تذکرہ ایک ایسے شہر کا جس کا سفر ایک سرائے سے شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک گنجان آباد علاقہ میں بدل گیا۔ اس شہر کا نام اوکاں نامی پودے سے منسوب ہے جس کا اٹھارہویں صدی عیسوی میں یہاں ایک جنگل ہوا کرتا تھا۔ اس راستے سے گزرنے والے مسافر عموماً اس گھنے جنگل میں ٹھہرا کرتے اور پھر اپنی منزل کی طرف نکل جاتے۔
اوکاڑہ کو یہ نام ملنے سے پہلے دو دوسرے نام "اوکاں والا" اور "اوکاں اڈہ" بھی حاصل رہے۔ تاریخ 1849ء میں پنجاب پر برطانوی قبضے کے بعد دو سال پاکپتن ضلعی ہیڈ کوارٹر رہا 1851میں انگریزوں نے ایک نئے ضلع منٹگمری کی بنیاد رکھی جس کا ہیڈ کوارٹر گوگیرہ کو بنایا گیا۔ تب موجودہ ساہیوال، پاکپتن اور اوکاڑہ اسی ضلع کے حصے تھے۔ 1865ء میں ضلع کا ہیڈ کوارٹر ساہیوال (تب منٹگمری) میں شفٹ کر دیا گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اوکاڑہ ضلع منٹگمری کا ایک چھوٹا سا شہر تھا۔
دی اربن یونٹ کے تحت اوکاڑہ پر تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق نہری نظام متعارف کروائے جانے سے پہلے اوکاڑہ ایک بنجر علاقہ تھا۔ 1913 میں پہلے لوئر باری دوآب اور اسکے بعد پاکپتن و دیپالپور نہروں نے اس علاقے کو کھیتی باڑی کا مرکز بنا دیا۔ 1918ء میں ریلوے لائن بچھنے سے اوکاڑہ کراچی اور لاہور سے جڑ گیا جبکہ 1925ء تک اوکاڑہ کو سڑکوں کے ذریعے سبھی بڑوں شہروں کیساتھ جوڑا جا چکا تھا۔
1913ء میں اوکاڑہ کو ٹاؤن کمیٹی اور پھر 1930ء میں میونسپل کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ میونسپل کمیٹی درجہ ملتے ہی اوکاڑہ کو تحصیل آفس اور پولیس اسٹیشن کی سہولیات بھی میسر ہوگئیں۔1936ء میں جب اوکاڑہ میں برلا گروپ نے ستلج ٹیکسٹائل مل کی بنیاد رکھی تو اوکاڑہ کیلئے معاشی ترقی کے دروازے کھل گئے۔ اردگرد کے علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس مل میں ملازمت کیلئے آکر شہر میں آباد ہو گئی۔
1942ء میں یہاں مارکیٹ کمیٹی بننے کے بعد اوکاڑہ کو زرعی اجناس کی تجارت کے علاوہ سبزی و فروٹ منڈی، غلہ منڈی، تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، گورنمنٹ ہائی سکول (بوائز و گرلز)، ٹیلیفون ایکسچینج، پاور ہاؤس، میونسپل پارک اور پوسٹ آفس کی سہولیات دستیاب ہوگئیں۔ سال 1982ء میں اوکاڑہ کو ضلع کا درجہ ملا۔
تقسیم سے پہلے اوکاڑہ کی آبادی کا بڑا حصہ ہندو اور سکھ آبادی پر مشتمل تھا جو کہ پاکستان بننے کے بعد انڈیا چلی گئی اور انڈیا سے ہجرت کر کے آنیوالے مسلمانوں کو اوکاڑہ میں زمینیں الاٹ کر دی گئیں، جس سے اوکاڑہ مزید پھیلتا گیا۔ 1967ء میں یہاں فوجی چھاؤنی بنائی گئی۔
1982ء میں اوکاڑہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا تب یہ دو تحصیلوں دیپالپور اور اوکاڑہ پر مشتمل تھا۔ 1988ء میں بابا فرید شوگر مل لگنے سے ضلع اوکاڑہ کی معاشی ترقی کو مزید تقویت ملی بعد ازاں ستلج ٹیکسٹائل مل اور بابا فرید شوگر مل کے بند ہوجانے سے اوکاڑہ کی کمرشل ساکھ کو شدید دھچکا لگا۔
حدود اربعہ کے لحاظ سے اوکاڑہ کے مشرق میں قصور، مغرب کی طرف ساہیوال اور پاکپتن، شمال میں فیصل آباد اور شیخوپورہ جبکہ جنوب میں بہاولنگر واقع ہے۔ دریائی اعتبار سے اوکاڑہ میں تین دریا مشرق میں ستلج، مغرب میں راوی اور بیاس بہتے ہیں۔ بیاس اب مکمل طور پر خشک ہوچکا ہے جبکہ ستلج میں سال کا زیادہ عرصہ پانی کی مقدار کافی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔
