حضرت، چند باتیں بہت پریشان کرتی ہیں؟ میں نے حضرت سے پوچھا۔پوچھو کیا مسئلہ ہے؟ حضرت نے جواب دیا۔ حضرت ، گو کہ میں جانتا ہوں صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ لیکن پھر بھی خود پر قابو نہیں۔ اس مسئلے کا کیا حل ہے؟بھئی دیکھو، محض یہ جاننا ضروری نہیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ سب سے پہلے تو ‘‘خود’’ کو جاننا ضروری ہے۔اچھا؟ تو پہلے وہی بتائیے۔ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔دیکھو میاں، ایک کار کا تصور کرو۔ اس کار کا مالک پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہے۔ دوسرا شخص ڈرائیور جو اس کا ملازم ہے وہ کار چلا رہا ہے اور تیسرا فریق وہ کار ہے جس میں یہ دونوں بیٹھے ہیں۔ اب یوں سمجھو کہ یہ کار ہمارا مادی وجود یعنی جسم ہے، ڈرائیور ہمارا مائینڈ اور مالک ہم خود یعنی ہماری اپنی شخصیت۔وہ کیسے؟ میں نے شوق سے پوچھا۔دیکھو، اس کار کا ایک ظاہری ڈھانچہ ہے جو سمجھ لو ہمارا ظاہری بدن ہے۔ اس کار کا اندرونی نظام جیسے انجن، الیکٹرک کا نظام وغیرہ ہمارے جسم کے اندرونی اعضاء کی مانند ہیں جیسے دل، گردے پھیپڑے وغیرہ ۔اچھا کیا کار خود بخود چل سکتی ہے؟نہیں، میں نے جواب دیا۔ اسے پٹرول کی ضرورت ہے جیسے انسان کو غذا کی۔ارے بھئی، اگر پٹرول بھی ہو تو کیا خود بخود چل سکتی ہے یا کوئی چلانے والا ہونا چاہیے؟ حضرت نے دوبارہ پوچھا۔جی بالکل، ایک ڈرائیور ہوتا ہے جو اسے چلاتا ہے۔تو بس سمجھ لو، جس طرح کار کو چلانے کے لیے ڈرائیور ہوتا ہے، ایسے ہی جسم کو چلانے کے لیے مائینڈ یا دماغ ہوتا ہے جسے قدیم اصطلاح میں دل بھی کہا جاتا ہے۔ بس تو سمجھ لو، ڈرائیور کے پیچھے بیٹھا مالک ہماری اپنی شخصیت ہے جسے قدیم اصطلاح میں خودی، انا، نفس وغیر ہ کہا جاتا ہے۔ اب کچھ سمجھے کہ معاملہ کیا ہے؟حضرت نے پوچھا۔اوہ، یہ تو گتھی سلجھتی جارہی ہے۔ کار میرا جسم ہے، ڈرائیور، میرا دل یا مائینڈ اور اس کے پیچھے بیٹھا ہوا شخص ان سب چیزوں کا مالک یعنی میں ہوں۔ میں نے کہا۔ہاں بس ایک اور چیز کا اضافہ کرلو۔ کار کے شیشے اور کھڑکیاں انسان کے اعضا یعنی ناک، کان، آنکھیں، زبان اور لمس کی مثال ہیں جن سے میں باہر کی دنیا سے رابطہ رکھتا ہوں۔پس جان لو کہ کار ہمارا جسم ہے، مالک ہمارا باطن اور ڈرائیور ہمارا دل، کھڑکیاں اور دروازے ہمارے ناک، کان، زبان، لمس اور آنکھیں اور کار سے باہر باقی دنیا موجود ہے۔
اب سوچو، اگر ڈرائیور اپنے مالک سے باغی ہو کر اپنی مرضی چلانے لگے، وہ کھڑکی سے نظر آنے والے ہر خوبصورت منظر کو غور سے دیکھے، باہر کے دل کش میوزک ہی کو سننے کے لیے رک جائے، ساتھ چلنے والی کاروں کے ڈرائیور وں سے بات کرتا رہے، جہاں چاہے کار کو لیے پھرے، کسی قانون کی پابندی نہ کرے، نہ سگنل پر رکے نہ اسپیڈ کا خیال رکھے اور نہ ہی سڑک پر موجود دوسری گاڑیوں کو خاطر میں لائے تو کیا مالک کبھی اپنی منزل تک پہنچ پائے گا؟ اس کا انجام کیا ہوگا؟یہ شخص تو اپنے مالک کو بھی حادثے سے دوچار کرے گا اور اپنی کار کو بھی۔ میں نے کہا۔بس تو جان لو، جس شخصیت کے قابو میں اس کا اپنا ڈرائیور یعنی دل نہیں وہ اپنے جسم اور روح یا ظاہر و باطن دونوں کی ہلاکت کی تیاری کر رہا ہے۔ اور یہ بھی جان لو کہ ڈرائیور یعنی دل کو قابو نہ کیا جائے تو یہ آزادی کی مستی میں کبھی جنسی لذت کی کھائیوں کی جانب دوڑے گا تو کبھی نشے کی وادیوں میں سکون تلاش کرتا پھرے گا۔ کبھی یہ دوسرے ڈرائیوروں سے حسد کرتے ہوئے تیز رفتاری کا مظاہرہ کرے گا تو کبھی جیتنے والوں پر الزام تراشی، بدگمانی اور بدتمیزی سے زیادتی کرنا چاہے گا۔ارے تو اس کا مالک اسے کچھ نہیں کہتا؟ میں نے پوچھا۔یہی تو مسئلہ ہے۔ جب مالک کا کنٹرول ڈرائیور پر کمزور پڑ جاتا ہے اسی بنا پر تو یہ ایسی حرکتیں کرتا ہے۔ پھر یہ ڈرائیور یا دل بہت چالاک ہوتا ہے۔ اسے علم ہے کہ اس کا مالک اگر مضبوط ہوگیا تو اس کی آزادی خطرے میں ہے۔ چنانچہ یہ اپنے مالک کو جھانسے میں لے آتا ہے۔ یہ بھی کھڑکیوں کے باہر جنسی مناظر میں مالک کو مشغول کر دیتا ہے۔ یہ اسے اچھے کھانے کھلا کھلا کر سست اور کاہل بنا دیتا ہے۔ یہ اسے لوگوں سے لڑوا کر اس کو الجھا دیتا ہے کہ مالک کو اس دل کی جانب نظر کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ارے تو یہ دل ایسا ظلم کیوں کرتا ہے؟ میں نے پوچھا۔دیکھو بھئی، دل تو ایک ڈرائیور کی مانند ہے جس کا کام حکم ماننا ہے۔ یہ جو مالک ہے نا، یہ انسان کی روح ہے۔ یہ وہ روح ہے جو خدا نے انسان میں پھونکی۔ یہ روح خدا کی پھونک ہے۔ یہ ایک طرح کا ایک دم ہے جو خدا نے انسان پر کیا ہے تاکہ اپنی کچھ صفات ادنیٰ درجے میں انسان میں منتقل کر کے اسے جانوروں سے افضل بنائے۔ جب انسان ان خدائی رنگوں یعنی صفات کو استعمال نہیں کرتا اور اپنے اعضا پر کنٹرول ختم کر دیتا ہے تو اب یہ رحمانی صفات یا رنگ میلے ہونے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ گندگی میں تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ اب اس گندگی میں شیطان ڈیرے ڈالنا شروع کردیتا ہے۔جب یہ رنگ میلے ہوجاتے ہیں تو انسانی شخصیت شیطان کی آلہ کار بن جاتی ہے۔ اب دل پر نفس لوامہ کی بجائے نفس امارہ کا قابو ہوتا ہے۔ اب یہ خدائی صفات کی حامل روح کی بجائے شیطانی ارواح کے قابو میں آجاتا ہے۔ پھر یہ اسے جہاں چاہے لیے پھرتے ہیں۔
ارے تو اس دل، مائینڈ یا ڈرائیور پر قابو کیسے کیا جائے؟ اصل سوال تو یہی ہے؟ میں نے پھر پوچھا۔اب اس کا جواب بہت آسان ہے۔ لیکن یہ جواب تم بتاؤ گے۔ اچھا یہ بتاؤ جب ڈرائیور کو ہم پہلی مرتبہ ملازم رکھتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟اسے بتاتے ہیں کہ تمہارے کیا اوقات ہیں، کیا تنخواہ ہے، کب چھٹی اور کب نہیں۔ مالک کو کیا پسند ہے اور کیا نہیں وغیرہ۔ میں نے کہا۔
