ایک متمول گھرانے کے آسودہ حال دوست دوپہر کو اپنی دکان سے گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ لفٹ خراب ہے۔ گرمی تو تھی ہی ،مگر یہ اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں تھا کہ گھر محض چوتھی منزل پر تھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے تو سانس چڑھا ہوا، آنکھیں اُبل کر باہر آنے کو، پسینہ عروج پر اور ایسا لگتا تھا دل کہ ابھی پھٹا کہ پھٹا۔اوسان بحال ہوئے تو سیدھا ڈاکٹر کے پاس پہنچے، پوچھا،کیا کہ دل کو دورہ تو نہیں پڑ گیا تھا؟ ڈاکٹر صاحب نے چند ضروری ٹیسٹ کرانے کے بعد بتایا آپ بالکل ٹھیک ہیں بس وزن ذرا زیادہ ہے اور موقع ملے تو کچھ ورزش کر لیا کریں۔ انداز کاروباری اور باتیں علمی تھیں جن کا کبھی نہ کسی پر اثر ہوا اور نہ ہی ہوگا۔ شام کو لفٹ ٹھیک ہوئی اور بات آئی گئی ہو گئی۔
کچھ عرصہ بعد آپ مع اہل و عیال سیاحت پر نکلے تو آپ کا تہران بھی جانا ہوا۔ اتفاق سے اسی ہوٹل میں اس دن تہران کے ہی ایک حکیم صاحب (جمشید خدادادی - نام گوگل کر لیجیئے) ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے، حکیم صاحب کا موضوع طیبات (پاک اور حلال کھانے) اور اللہ کی عبادت کا آپس میں تعلق ۔
آپ نے یہ لیکچر سنا اور دنیا ہی بدل گئی۔ حکیم صاحب سابقہ پائلٹ اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد قران اور غذا کے آپس میں تعلق پر باحث علم ہیں۔ معلومات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا ایسا سمندر جو سب بتا دے کہ جب سے کھانوں میں مصنوعاتی اضافے شروع ہوئے بندے اللہ سے بے تعلق ہونا شروع ہو گئے، فرائض بوجھ بنے، جسم کھوکھلے اور بیماری زدہ ہوئے، خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار، بچے بد تمیز، بے ادب اور لا پرواہ، معاشرہ بے راہ روی اور اخلاقی پستی کی طرف جانے لگا، شرم و حیا مٹی، تبرج اور عریانی پھیلی اور شیطانیت قبضہ جماتی گئی۔
کھانے پینے سے متعلق قران حدیث کے وضع کردہ اصولوں یا تعلیمات سے انحراف کرنے پر لوگ بد اخلاق اور بے مروت تو ہوئے ہی، اللہ اور رسول سے بھی بے تعلق ہوتے چلے گئے۔
ہو سکتا ہے آپ کو یہ ساری باتیں افسانوی اور بے پر کی لگیں مگر کیا کہیئے کہ ایک ایک لفظ سچ اور عملی و علمی بحث سموئے ہوئے ہے۔ میں چند اپنی مثالوں سے بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
کھانوں میں بیکنگ پاؤڈر، میٹھا سوڈا اور دیگر کیمیکلز اور چینی کی بھرمار سے اگر آپ کے بچے چڑچڑے، بد تمیزاور نافرمان نہیں بنے تو آپ ایک معجزاتی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہاں اگر آپ لاڈ و پیار میں اپنے بچے کی یہ سب حرکات نظر انداز کرتے آ رہے ہیں تو یہ اور بات ہے۔
رات کو پیٹ بھر کر سونے والا، ساری رات پیٹ سے اٹھنے والے بخارات سے اگر بے چین نیند نہیں سویا، صبح نماز کیلئے بھی وقت پر جاگا ہے اور پھر صبح سویرے خوش مزاج بھی ہے تو یقینا دوسری دنیا کا مومن ہے۔
آوکسی ٹوسن ملے دودھ، آٹھ دس کلو قدرتی دودھ دینے والی گائے کو مختلف قسم کے ہارمونز اور ٹیکے لگا کر چالیس چالیس کلو دودھ دینے والی گائے بنا کر کا دوہا ہوا دودھ پی کر (اگر واقعی ایسا مل ہی رہا ہے تو)، اگر کوئی اب تک گھٹنوں جوڑوں کے درد سے بچا ہوا ہے تو اس پر خاص کرم ہو رہا ہے۔
صرف پنتالیس دنوں میں چوبیس چوبیس گھنٹے تیزابی گندگی کھاتے پیتے ہوئے اور ایک پل سوئے بغیر پالی ہوئی مرغی کھا کر اگر کوئی اب بھی جگر اور معدے کے امراض سے محفوظ ہے تو کمال ہی ہے۔
دیگر نقصانات میں: بچے بچیاں وقت سے پہلے جوان ہو رہی ہیں، جگر اور معدے کے امراض تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں، بچوں کی تولید کا تناسب دن بدن کم سے کم ہوتا جا رہا ہے، ہر دوسرا شخص اعصابی طور پر کمزور، فشار خون کا مارا ہوا اور مرنے مارنے پر آمادہ، ہر آدمی مروت اور رواداری سے عاری، ہر دوسرا شخص بے آرامی کا شکار، سونے کے وقت جاگتا ہوا اور جاگ جانے کے وقت میں گھوڑے بیچ کر سونے والا بن رہا ہے۔ بندوں کا آپس میں ہی نہیں، اللہ اور بندے کے درمیان میں فاصلہ بھی بڑھ رہا ہے۔٭٭٭