اگست ستمبر کے مہینوں میں بارشیں ہونے اور بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے پر اس میں بھی طغیانی آجاتی ہے۔ ضلع اوکاڑہ اس وقت تین تحصیلوں پر مشتمل ہے جس میں اوکاڑہ، دیپالپور اور رینالہ خورد شامل ہیں۔ ضلع اوکاڑہ کا رقبہ چار ہزار 377 مربع کلومیٹر ہے۔ ۱۹۹۸ کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی تقریباً بائیس لاکھ تھی جو کہ اس وقت ایک اندازے کے مطابق بتیس لاکھ ہوچکی ہے۔ یہاں کی تین تحصیلوں میں رینالہ خورد، دیپالپور، اوکاڑہ میں پانچ ایم این اے اور دس ایم پی اے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئیں حالیہ حلقہ بندیوں کے تحت ضلع اوکاڑہ کو 140 یونین کونسلوں اور سات مونسپل کمیٹیوں (اوکاڑہ، دیپالپور، رینالہ خورد، بصیر پور، حویلی لکھا، حجرہ شاہ مقیم اور منڈی احمد آباد) میں تقسیم کیا گیا ہے۔
تعلیمی لحاظ سے ضلع اوکاڑہ میں بارہ ڈگری کالجز، پانچ ہائر سکینڈری سکولز، ایک سو بیالیس سکینڈری، ایک سو اکاون مڈل سکول، بارہ سو ستاون پرائمری سکول جبکہ ایک یونیورسٹی بھی موجود ہے۔
اس علاقہ میں بسنے والی مشہور ذاتوں میں سید، شیخ، آرائیں، بودلہ، راؤ، بھٹی، جٹ، کمیانہ، سیال، گجر، کمبوہ، بلوچ، وٹو، جوئیہ، ڈوگر اور کھرل شامل ہیں۔
اہم شخصیات میں مولانا محمد لکھوی کے بیٹے معین الدین لکھوی ہیں جو ممبر قومی اسمبلی رہے اور انہیں ستارہ امتیازسے نوازا گیا۔اوکاڑہ کے راؤ سکندر اقبال سال 07۔2002 تک وزیر دفاع رہے۔ میاں منظور وٹو سابقہ وزیر اعلی پنجاب ،میاں محمد زمان وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی رہے۔ اب ان کے بیٹے میاں یاور زمان صوبائی وزیر برائے آبپاشی ہیں۔ اسکے علاوہ اوکاڑہ کے سید صمصام بخاری وفاقی پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات و نشریات، رانا اکرام ربانی اور اشرف خان سوہنا بھی صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔
مشہور افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر اور نقاد ،علی اکبر ناطق، صف اول کے افسانہ نگار افسانہ نگار سید گلزار حسنین، نامور شاعر مسعود احمد، صحافی آفتاب اقبال، جنید احمد، ادیب ظفر اقبال، شاعر اقبال صلاح الدین، پنجابی شاعر بابو راج علی اور ابھرتے ہوئے نوجوان لکھاری ندیم احمد ندیم کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے جبکہ محمد حنیف جنہوں نے اوکاڑہ پر ایک مشہور کتاب :A CASE OF EXPLODING MANGOES" لکھی، کا تعلق بھی اسی ضلع سے ہے۔
یہاں پائے جانے والے درختوں میں کیکر، اوکاں، بیری اور ونڈ پائے جاتے ہیں۔ اوکاڑہ میں آلو کی منڈی ایشیا کی سب سے بڑی منڈی مانی جاتی ہیں۔اوکاڑہ میں سے گندم، مکئی، ٹماٹر، چاول، کپاس، آم اور مالٹا سب سے زیادہ کاشت کی جاتی ہیں۔
ایک تاریخی شخصیت میر چاکر خان رند، بلوچ قبیلے رند کا سردار تھا جس نے۱۵۱۸ء میں اوکاڑہ کے علاقہ ستگھرہ کو اپنا مسکن بنایا۔ وہ اپنی فوج کے ہمراہ پنجاب پر حملہ آور ہونیوالی افغان فوجوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ شیر شاہ سوری اور مغل بادشاہ ہمایوں کی لڑائی میں انہوں نے مغل بادشاہ کا ساتھ دیا۔ 1556ء میں دہلی تخت پر بیٹھنے کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں نے میر چاکر رند کو ایک بڑی جاگیر سے نوازا۔ میر چاکر خان رند کی وفات 1565ء میں ہوئی۔ ان کا مقبرہ
آج بھی ستگھرہ میں موجود ہے۔
احمد خان کھرل پنجاب کی دھرتی کا وہ سپوت ہے جس نے رنجیت سنگھ کے بعد انگریز کا اس علاقے میں راستہ روکا۔ اوکاڑہ کے گاؤں جھامرے سے تعلق رکھنے والے اس راٹھ نے مقامی قبائل کو نہ صرف ایک جگہ اکٹھا کیا بلکہ انگریز کیخلاف بغاوت کیلئے آمادہ بھی کیا۔اوکاڑہ کے اس سپوت کو 21 ستمبر 1857 کے دن شہید کیا گیا۔