اے ربِ ملائک و جن و بشر ، میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں
خدمت میں تری شرمندہ نظر ، میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں
جو تیری ثنا کے لائق ہو ، اک حرف بھی ایسا پاس نہیں
کیا تابِ سخن ، کیا عرضِ ہنر ، میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں
قطرے کی نگاہِ حیراں پر دریا کی حقیقت کیسے کھلے
میں جانتا ہوں یہ بات مگر ،میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں
میرے چاروں طرف ہیں دروازے ، میرا سرمایہ کچھ اندازے
مجھ بے خبرے کو بخش خبر ،میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں
یہ ارض و سما کی پہنائی ، یہ میری ادھوری بینائی
ہے شوقِ سفر ہی زادِ سفر ، میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں
مرے کان تری آہٹ سے سجیں ، مرے سانس تری خوشبو میں پلیں
مری آنکھیں اپنے خواب سے بھر ، میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں
اے نورِ ازل ، اے حسنِ ابد ، سبحان اللہ سبحان اللہ
رہیں روشن تیرے شمس و قمر میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں