پاس موسیقی کوحرام قرار دینے سے متعلق کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔ موسیقی کی ممانعت میں شدت دراصل فحش گوئی کے عنصر کے موسیقی میں ملنے کی وجہ سے ہوئی ہے"۔
شیخ العبیساوی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "موسیقی کو جب نشے، شراب نوشی اور فحش گوئی جیسی مذموم حرکات کے ساتھ جوڑاگیا ، وہاں سے اس کی ممانعت میں شدت پیدا ہوئی۔ اسلامی تاریخ میں اگرچہ موسیقی کی حمایت نہیں کی گئی تاہم اسے مباح قراردیا گیا ہے۔ موسیقی کو مباح اور جائز قراردینے والے فقہاء میں اندلس کے امام ابن حزم پیش پیش رہے ہیں"۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ "جو لوگ موسیقی کی موجودہ شکل کوحرام قراردیتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ موسیقی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہیں تھی۔ اس دور میں دف کے ساتھ رائج موسیقی تھی جسے آپ نے جائز قراردیاتھا۔ میں کہتا ہوں اگریہ موسیقی انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھی ہی نہیں توہم اسے حرام کیسے قراردے سکتے ہیں"۔
شیخ عبیساوی کا کہنا تھا کہ موسیقی کی حرمت سے متعلق امام بخاری کی نقل کردہ وہ حدیث ضعیف ہے جس میں روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "میری امت کے کچھ گروہ ایسے ہوں گے جو ریشمی لباس، شراب اور آلات موسیقی کوجائز قراردیں گے"۔
خواتین اور مردوں کے باہمی مخلوط شکل میں رہنے اور حجاب میں خاتون کے چہرے کے پردے سے متعلق عرب عالم دین کہتے ہیں کہ" میں خواتین اور مردوں کے بلاضرورت مخلوط شکل میں رہنے پرزور نہیں دیتا تاہم ہمارے پاس اس کو حرام قراردینے کی بھی کوئی شرعی دلیل نہیں۔ یہی معاملہ ایک خاتون کے چہرے کے نقاب کا ہے۔ خواتین کے پردے سے متعلق قرآن کی آیات کے شان نزول پرغور کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ہمارے پاس امام شافعی کی رائے بھی موجود ہے اور وہ بھی خاتون کا چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت دیتے ہیں"۔
پردے سے متعلق قرآن کے بعض آیات کاتعلق ازواج مطہرات سے ہے، ان آیات کو عمومیت کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ جب تک ہمارے پاس کوئی دلیل اور ثبوت نہ ہوہمیں ان آیات کوتمام مسلم خواتین کے لیے لازمی نہیں قراردینا چاہیے۔ اس حوالے سے امام ابن تیمیہ کا نقطۂ نظر بھی اہمیت رکھتا ہے۔ چہرے کے پردے کے وجوب کے وہ بھی قائل نہیں۔
اس سوال پرآیا وہ لبرل سوچ کی ترویج کررہے ہیں۔ شیخ عبیساوی کا کہنا تھا کہ "یہ تاثر غلط ہے کہ میں روشن خیالی اور لبرل سوچ کو فروغ دے رہا ہوں۔ میں دلیل کے ساتھ بات کرتا ہوں اور میری خواہش ہے ہرکوئی دلیل اور ثبوت کے ساتھ بات کرے۔ سعودی عرب میں اظہار رائے اور ایک دوسرے کے احترام کی حد تک لبرل سوچ موجود ہے تاہم جدیدیت کے رائج الوقت فلسفے کے مطابق سعودی معاشرے کو ڈھالنے میں وقت در کارہوگا"۔
اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے عرب عالم دین کا کہنا تھا کہ اسلام ایمان اور اطاعت کا نام ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے قتل اور ایک دوسرے پرکفر کے فتوے لگانے کو ممنوع قراردینا چاہیے۔ سائنس اور اسلام کے حوالے سے بھی میرا نقطہ نظر واضح ہے۔ ہمیں سانس اور مذہب کو ایک دوسرے سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ سائنس کو مذہب کے تابع کرکے سائنسی تجربات اور تحقیقات کو
آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔
بشکریہ : بحوالہ ، دبئی۔۔۔ العربیہ