درست کہا تم نے۔ یہی معاملہ ہمیں اپنے دل کے ساتھ بھی کرنا ہے۔ اسے سختی سے بتا دینا ہے کہ جائز کیا ہے ناجائز کیا ہے، ہماری اصل شخصیت کے لیے کیا درست ہے اور کیا نہیں، کب اٹھنا اور کب سونا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ بتا دینا ہے کہ مالک کی مرضی چلے گی، ڈرائیور کی نہیں۔ اسے جدید اصطلاح میں ایجوکیشن کہتے ہیں۔ اچھا بتاؤ اس کے بعد کیا کرتے ہیں۔اگر ڈرائیور کام صحیح نہ کرے تو اسے سزا دیتے ہیں۔ میں نے جواب دیا۔ارے نہیں، اتنی جلدی سزا کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسے کچھ ہفتے یا مہینے تربیت سے گزارو۔ اپنی مرضی سے آگاہ کرو، ہلکی پھلکی تنبیہ کرو۔ اسے جدید اصطلاح میں ٹریننگ کہتے ہیں۔اس کے بعد اگر وہ نہ مانے تو سزا دینی ہے؟ میں نے کہا۔ارے میاں تمہیں سزا کی بہت جلدی ہے لگتا ہے مستقبل میں مولوی بننے کا ارادہ ہے۔ اب دو مرحلے مکمل ہوگئے ہیں ایک ایجوکیشن اور دوسرا ٹریننگ۔ اب اگلا مرحلہ ہے ڈسپلن جس میں سزا ہی نہیں جزا کا نظام بھی ہے۔ ڈرائیور کو اچھی طرح سے بتا دو کہ حکم کی خلاف ورزی کی سزا بھی ہوگی۔ جیسے جھوٹ بولنے پر اس کی تنخواہ کا دس فی صد حصہ صدقے میں دے دیا جائے گا، کسی فحش سائٹ کو دیکھنے پر روزہ رکھنا ہوگا، کسی کو گالی دینے یا جھگڑا کرنے پر انا کو کچلنے کے لیے سر عام معافی مانگنی ہوگی وغیرہ۔اچھا، زبردست۔ لیکن مزید جرمانے بھی تو ہوسکتے ہیں نا؟ہاں، جرمانہ مالی، بدنی یا دونوں ہوسکتے ہیں۔ بس یہ خیال رہے کہ نہ تو جرمانہ اتنا ہلکا ہو کہ ڈرائیور کو کوئی فرق ہی نہ پڑے اور نہ اتنا بھاری کہ ڈرائیور کا کچومر نکل جائے اور وہ سرکش ہو کر بھاگ ہی جائے۔ اس کے علاوہ صرف سزا کا نظام ہی نہ رکھو۔ کبھی ڈرائیور کو آرام بھی دو، کبھی اس کی مرضی بھی چلنے دو لیکن اس طرح کہ تمہارے حکم پر ہی اسے محدود آزادی ملے۔ اسے اچھا کام کرنے پر شاباش دو۔ کبھی اسے کھانا کھلانے اچھی جگہ لے جاؤ، کبھی جائز حدود میں اسے زبردستی تفریح پر بھیجو، کبھی کچھ دنوں کے لیے اسے ڈسپلن سے محدود چھٹی بھی دو۔ارے، یہ تو میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے؟
بھئی یہی تو ایک مینٹر اور عام استاد میں فرق ہوتا ہے۔ تو اب ذرا جلدی سے بتاؤ کیا سمجھے؟جی میرا دل ڈرائیور ہے جو میرا یعنی میری اصل باطنی شخصیت کا غلام ہے اور کار میرا جسم۔ اگر ڈرائیور کو ایجوکیشن، ٹریننگ اور ڈسپلن سے قابو نہ کیا جائے تو یہ میری ظاہری شخصیت کو بھی تباہ کر کے بیمار، لاغر، موٹا، بھدا، سست اور کاہل بنا دے گا اور میری باطنی شخصیت کو بھی ہائی جیک کر کے اسے شیطان کے ہاتھوں یرغمال بنا دے گا۔ چنانچہ مجھے سب سے پہلے اس کو قابو کرنا ہے۔ اسے بتانا ہے کہ کان، ناک، ہاتھ، منہ، زبان،چلنا پھرنا، کھانا پینا اور سونا جاگنا ہر کام میرے حکم ہی سے ہوگا۔ اور یہ نہ مانے تو سزا اور جرمانہ اور مانے تو جزا اور انعام۔درست سمجھے۔ لیکن خالی سمجھنا کافی نہیں، عمل ضروری ہے ورنہ سمجھ لو ڈرائیور نے ایک اور جھانسا دے دیا کہ مجھے تو سب
پتا ہے۔٭٭٭