طب و صحت
ما ں كا دودھ
روبينہ ياسمين
وہ حیرت انگیز دریافت جب ایک ماں کے دودھ نے سائنس کو بھی چونکا دیا
دودھ صرف خوراک نہیں تھا۔ یہ ایک پیغام تھا۔دو ہزار آٹھ کی بات ہے۔ کیٹی ہِنڈےایک نوجوان سائنس دان کیلیفورنیا کی ایک لیبارٹری میں کھڑی تھی۔اس کے سامنے بندر کی ماؤں(rhesus macaque)کے سینکڑوں دودھ کے نمونوں کا ڈیٹا پھیلا تھا۔اور وہ ڈیٹا کسی بھی طرح سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
پہلی حیرت
جن ماؤں کے بیٹے تھے، ان کے دودھ میں چکنائی اور پروٹین زیادہ تھا۔جن ماؤں کی بیٹیاں تھیں، ان کا دودھ زیادہ مقدار میں پیدا ہوتا تھا، لیکن اس کے اجزاء مختلف تھے۔یعنی دودھ ایک ہی نہیں تھا-وہ بچے کی جنس کے مطابق تیار ہو رہا تھا۔اس کے مرد کولیگز نے فوراً طنز کر دیا-“یہ غلط پیمائش ہوگی۔”“شاید اتفاق ہے۔”“کوئی خاص بات نہیں۔”
لیکن کیٹی نے ڈیٹا کو نظرانداز نہیں کیا۔اور ڈیٹا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا-دودھ صرف خوراک نہیں ایک پیغام ہے۔
دوسری حیرت
کیٹی نے مزید دو سو پچاس ماؤں اور سات سو سے زیادہ نمونوں کا تجزیہ کیا۔پھر ایک اور چونکانے والی بات سامنے آئی-نئی، کم عمر مائیں کم کیلوریز کا دودھ بناتی تھیں-مگر اسی دودھ میں کارٹیسول (اسٹریس ہارمون) بہت زیادہ ہوتا تھا۔اور ایسے دودھ پینے والے بچےتیزی سے بڑھتے تھےمگر زیادہ چوکنّے، بےچین اور کم پُراعتماد ہوتے تھےیعنی دودھ صرف جسم نہیں بنا رہا تھابچے کی شخصیت تک پروگرام کر رہا تھا۔
تیسری حیرت
تقریباً ناقابلِ یقین جب بچہ دودھ پیتا ہے تو اس کے منہ کا تھوڑا سا لعاب (saliva)
ماں کے جسم میں واپس جاتا ہے۔اور وہ لعاب ماں کو بتاتا ہے کہ بچہ بیمار ہے یا نہیں۔
اگر بچہ کسی انفیکشن سے لڑ رہا ہو-ماں کے دکھائی نہ دینے والے نظام فوراً متحرک ہو جاتے
دودھ میں مخصوص اینٹی باڈیز چند گھنٹوں میں پیدا ہونا شروع دودھ میں سفید خون کے خلیے دو ہزار سے بڑھ کر پانچ ہزار سے زیادہ اورمیکروفیج (مدافعتی خلیے) چار گنا تک بڑھ جاتے
اور جیسے ہی بچہ ٹھیک ہوتاسب کچھ واپس نارمل۔یہ خوراک نہیں تھی۔یہ دو جسموں کے درمیان ایک مسلسل مکالمہ تھا-ایک حیاتیاتی گفتگو، جو سائنس صدیوں تک دیکھ نہ سکی۔
سائنس کی انسان کی پہلی غذاجس پر ہماری پوری نسلیں پروان چڑھیں-اسے سائنسی دنیا نے تقریباً نظرانداز کر رکھا تھا۔تو کیٹی نے ایک بلاگ شروع کیا-“Mammals Suck… Milk!”اور سال کے اندر اندر ایک ملین سے زیادہ لوگ اسے پڑھنے لگے۔
مزید انکشافات
دن کے مختلف وقتوں میں دودھ کی ساخت بدلتی ہے صبح کا دودھ چکنائی میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ابتدا کا دودھ اور آخر کا دودھ مختلف ہوتا ہے-انسانی دودھ میں دو سو سے زیادہ ایسے شوگر مالیکیولز ہوتے ہیں جنہیں بچہ ہضم نہیں کرتا وہ صرف آنتوں کے اچھے بیکٹیریا کو خوراک دیتے ہیں-ہر ماں کا دودھ فنگر پرنٹ کی طرح منفرد ہوتا ہے-
دو ہزار سترہ میں کیٹی کا TED Talkآیا لاکھوں لوگوں نے دیکھا۔
آج وہ ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کی لیبارٹری میں نوزائیدہ بچوں کی صحت، NICU کی دیکھ بھال،اور دنیا بھر کی پبلک ہیلتھ پالیسی میں انقلاب لا رہی ہیں۔
اصل حقیقت
دودھ دو سو ملین سال سے ارتقاء کے سفر میں ہے-ڈائنوسار بھی جب زمین پر تھے، دودھ تب بھی اپنا کام کر رہا تھا۔سائنس اسے صرف “غذا” سمجھتی رہی۔مگر یہ دراصل زمین کا سب سے ذہین، زندہ، مواصلاتی نظام تھا-ماں اور بچے کے درمیان ایک مسلسل، حساس گفتگو۔
کیٹی ہِنڈے نے ریسرچ کی کہیہ صرف غذا نہیں ماں اور بچے کے درمیان ایک ذہنی کمیونیکیشن ہے۔آپ کے خیال میں بچے کو فارمولا ملک دینا کیسا ہے؟ جبکہ قدرت نے اس کے لئے ایک بیش قیمت سسٹم تیار کر رکھا ہے ۔کیا بچے کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوتی جب اسے ڈبے کے دودھ پر لگا دیا جاتا ہے؟